• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

12 اکتوبر 1999ء کو جب جنرل پرویز مشرف، وزیراعظم نواز شریف کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قابض ہوئے تو انہوں نے سب سے پہلے اُس وقت کے چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی کو فون کیا اور کہا کہ وہ اُن سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ اگلی صبح کمانڈو یونیفارم میں ملبوس جنرل پرویز مشرف درجنوں کمانڈوز کے ہمراہ چیف جسٹس ہائوس پہنچے اور چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی سے دوران ملاقات وضاحت کی کہ کن وجوہات کی بنا پر اُنہیں اقتدار سنبھالنا پڑا جس پر جسٹس سعید الزماں صدیقی نے جنرل پرویز مشرف کو دوٹوک جواب دیا کہ ’’میں جب تک چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہوں، آئین پاکستان پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔‘‘ جمہوری حکومت پر شب خون مارنے کے اقدام کے خلاف کچھ ماہ بعد جب سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر ہوئی اور عدالتی کارروائی جنرل پرویز مشرف کے خلاف ہوتی نظر آئی تو پرویز مشرف نے ایک روز جسٹس صدیقی کو جی ایچ کیو طلب کیا مگر وہ جی ایچ کیو جانے اور پرویز مشرف سے ملاقات پر آمادہ نہ ہوئے تاہم دبائو پر اُنہیں جی ایچ کیو جانا پڑا جہاں پرویز مشرف نے وقت ضائع کئے بغیر چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی پر واضح کیا کہ ’’آپ کو جی ایچ کیو بلانے کا مقصد سپریم کورٹ کے دیگر جج صاحبان کے ساتھ پی سی او کے تحت حلف اٹھوانا ہے۔‘‘
نحیف و نزار نظر آنے والے جسٹس سعید الزماں صدیقی نے جنرل پرویز مشرف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا کہ ’’اگر آپ نے مجھے اس مقصد کیلئے یہاں بلایا ہے تو میں پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کے بجائے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کو ترجیح دوں گا۔‘‘ یہ کہتے ہوئےوہ اپنی نشست سے کھڑے ہوگئے۔ اسی دوران برابر کے کمرے میں موجود شریف الدین پیرزادہ اور عزیز منشی جو یہ تمام گفتگو سن رہے تھے، اچانک کمرے میں داخل ہوئے اور شریف الدین پیرزادہ نے جسٹس سعید الزماں صدیقی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’سعید! اگر تم ہمارے ساتھ تعاون نہیں کرو گے تو یہ سوچ لو کہ تمہاری چھٹی بھی ہوسکتی ہے اور اگر تم ہماری بات مان لو تو مزید 3 سال تک چیف جسٹس رہ سکتے ہو۔‘‘ جسٹس صدیقی کوئی جواب دیئے بغیر کمرے سے باہر آگئے۔ اسی شام 3 سینئر جنرلز اور ایک بریگیڈیئر اچانک چیف جسٹس ہائوس پہنچے جن کے ہاتھوں میں ججوں کی فائلیں تھیں۔ یہ فوجی جنرلز صبح 4 بجے تک جسٹس سعید الزماں صدیقی کو پی سی او کے تحت حلف اٹھانے پر راضی کرنے کی کوششیں کرتے رہے مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ اسی دوران جسٹس سعید الزماں صدیقی کی اہلیہ کو صوبائی چیف جسٹس صاحبان کی ٹیلیفون کالز موصول ہوئیں جنہوں نے بتایا کہ وہ بھی کچھ اسی طرح کی صورتحال سے دوچار ہیں۔ صبح 4بجے کے بعد فوجی جنرلز ناکام واپس لوٹ گئے اور فوجی دستوں نے علی الصباح چیف جسٹس ہائوس کا محاصرہ کرکے مرکزی گیٹ پر تالا لگادیا۔ اگلے روز پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس ارشاد حسن خان سمیت دیگر ججز نے جنرل پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدامات جائز قرار دے کر اُنہیں آئین میں ترمیم کا حق بھی دے دیا۔ جسٹس سعید الزماں صدیقی نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو اپنی شرافت کے باعث برداشت کیا اور کبھی کسی سے شکایت تک نہ کی۔ کچھ سال بعد جنرل پرویز مشرف کو یہ احساس ہوا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اُن کے احکامات نہیں مان رہے تو انہوں نے جسٹس افتخار چوہدری کو جی ایچ کیو طلب کرکے اُن پر عہدے سے سبکدوش ہونے کیلئے دبائو ڈالا۔ اس موقع پر جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ان کی فائل بھی دکھائی گئی لیکن افتخار چوہدری نے کسی دبائو میں آئے بغیر اپنے عہدے سے مستعفی ہونے سے صاف انکار کردیا تاہم کچھ گھنٹے بعد جب وہ جی ایچ کیو سے روانہ ہوئے تو اُن کی گاڑی سے چیف جسٹس کا جھنڈا ہٹایا جاچکا تھا اور اس دوران جسٹس عبدالحمید ڈوگر چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھاچکے تھے۔ بعد ازاں افتخار محمد چوہدری کو چیف جسٹس کے عہدے سے ہٹائے جانے کے خلاف چلائی جانے والی ’’وکلا تحریک‘‘ اور نواز شریف کی ’’عدلیہ بحالی لانگ مارچ تحریک‘‘ کے نتیجے میں جسٹس افتخار محمد چوہدری اپنے عہدے پر دوبارہ بحال ہوگئے۔
درج بالا بیان کئے گئے واقعات کا مقصد یہ بتانا ہے کہ پاکستان کی عدلیہ مختلف ادوار میں دبائو کا شکار رہی ہے جس کے نتیجے میں عدلیہ نے کچھ ایسے متنازع فیصلے بھی کئے جو تاریخ کا سیاہ باب ہیں جن میں آمروں کے غیر آئینی اقدامات کو جائز قرار دینا اور ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ بھی شامل ہے۔ گزشتہ دنوں چیف جسٹس ثاقب نثار نے اعلیٰ عدلیہ کو گائوں کے ’’بابا رحمت دین‘‘ سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’ایسا کوئی پیدا ہی نہیں ہوا جو ججوں پر دبائو ڈالے اور ’’بابا رحمت‘‘ کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیتا۔‘‘ جسٹس ثاقب نثار کی اس تقریر نے کئی سوالات جنم دیئے ہیں۔ گزشتہ دنوں جنرل پرویز مشرف نے ایک ٹی وی پروگرام میں اس بات کا خود اعتراف کیا تھا کہ ’’مجھے بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کا فیصلہ عدلیہ پر دبائو کا نتیجہ تھا۔‘‘ ایسی صورتحال میں چیف جسٹس کی وضاحتوں اور قسموں نے بھی نئے تنازعات جنم دیئے جس کے بعد ’’بابا رحمت‘‘ تنقید کا نشانہ بنا اور نواز شریف کو یہ بیان دینا پڑا کہ ’’میرے خلاف ہونے والے فیصلے دبائو کا نتیجہ تھے، یہ انصاف کا نہیں بلکہ تحریک انصاف کا ترازو ہے اور وہ اپنے ساتھ ہونے والے فیصلوں کے خلاف مہم چلائیں گے۔‘‘
پاکستان کی تاریخ میں 25سے زائد چیف جسٹس صاحبان گزرچکے ہیں جن میں سے کئی چیف جسٹس صاحبان ایسے تھے جو متنازع فیصلوں کا حصہ رہے اور پی سی او کے تحت حلف اٹھاکر انہوں نے نہ صرف اصولوں پر سمجھوتہ کیا بلکہ اپنے ذاتی مفادات کو ملکی مفاد پر ترجیح دی۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں ایسے ججوں کو اچھے ناموں سے یاد نہیں کیا جاتا۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس سعید الزماں صدیقی آج اس دنیا میں نہیں رہے لیکن وہ جب تک چیف جسٹس رہے انہوں نے ساری زندگی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا اور ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ وہ سچ کے راستے پر چلیں، چاہے اس کیلئے کتنی بڑی قربانی کیوں نہ دینا پڑے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ’’جج نہیں، ان کے فیصلے بولتے ہیں، سپریم کورٹ آئین کے تابع ادارہ ہے، ججز پر بہت دبائو آتے ہیں مگر باکردار، باہمت اور دیانتدار جج ہی ان دبائو کا مقابلہ کرسکتا ہے۔‘‘ وقت آگیا ہے کہ عدلیہ کو اپنے عمل سے ثابت کرنا ہوگا کہ قانون سیاستدان اور ڈکٹیٹرز دونوں کیلئے یکساں ہے، اگر کوئی قانون کسی سیاستدان پر لاگو ہوتا ہے تو اُس قانون سے کوئی ڈکٹیٹر بھی مبرا نہیں۔

تازہ ترین