• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صائب و مستحسن فیصلہ
سپریم کورٹ، اورنج ٹرین منصوبہ بحال۔ ہم اکثر ٹھیک چلتے چلتے بے ہنگم چلنے لگتے ہیں، اورنج ٹرین منصوبہ سے لاہور کو سہولت اور خوبصورتی ملے گی۔ 22 ماہ کا عرصہ لگ بھگ دو برس ہوتے ہیں۔ اب تک تو یہ مکمل بھی ہو جانا تھا، سپریم کورٹ کے صائب فیصلے سے لاہور جو زمین و آسمان کے درمیان معلق تھا اب پھر سے نارمل پوزیشن پر آ جائے گا۔ ترقی کے کسی کام کا رکنا نقصان کا باعث تو بن سکتا ہے اس سے کسی کو بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، سیاسی کشاکش میں عوام کی بہبود کے کاموں کا رکنا براہ راست عوام کو اذیت میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے، سپریم کورٹ نے بحالی کے احکامات جاری کر کے متاثرین کو سکھ کا سانس فراہم کیا، پرانے تاریخی کھنڈرات کی حفاظت کرتے کرتے چاہے ہمارے شہر کھنڈر بن جائیں یہ تو کوئی اچھی سوچ نہیں، خان صاحب نے اس منصوبے میں رکاوٹ ڈال کر اپنی طرز حکومت کی ایک جھلک دکھا دی، وزیر اعلیٰ پنجاب کو کچھ بھی کہیں مگر اپنے صوبے کو ترقی دینے کے حوالے سے کوئی ان پر انگلی نہیں اٹھا سکتا، ہمارے سیاستدان حکومت کے اچھے کاموں کی مخالفت کو اگر سیاست سمجھتے ہیں تو وہ یہ نقصان عوام کا کرتے ہیں جن کے پاس انہوں نے ووٹ لینے جانا ہے، یہ مقدمات، یہ تنازع یہ رسہ کشیاں رسہ گیریاں تو چلتی رہتی ہیں مگر کوئی بھی دانشمند قیادت چلتے گھوڑے کو چابک رسید نہیں کرتی، اکثر ہاتھیوں کی لڑائی میں بے بس کمزور ہی کچلے جاتے ہیں ایسا تو کہیں نہیں یہ اکھاڑہ بھی ہماری ہی سرزمین پر کیوں ہے، اورنج ٹرین، سنگترے چوسنے کے لئے نہیں چلائی جا رہی اس سے لاہور کے شہریوں کو جدید ترین سفری سہولت ملے گی، اور یہ اورنج رنگ کی ہو گی، اس رنگ میں بھنگ ڈالنے کی کوشش سے کیا ملا؟ 22 ماہ کی تاخیر! کیا یہ ہے ’’عمرانی‘‘ فلسفہ؟ خدا کے بندے اپنی سیاست کرو مگر عوامی مفادات تو مت روکو، رکا ہوا کام شروع کر دیا گیا ہے، لاہور کا حسن اس طرح دوبالا ہو گا کہ ہم خرما و ہم ثواب۔
٭٭٭٭
پیمرا، اِن کیمرہ
مجھے پیمرا کی جانب سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آتا رہتا ہے اس لئے کہ اس کی باگ ڈور میرے قبیل کے ایک رجل رشید کے ہاتھ میں ہے، قلم قبیلے کے رشتے بہت پکے ہوتے ہیں کیونکہ یہ دستاویزی ہوتے ہیں، ابصار عالم جب آئے تھے تو ساتھ بصائر عالم لے کر آئے تھے۔ مگر ان کو اپنی سی کسی نے کرنے نہ دی، اور اپنے ہی قبیلے سے جب حوصلہ شکنی کی گئی تو میدان صحافت کے اس مرد نے یہی سوچا ہو گا۔
چوں کفر از کعبہبرخیزد کجا ماند مسلمانی
بہرحال اب بھی ان افراد کی اکثریت ہے جو اس تصور ہی سے خوش ہیں کہ پمیرا پر کوئی بیورو کریٹ براجمان نہیں اپنے ہی ایک سینئر صحافی اپنے فرائض بخوبی نبھا رہے ہیں، ہماری گزارش ہے کہ وہ معیار صحافت، اخلاقیات صحافت کے لئے جو نیک ارادے رکھتے ان کی تکمیل میں رکاوٹ بنیں نہ بننے دیں، پیمرا کا چیئرمین ایک سینئر فعال صحافی ہی کو ہونا چاہئے تھا، الحمد للہ کہ ہماری یہ آرزو پوری ہوئی، اب تک کی کارکردگی پر انگشت نمائی نہیں کی جا سکتی، ہمارے پرنٹ میڈیا کے ساتھی ہوں یا الیکٹرانک کے بعض اوقات صوت و قلم کی آبرو کا لحاظ کرنا بھول جاتے ہیں، پچھلے دنوں جب تمام چینلز کچھ دیر کے لئے میوٹ کر دیئے گئے تھے تو ایسا کرنا غلط تھا یا صحیح مگر یہ تو سچ کہ ہم نے بھی صحافتی ضابطے ہوا میں اڑا دیئے تھے، آخر آزادیٔ گفتار و اظہار کی بھی حدود ہوتی ہیں، اگر آزادی بوجھ بن جائے تو وہ معاشرے کو غلام بنانے کا پاپ کرتی ہے، اور سچ فرمایا تھا حضرت اقبال نے؎
