• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رواں سال کاتالونیا پارلیمنٹ نے ایک قرارداد منظور کی جس کے تحت کاتالونیا کی آزادی کا اعلان ہوا، کاتالان قوم پرستوں نے کاتالونیا کو اسپین سے علیحدہ ملک بنائے جانے کے اس اعلان کا پر جوش خیر مقدم کیا، ہسپانوی وفاقی آئینی عدالت نے اِس اعلان کو کالعدم قراردے دیا جس کی وجہ سے پارلیمنٹ ٹوٹ گئی، پارلیمنٹ کے صدر اور کئی وزرا کو گرفتار کرنے کے احکامات جاری کر دیئے گئے، کاتالونیا پارلیمنٹ کے صدر نے راہِ فرار اختیار کی اور برسلز چلے گئے جبکہ باقی وزرا کو جیل جانا پڑا، وفاقی حکومت نے اِس صورتحال کے پیش نظر کاتالونیا پارلیمنٹ کے الیکشن 21دسمبر کو دوبارہ کرانے کا اعلان کر دیا۔ کاتالونیا کو اسپین کا صوبہ رکھنے کی حامی اور علیحدگی پسند سیاسی جماعتوں نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا، دھواں دار تقاریر، علیحدگی پسندوں کے نعرے، اسپین کے حامیوں کے جلسے اور انتخابی پوسٹرز نے بارسلونا اور گردونواح میں بڑا خوبصورت ماحول پیدا کیا ہوا ہے، نئے سال اور کرسمس کی خوشیوں کو دوبالا کرنے کے لئے ہر سال کی طرح اس بار بھی برقی قمقموں سے بارسلونا شہر کو دلہن کی طرح سجایا گیا اور شہر کی گلیاں اور سڑکیں رنگ برنگی لائٹوں سے جگمگادی گئی ہیں، محسوس یوں ہو رہاہے کہ جیسے یہ سب کچھ صوبائی الیکشن کے لئے کیا گیا ہو۔ انتخابات میں سیاسی پارٹی ’’سیوتادانس‘‘ نے پاکستانی نژاد طاہر رفیع کو پہلی بار اپنا امیدوار بنا کر اُن کا نام انتخابی فہرست میں شامل کیا، جبکہ سوشلسٹ پارٹی نے پاکستانی حافظ عبدالرزاق صادق کا نام انتخابی فہرست میں دے کر انہیں اپنا اُمیدوار نامزد کیا ہے۔ یہاں کے اعداد و شمار کے اداروں اور قومی اخبارات نے انتخابات میں نشستوں کے حوالے سے اپنے تجزیئے اور اندازے پیش کئے ہیں جن کے مطابق ’’سیوتادانس‘‘ 22سے 28اور سوشلسٹ پارٹی 9سے 14نشستیں حاصل کر سکے گی، ویسے یہ اندازے 90فیصد سچ ہی ثابت ہوتے ہیں، کل انتخابات کے نتائج سامنے آئیں گے تو دُرست اور غلط اندازے عیاں ہوں گے۔ کاتالونیا کے اِن انتخابات نے جہاں بارسلونا کو رونقیں بخشی ہیں وہیں پر ایک المیہ بھی دیکھنے میں آیا ہے اور وہ یہ کہ اسپین میں مقیم پاکستانی کمیونٹی دونوں پاکستانی اُمیدواروں کی ہار اور جیت پر ایک دوسرے کے سامنے آپس کے مقابلے پر اُتر آئی ہے۔ طاہر رفیع سیوتادانس کی انتخابی فہرست میں 58ویں نمبر پر جبکہ حافظ عبدالرزاق صادق سوشلسٹ پارٹی کی فہرست میں 33ویں نمبرپر ہیں لہٰذا یہ بات صاف ظاہر ہو گئی کہ کوئی جماعت بھی اتنی نشستیں حاصل نہیں کر سکے گی کہ پاکستانی اُمیدوار جیت کر پارلیمنٹ تک پہنچ سکیں، یہ تو تھی ان انتخابات کی بات، خیر ہمیں نااُمید ہونے کی ضرورت نہیں اور ناں ہی مسئلہ ہار جیت کا ہے بلکہ اہم یہ ہےکہ مقامی سیاسی جماعتوں نے اسپین میں پاکستانیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور مختلف شعبوں میں کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے اُن کے وجود کو تسلیم کیا اور اپنی سیاسی جماعتوں کا پلیٹ فارم انہیں پیش کر دیا۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ پاکستانی کمیونٹی کے تمام معززین جو کسی بھی فیڈریشن یا سیاسی و سماجی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں وہ مل کر دونوں اُمیدواروں کے اعزاز میں پارٹی کریں اور انہیں اِس بات کی مبارکباد دیں کہ مقامی سیاسی جماعتوں میں دونوں کے نام کیساتھ پاکستانی لفظ لکھا اور پکارا جائے گا ۔ دونوں پاکستانیوں کی انتخابی مہم چلانے والے شاید یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اُن کا اُمیدوار جیتے گا، جبکہ یہاں اُمیدوار کو نہ تو انتخابی نشان ملتا ہے اور نا ہی اُسے ووٹ کاسٹ کیا جاتا ہے بلکہ ووٹ پارٹی کو ملتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم ایسے ظہرانے اور عشایئے ترتیب دیں جن سے مقابلے کی فضا کی بجائے اتفاق و اتحاد کا ماحول پیدا ہو، ورنہ ہماری کمیونٹی کی گروپ بندیاں، آپس کی نفرت، مقابلے کی فضا اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے ہتھکنڈے ہماری آنیوالی نسلوں کو بھی ایک دوسرے کے قریب نہیں آنے دیں گے۔ اسپین میں مقیم پاکستانی کمیونٹی میں گروپ بندی نے ہمیں یہاں کی مقامی کمیونٹی میں ایک مذاق بنا دیا ہے، ہماری حرکتوں سے یہاں کے مقامی افراد ہمارا تمسخر اُڑاتے ہیں،گروپ بندی اور نا اتفاقی کا یہ عالم ہے کہ بارسلونا میں پہلی بار ہونے والی کاتالونیا کرکٹ لیگ کی افتتاحی تقریب میں کاتالان کرکٹ فیڈریشن نے ایک گروپ کو مہمان خصوصی کے طور پر بلا لیا اور کہا کہ افتتاحی فیتہ وہ کاٹیں گے، دوسرا گروپ ’’بپھر‘‘ گیا اور کرکٹ منتظمین سے کہا کہ ہمارا گروپ فیتہ کاٹے گا، کرکٹ فیڈریشن نے حالات کو سلجھاتے ہوئے دونوں گروپس کے تین تین سرکردہ افراد کو مدعو کر لیا، اب اندازہ لگائیں کہ ایک فیتہ اور اُس کو 6عدد افراد نے پکڑا اور اپنی اپنی قینچی فیتے کی گردن کے گرد فٹ کر دی، تھوڑا سا فیتہ ایک جانب زیادہ ہوتا تو دوسری طرف والا مہمان خصوصی اُسے اپنی طرف کھینچ لیتا، اس کھینچا تانی کو مقامی افراد نے بھی دیکھا، دیکھنے والوں نے کہا کہ یہ چھ عدد قینچیاں فیتے کو نہیں بلکہ پاکستانی کمیونٹی کے اتحاد اور اتفاق کو کاٹنے کے لئے ہیں اور ایسا ہی ہوا کسی مہمان خصوصی نے نہ تو دوسرے معزز مہمان کے لئے قینچی چھوڑی اور نہ ہی قربانی دیتے ہوئے یہ کہا کہ میں’’فیتہ بازی‘‘ سے باز آیا۔ 21دسمبر یعنی کل ہونے والے صوبائی انتخابات میں ہمارا کوئی پاکستانی نہیں جیتے گا کیونکہ دُور دُور تک کوئی امید نظر نہیں آتی کہ ایسا ہو جائے، لیکن ہماری کمیونٹی جس تیزی سے مقامی سیاسی جماعتوں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے وہ کسی جیت سے کم نہیں، محمد اقبال چوہدری، خالد شہباز چوہان، راجہ بابر ناصر، عدیل وڑائچ، طاہر رفیع اور حافظ عبدالرزاق صادق نے مقامی سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے جو سیاسی سفر شروع کیا ہے اُس کی منزل پاکستانی کمیونٹی کی آنے والی نسلوں کو ضرور ملے گی شرط یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ایک دوسروے کی حیثیت اور رُتبہ کم کرنے کی پالیسیاں مرتب کرنی چھوڑ دیں اور اتفاق و اتحاد سے مل جل کر ملک و قوم کا نام روشن کریں، کیونکہ دیارِغیر میں ہمارے مثبت رویے مقامی کمیونٹی کو ہمارے نزدیک اور مسلمانوں کے بارے میں پیدا شدہ ڈر ختم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں ۔

تازہ ترین