• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی سفارت اور قونصل خانے جہاں بھی قائم ہیں وہ اُن ممالک کے ساتھ اقتصادی اور ثقافتی تعلقات کو فروغ دینے اور وہاں مقیم تارکین وطن پاکستانیوں کو درپیش مسائل حل کرنے کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ پاکستانی سفیر اپنے عملے کے ساتھ مقامی اداروں اور غیرملکی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کرتے ہیں اور انہیں اپنے مذہبی اور قومی دنوں کی تقریبات میں مدعو کرکے اپنی قوم کے رہن سہن، مقامی کمیونٹی کے بارے میں پاکستانیوں کے خیالات اور پاکستانیوں کے حوالے سے مقامی کمیونٹی اور سرکاری اداروں سے ملنے والی اطلاعات اور معلومات وہاں مقیم اپنے ہم وطنوں تک پہنچاتے ہیں، دیارِغیر کی جیلوں میں بند پاکستانیوں سے ملاقاتیں، میت کو پاکستان پہنچانے کے لئے کاغذی کارروائی، پاسپورٹ کی تجدید، دوسرے ممالک میں رہائشی معاملات کے حوالے سے کاغذات کی تصدیق، نادرا شناختی کارڈ اوردہری شہریت سمیت سرکاری کاغذات کو مقامی حکومت تک پہنچاتے ہیں تاکہ ثابت ہو کہ متعلقہ شخص کا تعلق پاکستان سے ہے۔ دُوسرے ممالک کے دارلحکومت میں پاکستانی سفارت خانہ اور اُسی ملک کے جس شہر میں پاکستانی زیادہ تعداد میں آباد ہوں وہاں پاکستانی حکومت قونصل خانہ قائم کر دیتی ہے۔ تارکین وطن پاکستانی خطیر رقوم اپنے اہل خانہ کو بھیجتے ہیں تو زرِمبادلہ کی مد میں اُس رقم کا کچھ حصہ پاکستان کے قومی خزانے کو بھی سیراب کرتا ہے جو ڈالرز کی شکل میں ہوتا ہے، یعنی یہ کہنا غلط نہیں کہ پاکستان کی معیشت کی ترقی میں تارکین وطن پاکستانی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود تارکین وطن پاکستانی اپنے سفارت خانوں اور قونصل خانوں سے ہمیشہ نالاں نظر آتے ہیں’’عملے اور سہولتوں‘‘ کی کمی قونصل خانوں کی جانب سے استعمال ہونے والا ایسا یونیورسل لفظ ہے جس کےمعنی یا جواب اب تک ایجاد نہیں ہوا۔ چونکہ قونصل خانے وہاں بنائے جاتے ہیں جہاں تارکین وطن پاکستانیوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اِسی لئے2007 میں اسپین کے صوبے کاتالونیا کے صوبائی دارلحکومت بارسلونا میں 65ہزار کے قریب مقیم پاکستانیوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے پاکستانی قونصل خانہ قائم کیا گیا، جس کا مقصد یہی تھا کہ صوبائی حکومتی اداروں، مقامی پولیس، صوبائی وزرا، بارسلونا چیمبر آف کامرس اور دوسرے ممالک کے قائم شدہ قونصل جنرلز سے پاکستان میں سرمایہ کاری، سی پیک اور دوسرے منصوبے کی تفصیلات ،پاکستان میں امن و عامہ کی موجودہ صورت حال اور اِس طرح کے دوسرے بہت سے موضوعات پر بات چیت کی جائے اس کے لئے فارن آفس اسلام آباد سے قونصل جنرل تعینات کیا جاتا ہے، لیکن افسوس کہ سابق قونصل جنرل جو اپنی مدت ملازمت پوری کرکے یہاں سے جا چکے ہیں تقریباً آٹھ ماہ ہوگئے اُن کی جگہ کوئی نیا قونصل جنرل تعینات نہیں کیا جا سکا، اِسے حکومتی اداروں اور فارن منسٹری کی کوتاہی نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟ ویلفیئر قونصلر بارسلونا عمر عباس میلہ بطور قائم مقام قونصل جنرل کام کررہے ہیں اور وہ فارن سروسز سے نہیں بلکہ کسی دوسرے محکمے سے قونصلیٹ آفس میں تعینات ہوئے ہیں، وہ بیچارے فارن سروسز کے معاملات اور دو ممالک کے مابین اقتصادی اور ثقافتی تعلقات کے فروغ کے حوالے سے لاعلم ہیں، فارن آفس سے عمران چوہدری کو بطور قونصل جنرل تعیناتی کے آرڈرز ملنے کے با وجود وہ بارسلونا آنے سے انکاری ہیں اُن کا کہنا ہے کہ یہ اسٹیشن متنازع اور میرے مزاج کے بر عکس ہے لہٰذا میں وہاں نہیں جاؤں گا، حکومت پاکستان کا ملازم ہونے کے باوجود ان کا پسند اور ناپسند کا فلسفہ ہماری سمجھ سے بالا تر ہے۔ دُوسری طرف پاکستانی سفارت خانہ میڈرڈ جو بارسلونا سے 750کلو میٹر فاصلے پر قائم ہے وہاں سفیر پاکستان رفعت مہدی اور اُن کی ٹیم جس میں قونصلر امتیاز فیروز گوندل کا نام سرفہرست ہے نے پاکستانیوں کے لئے چھٹی والے دِن بھی ایمبیسی کے دروازے کھول رکھے ہیں، ہسپانوی بادشاہ سے لے کر مقامی قومی اخبارات کے دفاتر کا دورہ اور اُن اخبارات کے ایڈیٹرز کو بتانا کہ پاکستان کا صحیح اور مثبت چہرہ کیا ہے، انہوں نے میڈرڈ کے ڈپلومیٹک بازار میں پاکستانی کلچرل اسٹال لگایا تو وہاں ہسپانوی ملکہ صوفیہ سمیت دوسرے ممالک کے سفیروں کی خاصی دلچسپی دیکھنے کو ملی۔ بارسلونا سے اگر کسی پاکستانی ایسوسی ایشن یا فیڈریشن نے سفارت خانہ میڈرڈ کو کسی پروگرام میں مدعوکیا تو وہ کبھی ٹرین، گاڑی اور کبھی جہاز میں پاکستانیوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے بارسلونا پہنچ گئے، سفیر پاکستان نے ان کو پاکستانی کمیونٹی کے حوالے سے خصوصی ٹاسک دے رکھا تھا، ہر ماہ سفارت خانہ پاکستان میڈرڈ میں کمیونٹی سے میٹنگ کا اہتمام، کسی پاکستانی کی میت کو پاکستان روانہ کرنے میں کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو فوراً حل کیا جانا، ہسپانوی مقامی محکموں اور کمیونٹی کو پاکستان کے سوفٹ امیج کا بتانا، کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و تشدد پر تصویری نمائش کا اجرا اور مقامی حکومت کو پاکستانی حکومت کا ’’کشمیر کاز‘‘ پر دو ٹوک موقف پہنچانا، امتیاز فیروز گوندل اپنی تین سالہ مدت ملازمت پوری کرکے واپس فارن آفس اسلام آباد جا چکے ہیں، لیکن آج بھی پاکستانی کمیونٹی اُن جیسا فرض شناس اور دردِ دل رکھنے والا سفارت کار ڈھونڈ رہی ہے، میرا خیال ہے کہ قونصل جنرل بارسلونا کی کمیونٹی سے عدم دلچسپی کی وجہ امتیاز فیروز گوندل کو بارسلونا میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے پروگراموں میں مدعو کرنے کا سبب بنتی تھی۔ پاکستانی کمیونٹی چاہتی ہے کہ جو سفارت کار دوسرے ممالک میں تعینات ہو اُسے اخلاقیات، پاکستانی کمیونٹی سے اپنائیت بھرا لہجہ اور جائز کاموں میں کمیونٹی کا ہاتھ بٹانے کی خصوصی تربیت دے کر بھیجا جائے، بلا شبہ اسپین میں مقیم پاکستانی کمیونٹی امتیاز فیروز گوندل کی اُن خدمات کو کبھی فراموش نہیں کر سکے گی جو انہوں نے سرانجام دیں۔ پاکستانی کمیونٹی قونصل جنرل بارسلونا کی تعیناتی میں تاخیر کی وجہ سے قونصلیٹ آفس کے عملے کی من مانیوں پر سخت پریشان ہے، سابق قونصل جنرل بارسلونا نے اپنی مدت ملازمت میں پاکستانی کمیونٹی سے دُوری رکھنے کو ترجیح دی تھی اور اب اُن کے قائم مقام بھی اُن کی دُوری روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ قونصلیٹ آفس بارسلونا کا عملہ پاکستانی کمیونٹی سے ناروا سلوک روا رکھتا ہے، عملے کے کچھ افراد وزارت داخلہ اور وزرات خارجہ سے ہیں لیکن جو پاکستانی ملازمین مقامی طور پر بھرتی کئے گئے ہیں وہ پاکستانیوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے، اُن مقامی پاکستانی ملازمین کو کس قانون کے تحت اور کس نے بھرتی کیا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات یا تو کوئی دینا نہیں چاہتا یا کسی کے پاس نہیں؟ شاید یہی وجہ ہے کہ اسپین میں مقیم تارکین وطن پاکستانی اُسی امتیاز کے منتظر ہیں جو ہر کام بلا امتیاز کرتا تھا ۔

تازہ ترین