• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ حکومتیں اور اسٹیبلشمنٹزبان زد عام ہے اور سو فیصد درست ہے کہ آج کل ہمارے ہاں’’حکومت ‘‘ نام کی کوئی شے موجود نہیں۔ وزیر اعظم خود کو وزیر اعظم نہیں مانتا، وزیروں کی اکثریت دیہاڑی دار، ڈنگ ٹپائو لوگوں پر مشتمل ہے جنہیں جن کارناموں کے عوض خلعتیں عطا ہوئیں، سب جانتے ہیں کہ ان کی زبانیں لمبی اور دماغ چھوٹے ہیں لیکن فکر کی کوئی بات نہیں کہ ہم تو ایک بری طرح مقروض ترقی پذیر ملک کے باسی ہیں جبکہ حقیقت یہ کہ ترقی یافتہ ملکوں کا بھی کم و بیش یہی حال ہے اور یہ میرا نہیں خود ان کے عالی دماغوں کا خیال ہے کہ ان کی حکومتوں کے دماغوں میں بھی اکثر و بیشتر بھس ہی بھرا ہوتا ہے۔ چلتی وہاں بھی’’ٹرمپیاں‘‘ ہی ہیں لیکن گاہے گاہے ڈھنگ کے لوگ بھی آتے رہتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں تسلسل سے نہلے پہ دہلے آتے ہیں۔ زرداری جاتا ہے، نواز آتا ہے اور جاتے جاتے خاقان دے جاتا ہے۔مہذب متمول اہل مغرب کو خود ان کی نظروں سے دیکھیں تو حیرت ہوتی ہےChester Bowlesجیسا صاحب فکر کہتا ہے"Government is too big and too important to be left to the politicians."یعنی سیاستدان وہاں کا بھی بنیادی طور پر چمپو اور گھامڑ ہی ہوتا ہے جس کی صوابدید اور رحم و کرم پر حکومت چھوڑنا حماقت سے کم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ہر جگہ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ لازمی ہوتی ہے جو ان لم چھڑوں پر گہری نظر رکھتے ہوئے انہیں ان کی اوقات میں رکھتی ہے۔ذرا غور کیجئے سابق امریکن صدر رونالڈ ریگن نے کیا کہا تھا"Government is like a baby. An alimentary canal with a big appetite at one end and no sense of Responsibility at the other."اگر امریکہ جیسی سپر پاور کا ریگن جیسا کامیاب صدر امریکن گورنمنٹ کے بارے ایسا ’’شاندار‘‘ تبصرہ کرتا ہے تو خود ہی سوچ لیں ہمارے یہ للوپنجو کیا کرتے ہوں گے جن میں اکثریت پراپرٹی ڈیلرز کی ہوتی ہے۔رہ گئی دیانتداری یعنی’’صادق اور امین‘‘ ہونا تو دیانت دار ترین معاشرہ کاJames Restonکہتا ہے" A Government is the only known vessel that leaks from the top."Boris Marchlovنے تو ان کے خستہ تنوں پر آخری کپڑا بھی نہیں رہنے دیا جب وہ کہتا ہے۔"Congress is so strange. A man gets up to speak and says nothing. Nobody listens and then everybody disagrees."اہل مغرب کی خوش بختی یہ کہ وہاں وقفے وقفے سے سیاستدانوں کی جگہ’’مدبر‘‘ بھی آجاتے ہیں اور یہ تناسب خاصا قابل قبول ہوتا ہے جس کی سادہ سی مثال پھر امریکہ کہ بش بیچارہ اوسط درجہ سے بھی کم کا سیاستدان تھا پھر بل کلنٹن جیسا سو فیصد’’پولیٹیکل انیمل‘‘ منظر عام پر آیا جس کے بعد پروفیسر صاحب یعنی براک اوباما جلوہ گر ہوئے تو ٹرمپ جیسی شے سیاسی سکرین پر نمودار ہوئی جسے دوسری ٹرم شاید ہی نصیب ہوسکے جبکہ ان گھڑ معاشروں میں ٹرمپ سے پہلے اور ٹرمپ کے بعد بھی اپنی قسم کے ٹرمپ ہی ہوتے ہیں۔ چالو قسم کے مہم جو سیاستدان اور مدبر کا فرق واضح کرتے ہوئے ان کاAustin O Malley کہتا ہے ۔The statesman shears the sheep; The politician skins them."ترقی پذیر ملکوں کی بدنصیبی یہ کہ انہیں بھیڑوں یعنی عوام کی اون اتارنے والے نہیں، کھال اتارنے والے’’سرے‘‘ اور ’’پانامے‘‘ ہی نصیب ہوتے ہیں۔ ایسے ایسے کسی بھی کم نصیب معاشرے کو اوپر نیچے دس بیس سال سیاستدانوں کی بجائے مدبر مل جائیں تو مقدر بدل جاتے ہیں اور یہ بھی ’’ترقی پذیر‘‘ کی صفوں سے نکل کر ترقی یافتہ کی صف میں جگہ بناسکتے ہیں لیکن رونا وہی جو اقبال نے رویا تھا۔’’بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا‘‘ہمیں ایک’’دیدہ ور‘‘ ملا جو پورا ملک دے گیا، پھر تین عدد نو نمبر دیدہ ور اکٹھے ہوئے۔ ملک دولخت ہوگیا۔ باقی ماندہ مٹی زرخیز تو بہت ہے لیکن کیا کریں’’نم‘‘ ہی ابھی تک نصیب نہیں ہورہا، ورنہ اقبال تو غلط نہیں ہوسکتا جس نے کہا تھا’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘اب سنتے ہیں کہ’’نم‘‘ میں ’’آرسینک‘‘ کی مقدار خطرناک حد تک بڑھتی جارہی ہے بلکہ بڑھ چکی ہے۔نئے سال پر’’نم‘‘ کے لئے دعا ہی کی جاسکتی ہے۔پے در پے اتنے’’سیاستدانوں‘‘ کے بعد ایک آدھ’’مدبر‘‘ بھی مل جائے تو بات بن سکتی ہے۔’’ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے‘‘۔

تازہ ترین