• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیرونی تجارت اورمعاشی اصلاح... تحریر:…ایم آئی احمد

مالی سال 2017-18کی پہلی ششماہی بیرونی تجارت کے اعتبار سے ایسی گزری ہےکہ کچھ عرصے سے وقوع پذیر ہونے والی منفی برآمدات کے رجحان کو مثبت رنگ کا حامل بنادیا ہے کہ جولائی 2017تا دسمبر 2017تک کی برآمدی مالیت گیارہ ارب 70لاکھ ڈالر تک جا پہنچی ہے۔ گزشتہ مالی سال کے اسی دورانیے کی برآمدی مالیت 9ارب 89کروڑ 50لاکھ ڈالر تھی اس طرح حکومت کی طرف سے کیا جانے والا یہ دعویٰ کہ برآمدات میں اضافے کے لیے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں اور یوں پہلی ششماہی میں گزشتہ مالی سال کی پہلی ششماہی کے مقابلے مین 11.24فی صد برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ برآمدات میں انحطاط کی روایت بننے چلی تھی وہ تو ٹوٹی لیکن ڈالر بھی روپے پر ایسا ٹوٹا کہ روپے کی قدر بھی تیزی سے گری، پھر درآمدات اور تجارتی خسارے میں کتنا اضافہ ہوا۔ مضمون ہذا میں اسی بات کا جائزہ پیش کیا جارہا ہے کہ تجارت خارجہ کے ضمن میں نئے امکانات تکاش کرنے کی بھی ضرورت ہے۔برآمدات کے اعداد و شمار کو مدنظر رکھیں تو واضح ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے 6ماہ کے دوران گزشتہ مالی سال کے پہلے 6ماہ کی نسبت ایک ارب گیارہ کروڑ بیس لاکھ ڈالر کی زائد برآمدات ہوئیں لیکن درآمدات میں اضافے کی نسبت 4گنا کم رہی۔ جولائی 2017تا دسمبر 2016درآمدات کی مالیت 24ارب 32کروڑ 30لاکھ ڈالر کے ساتھ 19.11فی صد اضافہ اور بلحاظ ڈالر 4ارب 64کروڑ 70لاکھ ڈالر کی زائد درآمدات ہوئیں۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ جتنی مالیت کا برآمدات میں اضافہ ہوا جیسا کہ اوپر بتایا گیا اس کے مقابلے میں درآمدات میں 4گنا سے زائد کا اضافہ ہوا۔اب تجارتی خسارے کے اعداد و شمار کچھ اس طرح ہیں کہ جولائی 2017تا دسمبر 2017تجارتی خسارہ 17ارب 96کروڑ 30لاکھ ڈالرز اور جولائی تا دسمبر 2016تک کا تجارتی خسارہ 14ارب 42کروڑ 80لاکھ ڈالر کے ساتھ 24.50فی صد کا اضافہ اب اگر یہ دیکھا جائے کہ بلحاظ ڈالر کتنا اضافہ ہوا ہے تو 3ارب 53کروڑ 50لاکھ ڈالر کا خسارہ گزشتہ مالی سال کے اسی دورانیے کے مقابلے میں زیادہ ہوا ہے۔ 2017کے دوران حکومت نے غیر ملکی قرضے بھی حاصل کرلیے ۔ روپے کی قدر بھی گری۔ برآمدات میں اضافہ بھی ہوا لیکن مرض جوں کا توں ہے کہ گزشتہ مالی سال کے ہوش ربا تجارتی خسارہ ساڑھے بتیس ارب ڈالر سے بھی زیادہ تجارتی خسارہ صاف نظر آرہا ہے۔ جی ایس پی پلس سے بھی جو توقع باندھی گئی وہ بھی پوری نہیں ہوئی۔ پاک امریکہ تجارت اور پاک افغانستان تجارت کو مدنظر رکھیں تو تجارت کے لیے نئی منڈیوں کی تلاش بھی کرنا ضروری ہے پاک چین تجارت کے خلیج کو بھی کم کرنے کی ضرورت ہے اور چینی کرنسی میں تجارت بھی خوش آئند ہے۔ مشرق وسطیٰ میں پاکستانیوں کے لیے روزگار کے مواقعے میں کمی کے باعث ترسیلات زر میں کمی کا بھی خدشہ ہے۔ 2018میں معیشت پر دبائو برقرار رہے گا۔ ان حالات میں نئی حکومت کے آتے ہی جیسا کہ 2008میں اور پھر 2013میں آئی ایم ایف کی جانب گئے تھے۔ شاید یہ کہہ سکتے ہیں کہ حسب روایت اگر رجوع کیا جاتا ہے تو بہتر ہ ے کہ سخت شرائط کا سامنا کرنے سے پہلے معاشی اصلاح کے لیے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔

تازہ ترین