• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچوں کے خلاف جرائم میں انٹرنیٹ سہولت کار ہے ، انٹرپول

لاہور( صابر شاہ)ایک طرف دنیابھرکےنفسیات علم الجرائم اور عمرانیات کے ماہرین اور قانون ساز اس سوچ بچار میں ہیں کہ کیا جنس سے متعلقہ جرائم میں انٹرنیٹ پر فحش نگاری سب سے بڑی قوت محرکہ ہے تو دوسری جانب امریکا کا محکمہ انصاف 2016ء میں کہہ چکا ہے کہ انٹرنیٹ کی توسیع سے بچوں کی فحش نگاری کی دنیا میں بڑا تہلکہ خیز دھماکاہوا۔’’ جنگ گروپ اور جیو ٹیلیویژن نیٹ ورک‘‘ کی تحقیق کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ دنیا کا کوئی ملک بھی ایسا نہیں جہاں بچوں کی فحش نگاری کو بچوں کےجنسی ہیجان کیلئے استعمال نہ کیا جاتا ہو۔ امریکی محکمہ انصاف:۔ 2017ء میں امریکی محکمہ انصاف نے تبصرہ کیا’’ انٹرنیٹ اور جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے پھیلائو سے بچوں کی فحش نگاری کی مارکیٹ میں تہلکہ مچا ہوا ہے۔ بچوں کی جنسیاتی تصاویر انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کی بدولت ہر جگہ پائی جاتی ہیں جن میں سوشل نیٹ ورک ویب سائٹس ‘ فائلوں کے تبادلے والی سائٹس ، فوٹو ویب سائٹس، کھیلوں کے آلات حتیٰ کہ موبائل ایپس بھی شامل ہیں‘‘۔ امریکی اہم ترین ادارے نے کہا ’’ بچوں کی فحش نگاری کے مجرم انٹرنیٹ فورمز اور نیٹ ورکس پر رابطے کرسکتے ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے مفادات ‘خواہشات اور بچوں سے جبری زیادتی کے بارے میں اپنے تجربات کا تبادلہ کرنے کے ساتھ ساتھ تصاویر کی خرید و فروخت اور ان کا تبادلہ بھی کرسکتے ہیں۔یہ آن لائن ذرائع بچوں کی فحش نگاری کے مجرموں کے رابطوں کے فروغ کا ذریعہ ہیں جن سے بچوں میں جنسی دلچسپی رکھنے والوں کی بڑے پیمانے پر شراکت داری قائم ہوتی ہے۔ لعنت کی شدت:۔ اس عالمی لعنت کی شدت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ مارچ 2011ء میں یورپی پولیس یا یورو پول نے بچوں سے زیادتی کے حوالے سے ایک آن لائن گروہ کے 670 ارکان کی نشاندہی کی اور ان میں سے 184 کو گرفتار کیا اور 230 بچوں کو ان کے چنگل سے بازیاب کرایا ‘ یہ اس نوعیت کا اب تک کا سب سے بڑا کیس ہے۔ مختلف ملکوں کی پولیس کے مشترکہ طور پر ’’ آپریشن ریسکیو‘‘ کے نام سے ایک آن لائن نیٹ ورک کو ہدف بنایا جس کا سرورنیدرلینڈز میں تھا اور اس کے دنیا بھر میں ارکان کی تعداد تقریباً 70 ہزار تھی۔ (بحوالہ:سی این این اور این بی سی نیوز) امریکی ایف بی آئی:۔ 25 اپریل2017ء کو امریکی فیڈرل بیورو آف انوسٹی گیشن ( ایف بی آئی) نے نوٹ کیا کہ بچوں کی فحش نگاری کے پیش کردگان اور صارفین پردے میں کام کرتے ہیں‘ اور اکثر ملتے جلتے ناموں سے انٹرنیٹ‘ نیٹ ورکس پر اپنی مذموم حرکات کو بے نقاب اورگرفتاری کے خوف کے بغیر آگے بڑھاتے ہیں ۔