• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آنے والے دنوں میں سینیٹ الیکشن کے لئے جوڑ توڑ شروع ہونے کو ہے، چیئرمین سینیٹ رضا ربانی سمیت 70اراکین سینیٹ کی مدت پوری ہوچکی ہوگی لیکن عمران خان، طاہر القادری اور شیخ رشید احمد سینیٹ کے الیکشن سے پہلے ہی پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت گرانے کیلئے ابھی سے کمربستہ ہیں اور ان کا موقف ہے کہ موجودہ حکومت کو مدت پوری کرنے نہ دی جائے اور اسے سینیٹ میں اکثریت حاصل کرنے سے کسی بھی قیمت پر روکا جائے۔ ان تینوں شخصیات کا یک زبان ہونا الگ بات ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی محسوس کیا جاسکتا ہے کہ طاہرالقادری حکومت گرائو مہم کیلئے آخری حد تک جانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ طاہر القادری کا خیال ہے کہ موجودہ حکومت کو گرانے کیلئے صرف میاں نواز شریف ہی نہیں بلکہ وزیراعلیٰ پنجاب جنہیں مسلم لیگ (ن) اپنا آئندہ وزیراعظم نامزد کرچکی ہے، کو بھی سیاست سے آئوٹ کرنا ضروری ہے۔ طاہرالقادری کا خیال ہے کہ شریف فیملی کو سیاست سے مکمل طور پر نکالے بنا مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہو پائیں گے اور اسی لیے وہ احتجاجی تحریک اور دھرنوں کا اعلان کرنے میں تاخیری حربوں سے کام لے رہے ہیں۔ ماڈل ٹائون سانحہ پر طاہر القادری تحریک قصاص شروع کرنے کا بیان دے چکے ہیں مگر اس معاملہ میں بھی وہ ابھی تک تذبذب کا شکار ہیں۔ طاہرالقادری کی جانب سے کسی نئی تحریک یا دھرنے کی طرف قدم بڑھانے کا معاملہ غالباً اس لیے بھی التوا کا شکار ہے کہ وہ ماڈل ٹائون کے شہدا کیلئے انصاف کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اپنے بعض مطالبات بھی منوانے کے آرزو مند ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری ابھی تک کھل کر عمران خان، طاہر القادری اور شیخ رشید احمد کے ساتھ کسی بھی گٹھ جوڑ کا حصہ نہیں بنے مگر حالات اور رونما ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھ کر وہ اس کھیل کا حصہ بن سکتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنے والد آصف علی زرداری کے بعض سیاسی فیصلوں کی خاموش مخالفت کررہے ہیں اور یہ بلاول بھٹو زرداری ہیں جنہوں نے حلقہ بندیوں سے متعلق آئینی اصلاحات بل منظور کرانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ بلاول بھٹو زرداری ملک کے مختلف مقامات پر منعقد کئے جانے والے جلسے جلوسوں میں عمران خان اورمیاں نوازشریف پرکڑی تنقید کرتے نظر آتے ہیں مگر وہ ایسی کسی صورتحال کے حامی نہیں جس سے جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جائے اور بلاول بھٹو زرداری کے اس موقف کی پائیدار اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ بھی کرتے ہیں۔
عمران خان، طاہر القادری اور شیخ رشید احمد کی طرف سے کسی بھی قسم کے احتجاج، دھرنے اور جلسے جلوسوں کا جواب دینے کیلئے وفاقی حکومت نے بھی اپنی حکمت عملی تیار کرلی ہے جسے دیکھتے ہوئے یہ لگتا ہے کہ اب دھرنوں اور احتجاجی جلسے جلوسوں کیلئے کسی قسم کا فری ہینڈ نہیں دیا جائے گا۔ اس ضمن میں وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کا یہ بیان معنی خیز ہے کہ طاہرالقادری عدالتوں سے رجوع کریں اور اگر انہوں نے انتشار پھیلانے کی راہ اپنائی تو انہیں ریاستی ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے پھر دھرنا دینے والوں کے پاس کسی قسم کے شکوہ اور شکایت کی گنجائش نہیں ہوگی۔ احتجاجی تحریکوں اور دھرنوں کو روکنے کیلئے حکومت جوابی حکمت عملی واضح کرچکی ہے اور انتشار کی سیاست کرنے والوں کو روکنے کیلئے اس کے پاس بہت سی آپشنز موجود ہیں مگر انہیں اس بات کا بھی ادراک ہے کہ دھرنوں اور جلسے جلوسوں کی صورت میں اگر موجودہ حکومت کو اقتدار سے محروم کردیا جاتا ہے تو یہ اس کیلئے نقصان کا سودا ہرگز نہیں ہوگا بلکہ ایسی صورت میں اس کی عوامی حمایت میں مزید اضافہ ہوگا۔ حکومت سے وابستہ بعض جارح مزاج شخصیات کا ایک موقف یہ بھی ہے کہ کسی بھی قسم کی احتجاج تحریک کی صورت میں وہ غیر فعال نظر نہیں آئیں گے بلکہ مخالف سیاسی قوتوں کو ٹف ٹائم دیں گے اس سلسلے میں طاہرالقادری کی گرفتاری بھی عمل میں لائی جاسکتی ہے اور ان کی نظربندی کا بھی آپشن موجود ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا جلد از جلد خاتمہ کی خواہش رکھنے والے آصف علی زرداری فی الحال محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں ۔
پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین اور ان کے ہمنوا گزشتہ کئی ماہ سے ملک میں ٹیکنو کریٹس کی حکومت آنے کی طرف اشارہ دے رہے ہیں جو اگلے 2سے 3برس تک برسراقتدار رہے گی مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ یہاں پر سینیٹ کی ہول کمیٹی کے سامنے دی گئی آرمی چیف کی بریفنگ اور ہونے والے سوال وجواب کو ذہن میں رکھنا چاہئے کیونکہ اس موقع پر آرمی چیف نے واضح طور پر کہا تھا کہ فوج سیاسی اور انتظامی معاملات میں مداخلت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ آرمی چیف نے صدارتی نظام کو ملک کیلئے کمزوری قرار دیتے ہوئے ٹیکنوکریٹس کی حکومت کے امکانات کو بھی رد کردیا تھا۔ آرمی چیف نے دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ فوج کو سیاسی معاملات میں ملوث نہ کیا جائے کیونکہ وہ ملکی دفاع اور امن و امان کے دیرپا قیام کیلئے کوشاں ہے اور اسے صرف اور صرف اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ہی سرانجام دینی ہیں۔ بعد ازاں کچھ اس طرح کی بھی اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ آرمی چیف کے سینیٹ میں بیانات کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے کچھ حکومت مخالف عناصر نے بھی خاموشی اختیار کرتے ہوئے قدم پیچھے ہٹا لیے تھے۔
حکومت اور دیگر ریاستی ادارے اس بات سے اتفاق کرچکے ہیں کہ اب تمام تر توجہ آنے والے انتخابات کے بروقت انعقاد پر مرکوز کی جائے اور انتخابات کو مکمل طور پر غیر جانبدارانہ اور شفاف بنانے کیلئے کوششیں کی جائیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف نے میاں شہباز شریف کو اپنی جماعت کی طرف سے آئندہ وزیراعظم نامزد کردیا ہے انہوں نے شہباز شریف کو نامزد کرکے پیغام وہاں پہنچا دیا ہے جہاں پر پہنچانا مقصود تھا۔ کہا جارہا ہے کہ ملک گیر سطح پر اگلا الیکشن شہباز شریف بمقابلہ عمران خان ہوگا مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ (ن) لیگ کو ملنے والا ووٹ میاں نواز شریف کی مرہون منت ہوگا۔ آئندہ انتخابات میں اور اس سے قبل جو بھی معرکہ آرائی ہوگی وہ میاں شہباز شریف اور عمران خان کے درمیان ہوگی اور آخری معرکہ میں آئندہ وزیراعظم کون ہوگا اس کا فیصلہ 2018ء کے انتخابات میں عوام کے ہاتھوں ہوگا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ طاہرالقادری بارہا حکومت کے خلاف فیصلہ کن احتجاج کے بیانات تو دے چکے ہیں مگر عملی جامہ پہنانے سے گریز اس لیے کررہے ہیں کہ وہ اپنی جماعت کو اگلی حکومت کا حصہ دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں مگر گزشتہ دنوں ماڈل ٹائون میں عمران خان کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں انہوں نے اس بات پر سب سے زیادہ زور دیا تھا کہ شریف فیملی کو سیاست سے مکمل طور پر بے دخل کیے بغیر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکیں گے اور ان کے اس موقف کی تائید میڈیا سے اپنی گفتگو کے دوران عمران خان نے بھی کی تھی۔

تازہ ترین