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گِل بھی ہے
انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے
یہ چند سطریں پیمرا سے متعلق میرے ذہن کے کیمرے میں رقم تھیں آج ان کو نقل کر کے تحریر کر دیا کہ یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم صحافی پیمرا کو ایک صحافی کے زیر انتظام دیکھ کر بہت خوش ہیں، حق بہ حقدار رسید۔
٭٭٭٭
کانجی ہائوس بمقابلہ میڈیا ہائوس
ہمیں آج تک یہ بات سمجھ نہ آ سکی کہ ایک بڑے میڈیا ہائوس سے ٹکریں مارنے کا کیا فائدہ؟ ماسوا اس کے کہ لیا اپنا ہی سر پھوڑ! ڈھٹائی اور بد لحاظی کا یہ عالم کہ نام لے لے کر تبرا پڑھنا روزانہ کا معمول ہے، ہماری اتنی سی گزارش ہے اس ملک میں صحافت کی بنیاد رکھنے والے سب سے بڑے اور قدیم صحافتی مرکز کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنا کر خود کو چھوٹا تو کیا جا سکتا ہے کوئی بڑا مقام حاصل نہیں کیا جا سکتا، ہمیں ان معدودے چند میڈیا ہٹس کی اوقات اور ان کی تاریخ معلوم ہے، ان کی پشت پر موجود لوگ یا ان کے مالکان کوئی ورکنگ جرنلسٹس نہیں، پیسہ کہیں اور سے کمایا اور چینل، اخبار کھول لیا یہ ہے مختصر رو داد ان کی، اور دشنام دیتے ہیں ان کو جو ابتدا ہی سے صحافی ہیں صحافت کی ہٹی نہیں کھولی، اگر ایک صحافی، اپنی صحافت کو اپنا کاروبار نہ کہے تو کیا زرگری کہے؟ جنگ جیو میڈیا گروپ کا بس اتنا قصور ہے کہ یہاں تیز مرچیں نہیں ڈالی جاتیں، خبر کی ثقاہت کو جانچا پرکھا جاتا ہے، اس ملک کے عظیم ترین میڈیا ہائوس میں معتبر صحافی کام کرتے ہیں، گالم گلوچ کرنے والے کیوں ان کی قبا چاک کرتے ہیں اپنے گریبان میں جھانکیں اپنے اندھیرے دور کریں، قوم کے سامنے سچ اور تحقیق رکھیں، اور یہ بار بار ایک بڑے صحافی کی محنت کو دشنام نہ دیں، اس کرتوت سے ساری صحافت بدنام ہو گی، ہم نے آج تک کسی بھی میڈیا چوبارے کو چلانے والوں کا نام نہیں لیا، نہ مرکز کا نام لیا، لیکن ہم جو اس عظیم قدیم صحافتی ادارے میں کام کرتے ہیں ہمیں ہتک محسوس ہوتی ہے جب چند بالشتیے ہمارے ادارے کا، اس کے ایک ورکنگ جرنلسٹ کا نام لے کر اپنی کالک کو ہمارے دامن پر ملنے کی کوشش کرتے ہیں، ہمارے قلم میں اتنی طاقت، ڈکشن، صلاحیت موجود ہے کہ یہ دو حرفی پایاب صحافت کے اڈے قلم کر سکتے ہیں، ایک چینل اور اس کے اخبار میں جیو جنگ اور اس کے چیف ایڈیٹر کے خلاف زہر فشانی بند کر دی جائے۔
٭٭٭٭
ڈالر کو پر لگ گئے روپیہ گنجا ہو گیا
....Oچوہدری نثار:نواز شریف سے اختلافات ہیں، پارٹی نہیں چھوڑوں گا۔
جب ن لیگ کو نہیں چھوڑنا تو نواز شریف کو بھی نہ چھوڑا، باقی اختلافات کی بقا میں ہی تو چوہدری صاحب کی بقا ہے۔
....Oاے ٹی ایم مشینوں سے چوری،
اور اب؎
ہے ’’جیب‘‘ کے لئے موت، مشینوں کی یہ ایجاد
....Oشیخ رشید:نواز حکومت 30دسمبر سے پہلے ختم ہو جائے گی،
سیاسی تک بازیوں پر شیخ صاحب کب تک گزارہ کریں اس کے خاتمے کی بھی تو کوئی ڈیٹ دے دیں۔
....Oبھتہ کے لئے 260افراد کو زندہ جلانے والا حماد صدیقی پاکستان کے حوالے،
خاک تھا رزقِ آگ ہوا۔
....Oڈالر کو پر لگ گئے
روپیہ تو گنجا ہو گیا ہو گا۔

تازہ ترین