بہت دنوں کے بعد خود کو ہلکا ہلکا محسوس کیا۔ ایسا لگا کہ کسی نے میرے سر سے نہیں بلکہ پوری قوم کے سر سے ایک بہت بھاری پتھر ہٹا دیا ہے۔ کچھ عرصہ سے ملک میں ٹیکنو کریٹس کی حکومت قائم ہونے کی افواہیں گرم تھیں۔ ان افواہوں کی بار بار تردید ہوتی رہی لیکن نواز شریف مصر تھے کہ جمہوریت کے خلاف ایک بہت بڑا منصوبہ بنایا جا چکا ہے جس پر مختلف مراحل میں عملدرآمد ہو رہا ہے۔ پاکستان سے باہر بیٹھے ہوئے سابق صدر پرویز مشرف کے بیانات بھی نواز شریف کے موقف کو تقویت دے رہے تھے۔ مشرف نے ایک سے زائد مرتبہ سپریم کورٹ آف پاکستان کو مخاطب کر کے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو چلتا کریں اور طویل مدت کی نگران حکومت قائم کریں۔ کچھ سیاستدانوں نے یہ دعوے بھی شروع کر دیئے کہ مارچ 2018ء سے پہلے پہلے موجودہ اسمبلیاں ختم ہو جائیں گی۔ اس دوران چند مخصوص بابا زحمت ٹائپ دانشوروں نے صدارتی نظام کے حق میں مضمون لکھنے شروع کر دیئے۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ جب بھی کوئی سیاستدان یا دانشور پاکستان میں صدارتی نظام کی حمایت کرتا ہے تو مجھے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ احمد شجاع پاشا یاد آ جاتے ہیں جنہوں نے ایک دفعہ بڑے واضح الفاظ میں مجھے کہا تھا کہ پاکستان اور پارلیمانی نظام ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ صدارتی نظام کی باتیں اُن دنوں میں زور و شور سے ہونے لگیں جب جنرل راحیل شریف کی طرف سے اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے ساتھ ساتھ فیلڈ مارشل کا اعزاز حاصل کرنے کی کوششیں بھی عروج پر تھیں۔ سپریم کورٹ کی طرف سے نواز شریف کی نااہلی کے بعد صدارتی نظام کے حق میں دوبارہ آوازیں بلند ہونے لگیں۔ 15؍ نومبر 2017ء کو روزنامہ جنگ میں صدارتی نظام اور ٹیکنو کریٹس کی حکومت کے حق میں مشرف حکومت کے ایک سابق وزیر ڈاکٹر عطاء الرحمان کا مضمون شائع ہوا تو اس خاکسار نے اگلے ہی دن 16نومبر کو اپنے کالم میں صدارتی نظام کو پاکستان کے لئے زہر قاتل قرار دیا۔ ’’ڈاکٹر صاحب اور جنرل پاشا‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والے اس کالم پر ایک بابا زحمت ٹائپ دانشور نے مجھے طعنہ مارا کہ آپ نواز شریف اور آصف زرداری جیسے کرپٹ سیاستدانوں کو بچانے کے لئے صدارتی نظام کی مخالفت کر رہے ہیں لیکن صدارتی نظام آ کر رہے گا۔ میں نے ان موصوف سے گزارش کی کہ نواز شریف اور آصف زرداری کے ادوار حکومت میں یہ بندہ ناچیز نوکریوں سے فارغ ہو چکا ہے اور مشرف دور کی پابندیاں دیکھ چکا ہے۔ صدارتی نظام کی مخالفت میں میرا کوئی ذاتی مفاد یا عناد نہیں، میں صرف یہ جانتا ہوں کہ 1973ء کے آئین پر پاکستان کی لبرل، سیکولر اور دینی جماعتوں نے جو اتفاق رائے کیا تھا وہ اتفاق رائے دوبارہ نہیں ہو سکتا۔ سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے عوام کی اکثریت صدارتی نظام کی کبھی حمایت نہیں کرے گی۔ کچھ لوگوں نے یہاں تک کہا کہ صدارتی نظام کی مخالفت دراصل فوج کی مخالفت ہے کیونکہ فوج صدارتی نظام کی حامی ہے لیکن 19دسمبر 2017ءکو چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کے کئی خودساختہ ترجمانوں کی رائے مسترد کرتے ہوئے واضح کر دیا کہ وہ صدارتی نظام کے حامی نہیں ہیں کیونکہ صدارتی نظام ملک کو کمزور کرتا ہے۔
19دسمبر کو سینیٹ آف پاکستان کے کمرہ بند اجلاس میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے مختلف سینیٹرز کے سوالات کے جواب میں صدارتی نظام کو مسترد کر دیا تو آئی ایس آئی کے سربراہ نوید مختار بھی وہاں پر موجود تھے اور انہوں نے آرمی چیف کی ہر بات کی تائید کی۔ مجھے اس بات کی خوشی نہیں کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے میرے اُس موقف کی تائید کی جس کا اظہار میں نے 16نومبر 2017ء کے کالم میں کیا تھا بلکہ اس بات پر اطمینان ہوا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے صدارتی نظام کو مسترد کر کے ایک طرف تو 1973ءکے آئین پر اپنے مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور دوسری طرف اُن لوگوں کو بھی سُرخ جھنڈی دکھا دی جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ صدارتی نظام دراصل بانی پاکستان قائد اعظمؒ کا حکم ہے اور اس حکم کی تکمیل ہر پاکستانی کا فرض ہے۔ بانی پاکستان کی طرف سے صدارتی نظام کی حمایت کا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں البتہ اُن کی طرف سے پارلیمانی نظام کی ایک سے زائد مرتبہ حمایت کی گئی۔ بہرحال آرمی چیف نے سینیٹ کے اجلاس میں جو گفتگو کی اُس پر تمام سینیٹرز مطمئن تھے یہاں تک کہ پرویز رشید نے بھی سینیٹ ہال سے باہر آ کر یہ کہا کہ آج کے بعد لوگوں کا جمہوریت پر اعتماد بڑھے گا۔ پرویز رشید کی جمہوریت کے لئے بہت قربانیاں ہیں۔ جس دن نواز شریف نے اپنی حکومت بچانے کے لئے پرویز رشید کی وزارت قربان کی تھی اُس دن میں نے پرویز رشید کو ایک ٹیکسٹ میسج بھیجا تھا کہ آج کے بعد آپ میری طرف سے جمہوریت کے نام پر نواز شریف کی حکومت کے لئے کسی حمایت کی توقع نہ کیجئے گا۔
پرویز رشید جیسے لوگوں کا خیال ہے کہ آرمی چیف کے سینیٹ میں آنے اور تلخ و شیریں سوالات کے جواب دینے سے بہت سی افواہیں ختم ہو جائیں گی لیکن جمہوریت کے خلاف سازشیں ختم نہیں ہوں گی۔ ظاہر ہے اُن کے لئے یہ سازشیں تو اُسی دن ختم ہوں گی جس دن نواز شریف چوتھی مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم بنیں گے لیکن فی الحال یہ بہت مشکل ہے۔ میں اس رائے سے اتفاق کرتا ہوں کہ جمہوریت کے خلاف سازشیں ختم نہیں ہوئیں لیکن میرے لئے اتنا کافی ہے کہ 1973ءکے آئین کے ساتھ کم از کم فوج کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کرنا چاہتی اور آئندہ انتخابات کے بروقت انعقاد کی راہ میں اب کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی۔ سینیٹ کے اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے آرمی چیف سے بہت سے کڑوے کڑوے سوالات کئے لیکن آرمی چیف نے ہر سوال کا اطمینان سے جواب دیا اور یہاں تک کہا کہ اگر خادم حسین رضوی کے دھرنے کے پیچھے فوج کا ہاتھ ثابت ہو جائے تو وہ استعفیٰ دے دیں گے۔ یہ بہت جرأت کی بات ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے پاس مرکز میں بھی حکومت ہے اور پنجاب میں بھی۔ وہ یہ تو ثابت کر سکتی ہے کہ دھرنا ختم کرانے کے تحریری معاہدے پر ایک فوجی افسر نے دستخط کئے جو نہ کئے جاتے تو بہتر ہوتا لیکن دھرنے کے پیچھے فوج کے کردار کے بارے میں آئندہ بغیر ثبوت کے بات نہ کی جائے تو بہت مناسب ہو گا۔
سینیٹ کے اجلاس میں آرمی چیف کی گفتگو دراصل نواز شریف اور پرویز مشرف دونوں کے بیانیے کی تردید ہے۔ جس دن آرمی چیف سینیٹ کے اجلاس میں آئے اُسی دن سینیٹ نے نئی حلقہ بندیوں کا آئینی بل منظور کر لیا۔ اب انتخابات کے بروقت انعقاد کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ کوئی یہ مت سمجھے کہ اس بل کی منظوری مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں کسی ڈیل کا نتیجہ ہے۔ تحریک انصاف نے بھی اس بل کی حمایت کی اور بل کی منظوری کا مقصد صرف موجودہ پارلیمانی نظام کو کسی ممکنہ خطرے سے بچانا تھا۔ اگر بل منظور نہ ہوتا تو انتخابات کا بروقت انعقاد مشکل تھا اور معاملہ سپریم کورٹ کے پاس جا سکتا تھا اور بابا رحمت کو خواہ مخواہ زحمت ہوتی۔ اب نظام تو بچ گیا ہے لیکن اسمبلیوں کے خاتمے کا خطرہ باقی ہے۔ مارچ 2018ء سے پہلے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف اسمبلیوں سے مستعفی ہو جائیں تو حکومت مشکل میں پڑ جائے گی۔ نواز شریف نے عدلیہ کے فیصلوں کو سکھا شاہی قرار دیدیا ہے، اگر انہوں نے عدلیہ کے خلاف تحریک چلا دی تو ظاہر ہے عدلیہ کے حق میں تحریک چلانے والے بھی موجود ہیں۔ دو تحریکیں آپس میں ٹکرائیں گی تو کوئی بڑا حادثہ ہو سکتا ہے۔ جائے حادثہ پر امدادی کارروائی کے لئے فوج بھی آ سکتی ہے اسی لئے آرمی چیف نے گزارش کی ہے کہ سیاستدان فوج کو زحمت نہ دیں تو بہتر ہو گا۔