یاد رہے کہ ایف بی آئی کے 56 فیلڈ افسران نے امریکن چائلڈ ایکسپلائٹیشن ٹاسک فورسز‘ نیشنل سنٹر فارمسنگ اینڈ ایکسپلائٹڈ چلڈرن اورتقریباََ قانون نافذ کرنے والے 400 اداروں کی مدد سے بچوں سے زیادتی کے بارے میں تحقیقات کیں‘ ایف بی آئی نے قرار دیا کہ اس حوالے سے فحش نگاری کاکردار لیبارٹری جائزوں اوربچوں سے جنسی زیادتی کے حالات کے جائز سے متشرح ہوا۔ اس نے کہا ’’ حیرت انگیز طور پر امریکا میں اب تک بچوں کے جنسی استعمال سے متعلقہ وفاقی جرائم پر کسی ایک پر بھی فرد جرم عائد ہوئی نہ ہی سزا دی گئی‘‘۔ دی انٹر پول:۔ فرانس میں قائم انٹرنیشنل کریمنل پولیس آرگنائزیشن ( انٹر پول) کی اپنی ویب سائٹ پر کہا گیا کہ بچوں کے خلاف جرائم میں انٹرنیٹ سے بہت سہولت ملی ہے جس کے حالیہ سالوں میں استعمال میں اضافے سے جرم بھی بے پناہ بڑھ گیا ہے۔ 94 سالہ انٹرپول نے جو پولیس کی سطح پر عالمی تعاون میں سہولت فراہم کرتی ہے کہا کہ ’’ یہ مجرم ناصرف آسانی سے ایسا مواد تقسیم کرتے اور مواد تک رسائی حاصل کرتے ہیں بلکہ وہ چیٹ رومز اور سماجی سائٹس پر بچوں سے براہ راست رابطہ بھی کرسکتے ہیں‘‘۔ اس نے نوٹ کہا کہ ’’ جنسی سیاحت‘‘ قسم کے جرم میں ملوث لوگ ترقی پذیر ملکوں کے دورے کرکے وہاں بچوں سے جنسی جرائم کرتے ہیں۔ 113 ملین یورو سالانہ بجٹ والے اس ادارے نے‘ جسے یہ رقم 192 ملکوں میں اس کی رکن پولیس فورسز سے ملتی ہے، انٹر پول نے کہا کہ ’’ دولت مند مجرم کو ان ملکوں میں موثر قانون سازی نہ ہونے سے بچوں سے زیادتی میں آسانی محسوس ہوتی ہے اور اس طرح بچوں کی سمگلنگ‘ منظم جرائم اور قتل تک کے جرائم اس سے جنم لیتے ہیں۔ دی سی بی ایس نیوز:۔ جولائی2017ء میں نیو یارک کے معتبر میڈیا ہائوس ’’ سی بی ایس نیوز‘‘ نے ایک رپورٹ نشر کی جس میں کہاگیا کہ بچوں میں فحش نگاری کے حوالے سے جرائم میں گزشتہ عشرے کے دوران 200 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے جس کے بارے میں ان لوگوں کا موقف درست ثابت ہوا جو کہتے ہیں کہ اس اضافے کی وجہ انٹرنیٹ کے ذریعے زہریلے مواد کا آسانی سے پھیلائو ہے۔ اس نے کینیڈا کی مثال دی جہاں بچوں کی فحش نگاری کے واقعات 2015ء میں 4380 سے بڑھ کر 2016ء میں 6245 تک پہنچ گئے کہ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں اس جرم میں ایک سال کے دوران 40فیصد جبکہ 2006ء میں رپورٹ کی گئی شرح سے 233 فیصد اضافہ ہوا۔ برطانوی چیف جسٹس لارڈ تھامس کی رائے:۔ جنوری 2015ء میں برطانوی چیف جسٹس لارڈ تھامس نے دو نوجوان لڑکیوں کے قتل کے واقعے کو پورنوگرافی سے جوڑنے سے معمولی احتراز کیا، لارڈ تھامس نے کہا کہ انٹرنیٹ پر فحش نگاری کا پھیلائو زناکاروں اور قاتلوں کے گھنائونے جرم کا موجب ہے جبکہ اس سے قبل ایسا ’’ خوفناک ‘‘ میٹریل آن لائن دستیاب نہیں تھا۔’’