• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور میں اپوزیشن دھرنے کے منصوبہ ساز کو مایوسی ہوئی ہوگی

Todays Print

اسلام آباد (انصار عباسی) بدھ کو لاہور میں اپوزیشن جماعتوں کے بڑے سیاسی شو کے پیچھے اگر کوئی منصوبہ ساز تھا تو اسے مکمل طور پر مایوسی ہوئی ہوگی۔ مختلف سیاسی جماعتوں، بالخصوص پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اور پاکستان عوامی تحریک، کے درجنوں رہنمائوں نے اگرچہ اسٹیج پر متاثر کن حاضری پیش کی لیکن ان کی بدقسمتی تھی کہ ان کے سامنے خطاب کرنے کیلئے کارکنوں کی بجائے خالی کرسیوں کی تعداد زیادہ تھی۔ اس کے علاوہ، متحدہ اپوزیشن نے شریف خاندان اور ان کی حکمرانی کیلئے سنگین خطرہ بننے کی بجائے اپنے اختلافات واضح کیے اور عمران خان اور آصف زرداری نے ایک ساتھ اسٹیج پر شرکت سے اجتناب کیا۔ عمران خان اس وقت اسٹیج پر آئے جب زرداری وہاں سے جا چکے تھے۔ یہ سب کچھ اس انداز میں ختم ہوا اس سے حکمران نواز لیگ کو کسی خطرے کا اشارہ نہیں ملتا۔ اس کے برعکس، متحدہ اپوزیشن کے ناکام شو نے آئندہ سینیٹ الیکشن کیلئے راستہ ہموار کر دیا ہے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ سینیٹ الیکشنز کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری کیلئے شیخ رشید بدھ کو مین آف دا میچ ثابت ہوئے کیونکہ انہوں نے قومی اسمبلی میں اپنی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی پارلیمنٹ اور وزیراعظم کو لعن طعن کی۔ تاہم، عمران خان، جنہوں نے پارلیمنٹ کو لعن طعن کرنے میں شیخ رشید کی پیروی کی، پہلے ہی منقسم اپوزیشن میں مزید دراڑیں ڈالنے کی وجہ بنے۔ ایک دن بعد، جمعہ کو، جس وقت عمران خان ایک مرتبہ پھر پارلیمنٹ کو برا بھلا کہہ رہے تھے اس وقت قومی اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کرتے ہوئے پارلیمنٹ کیخلاف نازیبا الفاظ استعمال کرنے پر عمران خان اور شیخ رشید کی مذمت کی۔ اگرچہ مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی نے قرارداد صرف پی ٹی آئی کے حوالے سے پیش کی تھی لیکن اس کی توثیق تقریباً وہاں موجود سب ہی جماعتوں جن میں نواز لیگ، ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی، جے یو آئی (ف)، جماعت اسلامی اور دیگر نے کی۔ قرارداد میں لکھا تھا کہ ایوان کی بے حرمتی کرکے انہوں نے 20؍ کروڑ سے زائد عوام کی توہین کی ہے جو انتہائی قابل مذمت اقدام ہے۔ اس واقعے کے بعد پی ٹی آئی تنہا ہوگئی۔ اس پر پی ٹی آئی کے چند رہنمائوں جن میں اعجاز چوہدری شامل تھے نے پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی سمیت ایسے تمام افراد پر تنقید کی جو عمران خان کیخلاف قرارداد کے حامی تھے۔ چوہدری نے بھی ایک مرتبہ پھر پارلیمنٹ کی توہین کی جس کیخلاف ایک دن قبل مذمتی قرارداد منظور ہو چکی تھی۔ یہ صورتحال نواز لیگ کیلئے باعث راحت معلوم ہوتی ہے جو اپنی مدت مکمل کرنا، مارچ میں وقت پر سینیٹ الیکشن کرانا اور رواں سال جولائی کے آخری ہفتے میں وقت پر عام انتخابات کرانا چاہتی ہے۔ بدھ کو متحدہ اپوزیشن کی مایوس کن کارکردگی اور مسلم لیگ ن کے مخالفین کی صفوں میں دراڑیں پڑنے کے نتیجے میں حکمران جماعت اپنے مقاصد کے حصول کے حوالے سے پر اعتماد نظر آتی ہے۔ اس نئی پیدا ہونے والی صورتحال کے نتیجے میں نواز لیگ کی حکومتوں (مرکز اور پنجاب میں) کو گرانے کی ممکنات میں سے ایک یہ ہے کہ سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان اسمبلی کو تحلیل کر دیا جائے۔ پیپلز پارٹی سندھ میں ایسا کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ حتیٰ کہ عمران خان بھی کے پی کے میں ایسا کرنے کیلئے تیار نہیں۔ بلوچستان کی صورتحال ناقابل پیشگوئی ہے لیکن صرف اس اسمبلی کا تحلیل ہونا کافی نہیں۔ آج سے دس دن بعد، الیکشن کمیشن سینیٹ الیکشن کا اعلان کرنے والا ہے جو رواں سال مارچ میں ہونا ہیں۔ عام انتخابات میں بھی بمشکل 6؍ ماہ باقی رہ گئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو مات دینے کیلئے وقت گزرتا جا رہا ہے۔

تازہ ترین