• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ نیویارک شہر میں میراپہلے دن پہلا اتفاق کولمبیا یونیورسٹی جانے کا ہوا۔ جہاں اچھا اتفاق یہ تھا کہ ایک جانا پہچانا چہرہ فلسطینی حقوق کے عظیم علمبردار ایڈورڈ سعید کو اس عظیم وقدیم یونیورسٹی کی آلما میٹریا مادر علمی کی سیڑھیاں اترتے ہوئے دیکھا۔ ’’وہ رہے ایٖڈورڈ سعید جگر‘‘ برسوں بعد ملنے والے میرے دوست حیدر رضوی نے نعرہ لگایا۔ حیدر رضوی جو فلسطینیوں سے زیادہ فلسطینی تھا۔ اس شام ایڈورڈ سعید نے لکھا ’’یاسر عرفات اپنے خیالات سے مکر چکا ہے اب وہ وائٹ ہائوس میں اس شخص سے ہاتھ ملانا چاہتا ہے جو سب سے زیادہ سفید فام ہو‘‘۔ پھر کس نے جانا تھا کہ چند ماہ بعد ایڈورڈ سعید کو قریب سے سنوں گا جہاں وہ ایک اور تاریخ ساز عالم اور دانشور اقبال احمد کی یاد میں ہونے والی تعزیتی تقریب میں بول رہے ہوں گے کہ وہ اقبال احمد کے سب سے قریبی دوستوں میں سےتھے، اقبال احمد کون تھے؟ بہت سے پاکستانی اقبال احمد کو شاذ و نادر ہی جانتے ہوں۔ اقبال احمد وہ تھے جب فرانسیسیوں سےالجزائری اپنی آزادی پر مذاکرات کر رہے تھے تو انکے وفد میں اقبال احمد بھی تھے۔ اقبال احمد کہتے تھے کہ ان مذہبی شدت پسندوں کو جنونی مت کہو جنون تو عشق کی اونچی منزل ہے یہ پاگل ہیں (سال سنہ چورانوے ویسٹرن ہوٹل اسلام آباد میں ساون والی وہ شام مجھے آج بھی یاد ہے)۔
تو ایڈورڈ سعید کہہ رہے تھے۔ لیکن ضیا الحق نے اقبال احمد کو بھی بہرحال بلایا تھا اور وہ اسوقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اختر عبدالرحمان کے مہمان بھی رہے تھے۔ آئی ایس آئی کا ہیڈ کوارٹر اور روسیوں کے خلاف تربیتی کیمپوں کا انہیں دورہ بھی کروایا گیا تھا۔ اسی طرح نوے کی دہائی میں وہ طالبان کی حکومت کے دوران کابل بھی گئے تھے۔ وہ علم کے حصول کیلئے کہیں بھی جا سکتے تھے۔ میں نے انکو قریب سے یوں دیکھا کہ وہ ’’نیوز لائن‘‘ میں میری ایڈیٹر رضیہ بھٹی کے دوست تھے۔ جب رضیہ فوت ہوئیں تو انہوں نے ’’ایک انگریزی اخبار ‘‘ میں لکھا تھا ’’رو میرے دیس رو کہ تیری سب سے چہیتی بیٹی مر گئی‘‘ میں نے اس سے قبل اقبال احمد اور ایڈورڈ سعید کو ان کی انگریزی زبان میں چھپنے والی تحریروں کے توسط سے جانا۔ ویسے تو اقبال احمد نے میرے ایک سابقہ ساتھی کا نکاح بھی پڑھایا تھا۔ اب وہ نکاح بھی مرحوم ہو چکا اور اس میں آنے والی بینظیر بھٹو بھی۔ بینظیر بھٹو کے ایک دور حکومت کے دوران اقبال احمد امریکہ چھوڑ کر اسلام آباد آبسے تھے۔ وہ یہاں جدید و قدیم طرز پر علم کا ایک بڑا مرکز خلدونیہ یونیورسٹی قائم کرنا چاہتے تھے۔ لیکن انہیں کیا پتہ کہ وزیر اعظم ہائوس میں۔ گھوڑوں کا اصطبل اور پولو میدان تو بن سکتا تھا لیکن اسلام آباد میں خلدونیہ یونیورسٹی نہیں۔ اسلام آباد میں نواز کھوکھر چاہئے تھا اقبال احمد نہیں۔
یہ وہ اقبال احمد تھے جو جب پرنسٹن یونیورسٹی میں پڑھا رہے تھے تو ان دنوں وہاں دنیا کا عظیم دماغ اور طبیعات دان آئن اسٹائن بھی پڑھا رہے تھے۔ ایک دفعہ اقبال احمد کو یونیورسٹی کے ہال ویز میں ٹکرائے اور کہنے لگے ’’نوجوان تم یہ ڈرنک نکالنے میں میری مدد کرو گے۔ نہ جانے یہ مشین سے کیسے نکالی جائے گی؟‘‘ آئن اسٹائن اس اقبال احمد سے مشین سے کولا نکالنے میں مدد کا کہہ رہے تھے جو اتنا گم سم رہتے تھے کہ ایک دفعہ اپنی چھوٹی بچی کو مارکیٹ لیکر گئے تو اسے ایک دکان پر بھول آئے۔ اسی اقبال احمد پر امریکہ میں مشہور ’’شکاگو ٹرائل‘‘ یا ’’فیمس فائیو‘‘ مقدمہ چلا تھا جس میں ان پر ہنری کسنجر کو اغوا کرنے کا الزام تھا۔ ہنری کسنجر بھی یہودی تھے تو یہ دنیا کے اعلیٰ دماغ اور دلبر انسان ’’آئن اسٹائن‘‘ بھی یہودی تھے۔ کارل مارکس، فرائیڈ، انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ’’ہیومن رائٹس واچ‘‘ بنانے والے بھی یہودی۔ جو تنظیم سب سے زیادہ فلسطینیوں ودیگر عرب چاہے مسلمانوں کے انسانی حقوق کی حمایت کرتی ہے۔