ٹیلی گراف‘‘ نے رپورٹ دی کہ ’’ لارڈتھامس، لارڈ چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ انہوں نے دو انتہائی پریشان کن کیس نمٹائے ہیں جو انٹر نیٹ پورنوگرافی کے زیر اثر ہوئے۔ انہوں نے ایم پیز کو بتایا کہ ’’ایک کیس میں تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مجرم نے اس سے بدترین قدم اٹھایا جو اس نے آن لائن دیکھا‘‘۔ جج نے دارالعوام کی جسٹس سلیکٹ کمیٹی کو بتایا’’ ان دو مقدمات کے پہلے مقدمے میں انہیں کوئی شک نہیں کہ اس شخص پر پورنوگرافی نے شدید اثر ڈالا‘‘۔موقر برطانوی اخبارنے مزید کہا کہ ’’ پہلا کیس جو لارڈ ولیمز کی طرف سے بھیجا گیا جو رینالڈز کے بارے میں تھا جو ’’ جنسی منحرف‘‘ ہے جس نے 17سالہ لڑکی جارجیاولیمز کو 2013ء میں اپنے والدین کے گھر میں پھانسی دیدی تھی جبکہ دوسرے کیس میں سابق فوجی انوراوسر نے چار سالہ ریلی ٹرنز کو ’’ خونخوار اور خواہ مخواہ کے‘‘ حملے میں قتل کیا۔ دونوں قاتلوں کی ’’ پوری زندگی قید‘‘ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں مسترد کردی گئیں یعنی انہیں جیل میں ہی مرنا ہوگا‘‘۔ 23 سالہ جیمی رونالڈز کچھ وقت قبل ہی ہیجان خیز جنسی فلم دیکھ رہا تھا جب جارجیا اس کے گھر آئی اور اس نے اسے پھانسی دے ڈالی۔ زینب کا قتل اور جواب سے محروم سوالات:۔ اگرچہ جہاں جنسی سے متعلقہ گھناؤنے جرائم خاص طور پر بچوں کے بارے میں جرائم عالمی سیاسی حکومتوں‘ پولیس فورسز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے سنگین چیلنج بن چکے ہیں ، وہاں سات سالہ بچی زینب انصاری سے زیادتی اور اس کے قتل کے بعد پیدا ہونے والے سوالات‘ جن کو جواب کا انتظار ہے‘ پاکستانی حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو درپیش ہیں۔ دوسری جانب جنسی ہوس کا شکار پاکستانی معاشرے کو بھی وضاحت دینا ہے کہ آخر انٹرنیٹ اور اس ڈیجیٹل دور میں آخر ہماری اخلاقیات کیوں تیزی سے ناپید ہورہی ہے۔ پپو کے زیادتی اور قتل کیس میں دی گئی سزا ڈھال بن سکتی ہے:۔ ہم سے اکثر لوگوں کو یاد ہوگا کہ 1981ء میں ’’پپو‘‘ نامی لڑکے کو لاہور کے علاقے باغبانپورہ (نزد شالا مار باغ) سے اغوا کیا گیا اور چند روز بعد اس کی لاش قریبی ریلوے کے جوہڑ سے ملی۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لائی دور میں اغوا کنندگان اور قاتل کو موت کی سزا سنائی گئی اور ایک ہفتے کے اندر ان مجرموں کو اس مقام پر سرعام پھانسی دی گئی جہاں آج سبزیوں اور پھلوں کی مارکیٹ ہے۔ ان مجرموں کی لاشوں کو غروب آفتاب تک لٹکائے رکھا گیا اور اس سخت سزا کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے ایک عشرے یا اس سے زائد عرصے کے دوران وہاں کوئی لڑکا اغوا ہوا نہ کسی کو جنسی درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔ پاکستانی معاشرے کیلئے انٹر نیٹ پر ’’علم کا سمندر‘‘ اور ’’تباہی کے امکانات‘‘ دونوں ہی موجود ہیں۔ پاکستان سب سے زیادہ فحش مواد سرچ کرنے والے ممالک میں سر فہرست ہے۔ ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ جنوری2015ء کے پاکستان کے گوگل سرچ ٹرینڈزنےملک کوفحش مواد سرچ کرنے والےچوٹی کےممالک میں سر فہرست بنادیا۔جنوری2015ءمیں سرچ انجن گوگل نے ایک اسلامی معاشرے کی شرمناک اور اندوہناک تصویرپیش کی جسےکہ مذہب، ثقافت اور روایات سےمتصف ہونا چاہئے تھا۔15جنوری2013ء کو ’’ڈیلی میل‘‘ نےخبر دی کہ پاکستانی انٹرنیٹ صارفین نے ہم جنس پرستی کے حوالے سے گوگل پر تلاش میں سب کو پیچھے چھوڑا جبکہ پاکستان اس قبیح عمل سے سب سے زیادہ نفرت کرنے والے ممالک میں شمارہوتاہے۔انٹرنیٹ اور اس سےمنسلک مصنوعات مثلاً سوشل میڈیا نیٹ ورکنگ ویب سائٹس بشمول فیس بک ، ٹویٹر وغیرہ کی آمدکے بعد کسی پاکستانی حکومت نے ان کے معاشرے پر اثرات پرکوئی توجہ نہیں دی۔ سائبر کرائم کے قلع قمع کے لئے قوانین لاگو کئےگئےلیکن بہت تاخیر سے، اس ٹیکنالوجی سےمتعلق جرائم سے نبرد آزما ہونے کے لئے ادارے بنائے گئے لیکن بغیر وژن ،ٹیکنالوجی یابجٹ کے۔ یہ حقیقت ہے کہ انٹرنیٹ نے انتہائی سرعت سے ترقی کی اور مسلسل تغیر پذیر سائٹس ، گیمز اور ایپس جو نوجوان استعمال کرتے ہیں کی رفتار کو پانا لگ بھگ ناممکن لگتا ہے لیکن پاکستانی حکومتوں نے ان پیشرفتوں کے ساتھ قدم ملانےکےلئےبمشکل ہی کوئی منظم کوشش کی۔ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے تنخواہوں سے محروم 33افسروں کی داستان: جولائی 2017ء کی میڈیا رپورٹس کے مطابق سائبر کرائم سے نمٹنے کے لئے ایف آئی اے کا مخصوص ادارےسائبر کرائم نیشنل ریسپانس سنٹرکے 33سینئر افسران کو گزشتہ 13ماہ سے تنخواہیں نہیں دی گئیں۔گریڈ16،17اور18میں کام کرنے والے ان افسران کی قسمت متعلقہ وزارتوں بشمول وزارت خزانہ میں کاغذی کارروائیوں اور سرخ فیتے کا شکار ہو غیر یقینی کیفیت سےدو چار ہے اور غضب خدا کا، ایف آئی اے اب کہہ رہاہےکہ اس نے مزید بھرتیوں کی منصوبہ بندی کی ہے۔ڈیجیٹل فارنزکس ،ٹیکنیکل انویسٹی گیشن، انفارمیشن سسٹم سکیورٹی آڈٹس ، پینی ٹریشن ٹیسٹنگ اینڈ ٹریننگ میں مہارت رکھنے والے نیشنل ریسپانس سنٹر فار سائبر کرائم کی ذمہ داری سائبر کرائم کی تحقیقات اور قانون نافذ کرنے والے اداروں، خفیہ ایجنسیوں ،پولیس ، عدلیہ اور دیگر سرکاری اداروں کے اہلکاروں کو تربیت دینا ہے۔ جولائی 2017ء میں نیشنل ریسپانس سنٹر فار سائبر کرائم ماہانہ بنیادوں پر 10ہزار شکایات پر کارروائی کررہا تھا۔ ایف آئی اے صرف پسند ناپسند کی بنیاد پر کارروائی کرتا ہے: لیکن اس تمام کمی کوتاہی کے باوجود ایف آئی اے نے اگست 2017ء میں ایک طاقتوروفاقی وزیر پر جعلی نوکریوں کا جھانسہ دے کر عوام کو لوٹنے کا الزام لگانے والوں کا سراغ لگا کر ثابت کیا کہ وہ جرائم میں ملوث افراد کو پکڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ طاقتور ادارے ناقدین کو کٹہرے میں لا سکتےہیں: 