• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیب میں پراسیکیوٹر جنرل نہ ہونے پر دوسرا لاء افسر لگایا جاسکتا ہے

 اسلام آباد(طارق بٹ)نیب کی جانب سے سپریم کورٹ میں پراسیکیوٹر جنرل کے نہ ہونے کا عذر پیش کیا گیا لیکن نیب کسی دوسرے لا افسر کو بھی اس کیلئے وقف کرسکتا ہے،گذشتہ سماعت میں نیب حکام کی تیاری کمزور نظر آئی،دوسری طرف عام تاثر یہ ہے کہ شریف چاہتے ہیں کہ معاملہ لٹک جائے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے بلکہ شریف چاہتے ہیں کہ یہ جلد نمنٹ جائے۔تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں شریفوں کیخلاف حدیبیہ پیپر ملز کیس میں نیب کی جانب سے پراسیکیوٹر جنرل کی عدم تعیناتی کے پیش کیے گئے عذر سے واضح ہے کہ نیب کی تیاری نہیں ہے اور کمزوریاں نظر آرہی ہیں،نیب آرڈیننس کے سیکشن 8 کی شق میں واضح ہے کہ پراسیکیوٹر جنرل کی غیر حاضری یا عدم موجودگی پر نیب کے کسی دوسرے لا افسر کو چیئرمین نیب پراسیکیوٹر جنرل کے کام کیلئے لگاسکتے ہیں،ایسے وقت میں کہ جب پراسیکیوٹر جنرل موجود نہیں ہے تو نیب سربراہ کسی دوسرے سینئر وکیل کو سپریم کورٹ میں کیس کیلئے منتخب کرسکتے ہیں،نیب کےعذر سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے پاس کوئی قابل افسر نہیں ہے کہ جو اس کی توقعات کے مطابق کام کرسکے۔گزشتہ سماعت میں 28 نومبر کی اپیل پر نیب پراسیکیوٹر کو اپنے ہوم ورک میں کوتاہی پر پریشانی کا سامنا کرنا پڑا،یہاں تک کہ ان کے پاس 2000 کے ریفرنس کی کاپی بھی موجود نہ تھی کہ 3 رکنی بنچ تشکیل پاجائے،نیب پراسیکیوٹر پینل کو مطمئن کرنے کیلئے کئی سوالات کے جوابات دینے میں بھی ناکام رہے،اس کے بعد نیب نے زیادہ وقت مانگا لیکن بنچ نے 2 ہفتوں کا وقت دیا،اب تک پراسیکیوٹر جنرل کی تعیناتی نہیں ہوسکی،سیکشن 8 کے مطابق صدر چیئرمین نیب سے مشاورت پر ایسے شخص کا پراسیکیوٹر جنرل کے عہدے پر تقررکرسکتے ہیں کہ جو سپریم کورٹ کے جج کیلئے بھی اہلیت رکھتا ہو،صدر کا مطلب وفاقی حکومت(یعنی وزیراعظم)ہے۔وقاص قدیر ڈار نومبر میں پراسیکیوٹر جنرل کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے،ایسا کسی انتخاب کرنے میں ہوا کہ جب ایک 3 رکنی پینل میں سے کسی ایک کی تقرری کیلئے صدر کے پاس بھیجا گیا،وفاقی حکومت تقرری کیلئے محتاط ہوگی،قانون کے مطابق پراسیکیوٹر جنرل خودمختار ہوگا اور مقررہ 3 سالہ غیر توسیع تعیناتی پر کسی دوسرے دفتر کیلئے کام نہیں کرے گا،پراسیکیوٹر جنرل کو سپریم کورٹ کے حکم کے علاوہ کسی صورت نہیں ہٹایا جاسکے گا،وہ نیب چیئرمین کو قانونی امور سے متعلق تجاویز دے گا اور کوئی بھی ملنے والے قانونی حکم کی تعمیل میں اپنا کردار ادا کرے گا۔پراسیکیوٹر جنرل کے پاس اس کا حق ہوگا کہ وہ نیب آرڈیننس کے ماتحت عدالتوں،سپریم کورٹ اور ٹریبونل میں سامع ہوسکےگا،نیب چیئرمین کی منظوری سے پراسیکیوٹر جنرل کو کیسوں کی پراسیکیوشن،کیسوں کے دفاع کرنے اپیلوں اور پٹیشنز کیلئے عدالت عظمی،ہائی کورٹ ٹریبیونل یا دیگر عدالتوں اور قانونی معاملات کیلئے وقف کیا جاسکتا ہے۔ایسا قومی احتساب آرڈیننس کے تحت ہوسکتا ہے۔یہ عام تاثر ہے کہ شریف ایپکس عدالت کی کارروائی میں تاخیر چاہتے ہیں جبکہ نیب اس کا جلد نمنٹانا چاہتا ہے،لیکن اس کیس میں معاملہ اس کے الٹ ہے۔پاناما کیس میں نیب کو یہ ہدایات نہیں کی گئیں کہ حدیبیہ پیپر ملز کیس میں اپیل کریں،جیسے کہ اس میں کہا ہو ’’اگر اور جب ‘‘یہ جمع کرایا جائے گا۔یہ نیب پر چھوڑا گیا ہے کہ وہ اس کیس کی دوبارہ تحقیقات کیلئے اپیل کرے گا یا نہیں۔لاہور ہائی کورٹ نے 2000 میں ریفرنس ختم کردیا تھا،اس میں نوازشریف کا نام نہیں تھا لیکن جب لیفٹیننٹ جنرل (ر)خالد مقبول چیئرمین نیب بنےتو سابق وزیراعظم کا نام ریفرنس میں شامل کیا گیا۔
تازہ ترین