گولڈا میئر اسٹریٹ، میں نے لیموزین میں دو امریکی وکیلوں کے ساتھ سفر کرتے ففتھ ایونیو کے ساتھ والی گلی میں داخل ہوتے تختی پڑھی تھی۔ ’’جانتے ہو گولڈا میئر کون تھی؟‘‘ میں نے دونوں نوجوان وکیلوں سے پوچھا۔ نہیں، انہوں نے کہا۔ اسرائیل کی بائیں بازو کی وزیر اعظم، میں نے بتایا۔ گولڈا میئر جس کے دنوں میں جب مصر کے انور السادات نے اسرائیل کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ کا معاہدہ کیا تو کچھ ہی عرصے میں مارے گئے۔ معتدل یہودی اور عرب رہنمائوں نے مشرق وسطیٰ میں امن قیام امن کیلئے بہت بھاری قیمت ادا کی ہے، کرتے رہے ہیں،کر رہے ہیں۔ سادات کی طرح یتزاک رابن بھی مارے گئے۔
یہ بھی کیسا اتفاق ہے کہ وہ بحرینی فوج کا کرنل جو فوجی آمر ضیاء الحق کے دنوں میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے رہنما حمید بلوچ کی گولی سے بچ گیا تھا، وہ قاہرہ میں مصر کے صدر انورالسادات کو بچاتے اس کے قاتلوں کی گولیوں سے جانبر نہ ہوسکا تھا۔ اسی طرح نیویارک میں شاہراہ براڈوے کے ساتھ ایک گلی میرے پسندیدہ مصنف و ناول نگار آئرش بیشوس سنگر کے نام سے بھی منسوب ہے، بیشوس سنگر جو نوبل انعام یافتہ ہے اور جس نے محبت کی کہانی آپ بیتی کو نام ’’دشمن‘‘ کا دیا ہے۔
نیویارک میں جب پاکستانی تارکین وطن مسلمانوں کی پہلی نسل پہنچی تو اسوقت حلال ذبیحے کی دکانوں اور کھانوں کے مراکز نا پید تھے تو وہ نیویارک کی مشہور یہودی آبادی بروکلین کے کونی آئی لینڈ میں آکر اس لیے آباد ہوئی کہ وہاں یہودیوں کی کھانے پینے کی چیزیں ’’کوشر‘‘ با ٓسانی دستیاب تھیں۔ میں نیویارک کے یہودیوں کو مسلمانوں کے امیر کزن کہتا ہوں۔ میں نے کئی یہودیوں کو اردو و پنجابی بولتے دیکھا ہے۔ ایک یہودی دوست تو اتنا مشاق طبلہ نواز ہے کہ ہر پنجابی اور پشتو موسیقی کی محفلوں میں باقاعدہ اپنے فن کا اکثر مظاہرہ کرتا ہے۔ یہودی ربی اور مسلمان علما ’’انٹر فیتھ‘‘ کے اجتماعات میں ساتھ دیکھے جاتے ہیں۔ لیکن ہم سے دور جو وطن عزیز میں بھائی لوگ ہیں انہوں نے یہودی شاز و ناد رکوئی دیکھا ہو جس طرح پنجاب والوں نے شاذ و نادر ہی کوئی سندھی ہندو دیکھا ہے۔ لیکن ہم سب آجکل بڑے جوش میں ہیں۔ مجھے میرے گائوں کا نوجوان تھانیدار یاد آ رہا ہے جب اس نے الفتح کے نام پر جلوس نکالنے پر میرے گائوں کے سید وڈیرے سے کہا تھا ’’شاہ جی آپ یاسر عرفات سے بھی زیادہ فلسطینی ہیں‘‘ کیا آپ جانتے ہیں کہ 1947میں کراچی، سندھ و دیگر حصوں سے کچھ یہودی کنبے یروشلم نقل مکانی کر گئے تھے اور انہیں ان کے اسرائیلی ہم وطن و ہم مذہب اب بھی ’’پاکستانی‘‘ سمجھ کر ’’شک کی نگاہ‘‘ سے دیکھتے ہیں۔ یہ بات میرے ایک پیارے دوست نے بتائی جو اپنی صحافتی ذمہ داریوں کے ضمن میں یروشلم بھی گیا تھا اور اس نے مسجد اقصیٰ میں نماز بھی ادا کی تھی۔مصر کے ساتھ، اردن کے ساتھ، ترکی کے ساتھ اور شہنشاہ ایران کے ایران کے ساتھ ہمارے ان ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے باوجود برادرانہ تعلقات تھے لیکن ہمارے نہیں۔

تازہ ترین