2017 ء کےاوائل میں ملک کے چند طاقت ور ترین اداروں نے مذہبی انتہا پسندی اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو ہدف تنقید بنانے پر چند انٹرنیٹ بلاگرز اور کارکنوں کو گرفتار کیا تھا لیکن پاکستان میں کوئی محکمہ یا ادارہ ایسا نہیں جو دوسرے پاکستانیوں کو غیر مہذب اور شتر بے مہار سوشل میڈیا سے بچا سکےجسےبڑی آسانی سے مخصوص مفادات کے لئے محب وطن پاکستانیوں کو بدنام کرنے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے اور انہیں سی آئی اے ، ’’را‘‘ ایجنٹ ، اسلام مخالف حلقے یا پاکستان مخالف عناصرقراریا جارہا ہے۔ بد زبان اور بے لگام پاکستانی سوشل میڈیا کسی حدود سے آشنا نہیں: کسی سرکاری محکمے یا ادارے کو ادراک نہیں کہ کتنے ہی بد زبان پاکستانی سوشل میڈیا کارکن آزادی اظہار کے نام پر فرقہ واریت کو ہوا دےرہےہیں اور معززین ، نمایاں شخصیات حتیٰ کہ عام پاکستانیوں کے خلاف مذہب یا حب الوطنی کے نام پر نفرت پھیلا رہےہیں اور اس طرح ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں ! سوشل میڈیا نیٹ ورکنگ سائٹس بھی نوجوانوں کو فحش مواد ، ڈرانے، دھمکانےاور ضرر رساں مواد سے بچانے میں ناکام ہو رہی ہیں۔’’ہفنگٹن پوسٹ‘‘ کے مطابق گزشتہ سال فیس بک کوا ن خطرناک ترین پلیٹ فارمز میں شمار کیاگیا جہاں صارفین ایک دوسرے سے شناخت ظاہر کئے بغیر سوالات پوچھ سکتے ہیں۔ فحش مواد کے خلاف انڈونیشیا کا عزم: پاکستان کو انڈونیشیا جیسے ممالک سے سبق لینا چاہئے جس نے نومبر 2017ء میں میسنجنگ سروس ’’Whatsapp‘‘ کو فحش گرافک انٹرچینج فارمیٹس(GIFs) نہ ہٹانے پر بین (Ban)کرنے کی دھمکی دی تھی۔ ’’انڈی پینڈنٹ اور ’’روئٹرز‘‘ کے مطابق انڈونیشیئن کمیونی کیشن اینڈ انفارمیٹکس منسٹری نے کہا کہ وہ میسجنگ ایپ کو48گھنٹے میں بند کردیگی اگر فحش گفس نہ ہٹائی گئیں ۔سب سے زیادہ آبادی والے اس مسلم ملک نے تنبیہ کی کہ ’’ہم تمام پروائیڈرز بشمول گوگل سے رابطے کریں گے کہ وہ اپنے نیٹ ورکس کو صاف کریں۔واٹس ایپ جو فیس بک کی ملکیت ہے نے کہا کہ وہ اس مواد کو نہیں ہٹا سکتا کیونکہ اس ایپلی کیشن پر کمیونی کیشن کی رازداری انکرپشن کے ذریعے محفوظ ہوتی ہےتاہم کمپنی نےانڈونیشیا کی حکومت کو کہا کہ وہ اس مسئلےکےحل کیلئےبراہ راست گف پرووائیڈرز سے مل کر کام کرتے۔افسوس کا مقام ہے کہ پاکستانی ماہرین اخلاقیات اور سماجی کارکن لاکھوں معصوموں کو انٹرنیٹ پر تحفظ دینے کے لئے اقدامات کے لئے آواز بلند نہیں کررہےجہاں ایکٹرز فیس بک اورواٹس ایپ جیسےسوشل میڈیاپلیٹ فارمزکوفحش موادکی تشہیر کےلئے ہتھیار کے طور پر استعمال کررہےہیں۔برہنہ تصاویر کامقصد ویب سائٹ پر انٹرنیٹ ٹریفک کواپنی طرف لاناکرناہوتاہے۔ہرویب سائٹ کامالک ان اعدادو شمارکواپنی شہرت کے لئے استعمال کرتاہےجووہ کاروباری کمپنیوں کو اشتہارات کی ڈیل کے لئے پیش کرتے ہیں۔ پاکستان نے بڑی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس سے معاہدے نہیں کئے: پاکستان نے عالمی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس سے معاہدے نہیں کئے۔ اس لئے متاثرین کو عمر بھر اس عذاب کو جھیلنا ہوگا ۔’’ڈیلی ٹیلی گراف‘‘ کے مطابق مارچ2017ء میں پاکستان نے کہا کہ اس نے فیس بک اور ٹویٹرسےدرخواست کی ہےکہ توہین آمیزموادپھیلانےمیں ملوث مشتبہ افراد کی تلاش میں مدد دی جائےتاکہ وہ انکےخلاف کارروائی کرسکےیاانہیں ملک لایاجاسکے۔برطانوی اخبار نےخبردی ’’وزیرداخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ پاکستان کی واشنگٹن ایمبیسی میں ایک اہلکار نے دونوں سوشل میڈیا کمپنیوں سےرابطہ کیا تاکہ ان پاکستانیوں کی شناخت کی جاسکے جو یا تو ملک میں ہیں یا بیرون ملک جنہوں نے حال ہی میں اسلام مخالف مواد شیئر کیا۔ وزارت داخلہ کے مطابق فیس بک نے سوشل میڈیا سائٹ پر مواد سے متعلق تحفظات دور کرنے کے لئے ٹیم پاکستان بھجوانے پر اتفاق کیا۔ اخبار نے ’’فیس بک ‘‘ اہلکار کے حوالے سے کہا ’’ہم اکائونٹس کی تفصیل صرف اپنےقواعد و ضوابط اور متعلقہ قوانین کے تحت ہی ظاہر کرتے ہیں۔ بین الاقوامی معاملات کےلئےباہمی قانونی معاونت کامعاہدہ یادیگر رسمی درخواست درکارہوتی ہےاوریہ ہم اپنی سرکاری درخواستوں کی رپورٹ میں شامل کرتےہیں جوہرسال شائع ہوتی ہے۔‘‘پاکستان کےمعاملے میں انٹرنیٹ پر فحش مواد کے قلع قمع اور واٹس ایپ وغیرہ جیسی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کے ذریعے غلط پیغامات یا ویڈیوز بھیجے جانے کو روکنے کے لئے قوانین کا اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں ہوگا جب تک یہ قوانین اپنی روح کے مطابق نافذ نہیں کئے جاتے۔مجرموں کو سزا دینا ہوگی۔ ناپسندیدہ پیغامات بھیجنے والے کو دنیا میں سزائیں ملتی ہیں: ایک برطانوی خاتون کو فیس بک پر ایک شادی شدہ جوڑے کو غلیظ پیغامات بھجوانے پر جیل بھجوایا گیا۔شیرل ٹکنرکوفروری 2017ء میں 10ہفتے قید کی سزا دی گئی۔ بھارت میں آزادیٔ اظہار کے کارکن تریویدی کو2012ء میں ممبئی پولیس نے اپنی ویب سائٹس اور فیس بک پیج پر پارلیمنٹ کا مذاق اڑانے اور اہم اداروں میں کرپشن کی نشان دہی کرنے والے کارٹون شائع کرنے پر گرفتار کیا۔ یہ خاکے دیگر سوشل میڈیا سائٹس پر بھی شیئر کئے گئے ۔ اس طرح ایک یونیورسٹی پروفیسر امبیکیش اور ان کی ہمسائی سبراتاکو مبینہ طور پر مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی کے تضحیک آمیز کارٹون پھیلانے پر گرفتار کیا گیا۔ برطانیہ میں انٹر نیٹ پر فحش موادکےمسئلے کی شدت:۔ ایک اور معتبر برطانوی اخبار ’’ دی گارجین‘‘ نے اپنی مارچ 2016ء کی رپورٹ میں بتایا ’’ اعدادو شمار سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ سال میں بچوں سے زیادتی کے واقعات میں 30فیصد سے زائد اضافہ ہوا۔ پولیس سربراہ کو خدشہ ہے کہ اس اضافے کی وجہ انٹرنیٹ پرشکاربنانےکیلئےبچوں کوتلاش کرنےوالوں کیوجہ سےہوا ہے۔ گزشتہ سال پورے برطانیہ میں 45456 بچوں سے زیادتی کے واقعات سامنے آئے یعنی یومیہ 124 واقعات پیش آئے۔ گارجین‘‘ نے مزید لکھا تقریباً 11 ہزار متاثرہ بچوں کی عمریں 10 سال سے کم اور 2409 کی 5یا اس سے بھی کم کی تھیں‘‘۔ امریکا میں انٹرنیٹ بچوں سے زیادتی کے واقعات:۔ 2009ء سے 2013ء کے مابین امریکا میں اس بات کے ٹھوس شواہد سامنے آئے کہ ہر سال 63 ہزار بچے زیادتی کا نشانہ بنائے جاتے ہیں۔ مئی 2011ء میں سان جوزکیلی فورنیا میں بچوں کا استحصال روکنے کیلئے قومی حکمت عملی تشکیل دینے کیلئے کانفرنس سے خطاب میں امریکی اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر جونیئر نے کہا ’’ بد قسمتی سے بچوں کے فحش مواد کی تقسیم میں تاریخی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ بڑی تعداد میں آن لائن تصاویر شیئر کی جارہی ہیں اور بچوں کے استحصال اور جنسی زیادتی متعلق جرائم کی سطح میں اضافہ ہورہا ہے۔افسوس کا مقام یہ ہے کہ جس واحد چیز میں کمی دیکھنے میں آئی ہے وہ متاثرین کی عمر یں ہیں جوقطعی نا قابل قبول بات ہے‘‘۔ اس وقت امریکا میں بچوں کا فحش مواد سب سے تیزی سے پھیلنے جرائم میں سے ایک ہے ۔ ایف بی آئی کے مطابق گزشتہ 10سال میں ملک بھر میں اس سلسلے میں گرفتاریوں میں 25سو فیصد اضافہ ہواہے۔2011ء میں لاپتہ اور استحصال کے شکار بچوں کیلئے قومی مرکز نے بتایاکہ اس سال بچوں کے فحش مواد کی 17.3 ملین تصاویر اور ویڈیو شیئرکی گئیں جو2007ء کی نسبت 4گنا زیادہ ہے۔ امریکی محکمہ صحت اور بیورو آف جسٹس کے مطابق 18سال سے کم 9میں سے ایک لڑکی اور 53لڑکوں میں سے ایک پر بالغ افراد کی جانب سے مجرمانہ حملہ کیا گیا یا انہیں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ بھی سامنے آیا کہ 18سال سے کم عمر کے تمام متاثرین میں سے 82فیصد لڑکیاں تھیں۔16سے 19 سال کی لڑکیاں عام آبادی کی نسبت زیادتی یازیادتی کی کوشش اورمجرمانہ حملے کے 4گنا زیادہ خطرات سے دو چار ہیں۔ ہر سکینڈ28258امریکی صارفین انٹر نیٹ پر فحش مواد دیکھتے ہیں:۔ معروف مصنف لیری جے سیگل نے 2016ء کی اپنی کتاب ’’کرمنالوجی ،تھیوریز‘‘ پیٹرنز اینڈ ٹائپولوجیز‘‘ میں انکشاف کیا کہ ہر سیکنڈ28258 امریکی انٹر نیٹ پر فحش مواد دیکھتے ہیں اور ہرسکینڈ 3075 ڈالر انٹرنیٹ پر فحش مواد پر خرچ کئے جارہےہیں۔یہ رقم ایک منٹ میں 184500 ڈالر اور ایک گھنٹے میں 11ملین ڈالر کے برابر ہے۔لیری سیگل کو ایک رائٹرز گلڈایوارڈ اور 3ایمی ایوارڈز ملےجبکہ وہ متعدد بار ایمی اور گلڈ ایوارڈز کیلئے نامزد ہوئے۔ وہ معروف سی بی ایس ٹیلیویژن شو’’ کیرول برنے ‘‘شو کے مرکزی لکھاریوں میں شامل تھےجوستمبر 1967ء سے مارچ 1978ء تک چلا جس کی 279 قسطیں آئیں اور پھر 1991ء میں اسکی 9اقساط نشر ہوئیں۔ 