• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد میں فیض آباد انٹر چینج سمیت پورے ملک میں مذہبی جماعت کے دھرنے کا 21روز تک شدید کشیدگی، پولیس ایکشن، چند قیمتی جانوں کے ضیاع، گاڑیوں اور املاک کی توڑ پھوڑ، جلائو گھیرائو، پکڑ دھکڑ اور وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے کے بعد حکومت اور دھرنا قائدین کے درمیان فوج کی مدد سے ہونے والے اتفاق رائے کے نتیجے میں باقاعدہ معاہدہ طے پانے کے بعد پیر کوخاتمہ بالخیر ہو گیا جس پر قوم نے اطمینان کا سانس لیا۔ معاہدے کے اعلان کے بعد اسلام آباد راولپنڈی کراچی، لاہور اور دوسرے مقامات پر دھرنوں کے شرکا نے سامان سمیٹنا اور اپنے گھروں کو جانا شروع کر دیا جو 12گھنٹے میں مکمل ہو جائیگا۔ اس کے ساتھ ہی ملک بھر کی سڑکیں کھل گئیں۔ ٹرانسپورٹ چلنا شروع ہو گئی، ٹرین سروس بحال ہو گئی اور بند مارکیٹیں بھی کھل گئیں۔ معاہدے کی رو سے تحریک لبیک کے مطالبے پر وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے اتوار کی رات اپنا استعفیٰ وزیراعظم کو پیش کر دیا تھا جسے منظور کر لیا گیا ہے۔ تحریک ان کے خلاف کسی قسم کا کوئی فتویٰ جاری نہیں کریگی۔ حکومت نے الیکشن ایکٹ2017 کی شق7بی اور 7سی کو مکمل متن اردو ترجمے کے ساتھ ختم نبوت کے حلف نامے میں شامل کر لیا ہے جس کی تحریک لبیک نے ستائش کی ہے۔ یہ بھی طے پایا ہے کہ راجہ ظفرالحق کی انکوائری رپورٹ30روز میں منظر عام پر لائی جائیگی اور جو بھی اشخاص ذمہ دار قرار پائے ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ تحریک کے گرفتار شدہ افراد کو 3دن میں رہا کردیا جائے گا اور انکے خلاف مقدمات ختم کر دیئے جائیں گے۔ ایک انکوائری بورڈ تشکیل دیا جائے گا جو30روز کے اندر تمام معاملات کی چھان بین کرکے ذمہ داران کا تعین کریگا اور ان کے خلاف کارروائی کی آغاز کیا جائیگا۔ اس بات کا اقرار کیا گیا کہ یہ معاہدہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کی نمائندہ ٹیم کی خصوصی کاوشوں کے ذریعے طے پایا جس کیلئے ان کا شکریہ ادا کیا گیا اور کہاگیا کہ انہوں نے قوم کو ایک بہت بڑے سانحے سے بچا لیا۔حکومت پنجاب سے جن متعلقہ نکات پر اتفاق ہوا ہے ان پر بھی من و عن عمل کیا جائیگا۔ فوج کی اعانت سے حکومت اور دھرنا قائدین کے درمیان دھرنے ختم کرنے کا معاہدہ بلاشبہ مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کرنے کے ضمن میں بہت بڑی کامیابی ہے۔اس سے ملک میں خانہ جنگی کا خطرہ ٹل گیا ہےدھرنا ختم کرانے کیلئے طاقت کے استعمال کی بجائے مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کرنے کا صائب فیصلہ اتوار کو وزیراعظم کی زیر صدارت اعلیٰ سطحی اجلاس میں ہوا تھا جس میں آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی اور دوسری با اختیار شخصیات نے شرکت کی۔ اس کا مثبت نتیجہ برآمد ہوا اور قوم کو اس اعصاب شکن بحران سے چھٹکارا ملا جو تین ہفتے سے جاری تھا۔ ختم نبوت ہر مسلمان کے عقیدے کا بنیادی جزو ہے اور پارلیمنٹ اس کا نوٹس لے کر اسے طے کر چکی تھی۔ بات اب اتنی سی تھی کہ متفقہ قانون میں ترمیم کے ذمہ داروں کی نشاندہی کی جائے اور ان کیخلاف کارروائی کی جائے۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر قانون کے استعفے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا جو اتنی تاخیر کی بجائے اپنے خلاف فتوئوں کے خدشات دور کرا کے پہلے ہی دے دیتے تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی اس معاملے میں آرمی چیف کا کردار قابل ستائش ہے جنہوں نے وزیراعظم کو ٹیلی فون کرکے مسئلے کے پرامن حل کا مشورہ دیا۔ انہوں نے درست کہا کہ اپنے ہی لوگوں کے خلاف طاقت کا استعمال درست نہیں۔ عسکری قائدین کی مشاورت سے دھرنوں کا خاتمہ اس موقف کے درست ہونے کی بین دلیل ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ریاستی ادارے ایک پیج پر ہوں اور باہمی مشاورت سے کام لیں تو بڑے سےبڑے مسئلہ کا بھی افہام و تفہیم سے قابل عمل حل نکل سکتا ہے۔ اب جبکہ یہ معاملہ بخیر و خوبی طے ہوگیا ہے تو کوشش کی جائے کہ مستقبل میں ان غلطیوں کا اعادہ نہ ہونے دیا جائے جو اس کا سبب بنیں اور قوم کو خلفشار میں مبتلا کردیا۔ حکومتوں سے شکایات عام معمول ہیں۔ ان کے ازالے کیلئے قومی مفاد ہر قیمت پر مدنظر رکھنا چاہئے۔

تازہ ترین