• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک دن زینب کے گھر:تعزیت یا فوٹو سیشن خصوصی مراسلہ…ترہب اصغر

زینب کے گھر کے باہر پہنچی تو دروازے پر افتخار محمد چوہدری ایک درجن وکلا کے ہمراہ اندر جانے کیلئے اصرار کررہے تھے۔ دروازے پر دوران تعزیت ساتھ آئے وکلا اپنی تصاویر بنانے میں مصروف نظر آئے۔ جبکہ گھر والوں سے تعزیت کے لئے آئے بعض وکلا دکھ اور تکلیف کے الفاظ کی ادائیگی کے دوران ایک آنکھ سے ارد گرد لگے موبائل فون کے کیمروں کا جائزہ لے رہے تھے کہ ان کا فوکس کس طرف ہے۔ زینب کے گھر والوں نے تعزیت کے لئے گھر سے باہر ایک جگہ مخصوص کر رکھی تھی لیکن وکلا کا اصرار بڑھا تو والد انہیں اندر لے گئے۔ گھر کے اندر ان کے فوٹو سیشن کا دوسرا مرحلہ شروع ہوگیا۔ ڈرائنگ روم سے باہر نکلتے ہی مذہبی جماعت کی چند خواتین جو کہ آئی تو تعزیت کے لئے تھیں لیکن ان کے انداز سے لگ رہا تھا جیسے کسی سڑک پر احتجاج کرنے آئی ہیں۔ ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے اور تصویر کا زاویہ سیدھا رکھنے کے لئے ان میں سے ہی ایک خاتون نے زینب کی والدہ کا چہرہ کیمرے کی جانب کردیا اور یوں’’فوٹو سیشن کا آغاز ہوگیا‘‘ انہوں نے تصویریں بنوائیں اور چلی گئیں۔ کچھ منٹ ہی گزرے تھے کہ میڈیا کے نمائندوں نے ایک بار پھر زینب کی والدہ کو گھیر لیا اور انٹرویو سیشن شروع ہوگئے۔ یوں تو یہ میڈیا کا کام ہے اور وہ اپنی ڈیوٹی کررہے تھے لیکن کچھ اختلافی سوال انہوں نے ایسے کئے جن سے محسوس ہورہا تھا کہ وہ زینب کے والدین کے دکھ کا اندازہ لگانا چا رہے ہیں۔ جمعہ کی نماز کا وقت ہوا تو لوگوں کے ہجوم کو گھر سے باہر بھیجا گیا جس دوران تھکی ہاری زینب کی ماں نے چند لمحے آرام کیا اور والد نے کھانا کھایا۔ لیکن ایک گھنٹہ گزرتے ہی ڈرائنگ روم میں سجائے سرکاری ٹی وی کے سیٹ اپ پر والد کو زبردستی لے جایا گیا۔ یہاں انٹرویو ختم ہی ہوا تھا کہ وہاں حکومتی جماعت کی ایم این اے اور ایم اپی اے پہنچ گئے جن کے ساتھ موجود ان کے سیکریٹری کو اسپیشل انسٹرکشن دے کر تصویریں بنانے کا کہا گیا اور یوں پھر فوٹو سیشن کا آغاز ہو گیا۔ ان کی موجودگی میں ہی تبدیلی کا نعرہ لگانے والی چند خوش لباس خواتین آگئیں، جس پر میرے ساتھ بیٹھے زینب کے کزن نے معصومیت کے ساتھ سوال کیا کہ کیا یہ آنٹیاں شادی پر آئی ہیں؟ جس کا میرے پاس تو کوئی جواب نہیں تھا۔ ان خواتین نے ڈرائنگ روم میں جانے سے انکار کیا اور کہا کہ پہلے ان کی سیاسی حریف چلی جائیں پھر وہ تعزیت کریں گی یعنی کہ فوٹو بنوائیں گی (زینب کی والدہ اور بہن بھائیوں کو بلوایا گیا اور ساتھ بیٹھا کر پہلے تصویریں بنوا کر اپنے پہنچنے کا ثبوت پیش کیا گیا۔ ان خواتین کا فوٹو سیشن سب سے زیادہ طویل تھا جس نے شاید انہیں تو نہیں مگر باقی دیکھنے والوں کو تھکا دیا۔ اس علاقے میں انسانیت کا درس دینے والوں کی کمی نہیں تھی یہ تو زینب کے گھر کے اندرونی مناظر تھے لیکن ایک فوٹو سیشن گھر سے باہر بھی جاری رہا تھا جس میں دیگر سیاسی جماعتوں کے لوگ شامل تھے۔ صبح سے رات تک جاری رہنے والے اس فوٹو سیشن نے مجھے یہ تحریر لکھنے پر مجبور کر دیا اور ہماری ہمدردی اور تعزیت پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ آخر میں اس بات سے پردہ بھی اٹھانا چاہوں گی کہ زینب کے گھر والوں کی یہ پوری کوشش ہے کہ کوئی بھی اس سانحے کا سیاسی فائدہ نا اٹھا پائے لیکن کچھ جماعتیں اس میں بھی کافی حد تک کامیاب ہوئی ہیں۔ جس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب زینب کے والد کی جانب سے کینیڈا سے تعلق رکھنے والے روحانی پیشوا کے کچھ کارکنوں نے میڈیا تک یہ غلط خبر پہنچائی کہ زینب کے گھر والوں نے سابق وزیراعظم نوازشریف اور ان کی صاحب زادی سے ملنے سے انکار کیا ہے جس کی ترید زینب کے والد نے میڈیا پر کردی۔

تازہ ترین