2007ء میں یہ شو ٹائم میگزین کے 100سدابہاربہترین ٹی وی شوز میں شامل کیا گیا۔ لیری سیگل کے مزید انکشافات:۔ تقریباً 40ملین امریکی باقاعدگی سے فحش ویب سائٹس پر جاتے ہیں۔ انٹر نیٹ کے تمام ڈائون لوڈز میں 35فیصد فحش مواد ہوتا ہے۔ سرچ انجن پر تلاش میں 25فیصد یایومیہ68ملین سرچ اسی کی ہوتی ہے۔ فحش مواد دیکھنے والی ایک تہائی خواتین ہیں۔ سرچ انجنزپرہرروز 116000 بار بچوں کا فحش مواد تلاش کیا جاتا ہے۔ تقریباً 34فیصد انٹر نیٹ صارفین کو اشتہارات ، پوپ اپ ایڈز، غلط ڈائریکٹ کئےگئےلنکس یا ای میلز کے ذریعے نہ چاہنےکےباوجود فحش مواد دکھایا گیا۔ روزانہ 2.5ملین ای میلز فحش مواد والی بھیجی یا وصول کی جاتی ہیں۔امریکا میں ہر 39منٹ میں ایک نئی فحش ویڈیو تیار کی جاتی ہے۔تقریباً 2لاکھ امریکی فحش مواد دیکھنے کے عادی ہیں۔ امریکی خواتین بھی اس جرم میں شامل ہیں:۔ امریکی محکمہ انصاف کی فروری 2017 ء کی رپورٹ کے مطابق ایریزونا کی ایک 28سالہ لڑکی بریناو ینڈک کو سنٹرل ایریزونا کی جیل میں قید اپنے شوہر کو بچوں کا فحش مواد پر نٹ کرنےاورارسال کرنےپر 63ماہ قید کی سزا دی گئی ۔ قید کیساتھ انہیں ساری عمر زیر نگرانی رکھا جائے گا اور انہیں جنسی جرائم میں ملوث مجرم کے طور پر درج کیا جائے گا۔ بھارت بچوں کا فحش مواد دیکھنے والے سب سے بڑی ممالک میں شمار ہوتا ہے:۔ ’’ ڈیل میل‘‘ کی ستمبر 2017ء کی رپورٹ کے مطابق اخلاق باختہ مواد کیخلاف کریک ڈائون بھی بھارت کو بچوں کے فحش مواد کو دیکھنے اور اسے پھیلانے میں شریک بڑے ممالک میں سے ایک بننے سے نہ روک پایا۔ جون 2017ء میں برسراقتدار بھارتی حکومت نے ملک کی سپریم کورٹ کو بتایا کہ اس نے بچوں کے جنسی استحصال پر مبنی آن لائن مواد کے قلع قمع کیلئے متعدد اقدامات کئے ہیں جن میں 3522 ویب سائٹس بلاک کرنا شامل ہے جن پر یہ مواد موجود تھا۔ برطانوی اخبار نے بتایا کہ ’’ سائبر ماہرین نے ’ میل ٹوڈے‘کو بتایا کہ ہر 40 منٹ میں بھارت میں ایک غلیظ ویڈیو تیار کی جاتی ہے اور کیرالہ اس مواد کو اپ لوڈ کرنے میں سب سے آگے ہے جبکہ ہریانہ میں یہ فحش مواد موبائل پر سب سے زیادہ دیکھا جاتا ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ ویب پر اپ لوڈ کئے جانے والے سارے فحش مواد میں سے 35سے38فیصد بچوں یا ٹین ایجرز کا ہوتا ہے۔ سکول گرلز ،ٹینز اور دیسی گرلز جیسےکی ورڈزسب سے زیادہ سرچ کئے جانے والےالفاظ میں شامل ہیں کیونکہ اس سے بچوں کے فحش مواد تک رسائی ہوتی ہے‘‘۔ ’’ ڈیل میل‘‘ نے انڈین سائبر آرمی کے ڈائریکٹر کسلے چوہدری کے حوالے سے بتایا کہ انہوں نے کہا کہ ’’ ایسے مواد کا حجم کا تخمینہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ ہر سیکنڈ 380 لوگ ’’ ایڈلٹ‘‘ مواد انٹرنیٹ پر سرچ کرتے ہیں ۔ سرچ انجنز پر 25فیصد تلاش فحش مواد کی ہوتی ہے جو کہ یومیہ تقریباً 68ملین سرچ ہیں۔ 
تازہ ترین