• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رائو انوار کی گرفتاری کا فیصلہ،سابق ایس ایس پی نے فون بند کردئیے

کراچی(اسٹاف رپورٹر)آئی جی سی ٹی ڈی ثنا اللہ عباسی کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی کا اتوار کو ڈی آئی جی ایسٹ کے دفتر میں اعلی سطح کا اجلاس ہوا ۔سابق ایس ایس پی ملیر نے موبائل فون بھی بند کر دئیے۔ اجلاس کے دوران راؤ انوار کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے۔ اجلاس میں اسپیشل برانچ، تحقیقاتی ٹیم اور اعلیٰ حکام نےشرکت کی جس میں ضلع ملیر کے تمام ایس ایچ اوز کی تبدیلی کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق رائو انوار کے دست راست 16 پولیس اہلکاروں کو بھی عہدے سے ہٹا دیا گیا جن میں 3 ایس پی، 2 ڈی ایس پی اور 13ایس ایچ اوز کو ہٹا دیا گیا، رائو انوار کاکمیٹی پر عدم اعتماد،پیش نہیں ہوئے۔ دریں اثناء سابق ایس ایس پی ملیر رائوانوار اور انکی ٹیم کے افراد انکوائری کمیٹی کی جانب سے دیئے گے وقت پر پیش نہ ہوئے، تحقیقاتی ٹیم انکا انتظار کرنے کے افسران میں 3 ایس پی، 2 ڈی ایس پی او13ایس ایچ اوز شامل ہیں۔ نئے ایس ایس پی ملیر عدیل چانڈیو کی ٹیم میں شامل افسران کو فوری چارج لینے کا حکم دیدیا گیا، جبکہ شبیر بلوچ کو ایس پی ملیر تعینات کردیا گیا اور گڈاپ کا اضافی چارج بھی دیدیا گیا۔ یاد رہے کہ راؤ ا نوار نے 27 سالہ نوجوان نقیب اللہ محسود کو 13 جنوری کو کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں ایک مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ مقتول کا تعلق دہشت گرد تنظیم سے تھا۔ تاہم نقیب کے اہل خانہ نے راؤ انوار کے پولیس مقابلے کو جعلی قرار دے دیا تھا، نقیب اللہ کی ہلاکت پر ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو عہدے سے برطرف، نام ای سی ایل میں شامل کیا گیا۔ بعدازاں سوشل میڈیا اور میڈیا پر معاملہ اٹھنے کے بعد آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے آئی جی سی ٹی ڈی ثنا اللہ عباسی کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی تھی۔ تحقیقاتی کمیٹی نے نقیب اللہ کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے پولیس پارٹی کے سربراہ ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو معطل کرکے گرفتار کرنے اور نام ای سی ایل میں ڈالنے کی بھی سفارش کی جس پر انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔ دوسری جانب نقیب اللہ کے قتل میں ملوث پولیس پارٹی کو بھی معطل کیا جاچکا ہے۔ دوسری جانب رائوانوار سمیت کوئی اہلکار کمیٹی کی جانب سے طلب کئے جانے کے باوجود پیش نہیں ہوا۔ ذرائع کے مطابق رائو انوار نے آئی جی سندھ کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی سربراہ ثنااللہ عباسی اورسلطان خواجہ پر عدم اعتماد کردیااور کمیٹی سامنے پیش نہیں ہوئے۔ رائو انوارکاکہنا ہے کہ کمیٹی میں شامل تینون افسران میرے مخالف ہیں، میں کمیٹی کے سامنے دوبار ہ پیش نہیں ہوں گا، میں نے اپنی پوری ٹیم کو بھی کمیٹی کہ سامنے پیش ہونے سے منع کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق رائو انوار سمیت پوری ٹیم نے اپنے فون نمبر ہی بند کر دیئے۔ رائو انوار نے کہا کہ میں نےمقابلہ کر نے والی ٹیم کے ساتھ کمیٹی کے سامنے پیش ہوکر قاری احسان کے بارے میں بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ مقابلہ ایس ایچ اونے کیا اور انکوائری میرے خلاف ہورہی ہے، 4بار آپریٹرکے ذریعے رابطے کے باجود انکوائری میں پیش ہونے کیلئےنہیں بلایاگیامیں نے ہر مقابلے کی ذمہ داری قبول کی تاکہ پولیس کا مورال بڑھے۔ ذرائع کاکہناہے کہ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے رائو انوار سمیت پوری ٹیم کوتحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کو یقینی بنانے کیلئے ایڈیشنل آئی جی کراچی کو سخت ہدایت جاری کردی ہے۔ جبکہ انویسٹی گیشن پولیس کے ایس پی عابد قائم خانی نے پیر کو رائوانوار کوپیش ہونے کانوٹس جاری کر دیاہے۔علاوہ ازیں پیر کو ہی آئی جی آفس میں اہم اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔ڈی آئی جی ایسٹ اور انکوائری کمیٹی کے رکن سلطان خواجہ نے بتایا کہ پہلے روز راؤ انوار15منٹ کیلئے تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے۔ کمیٹی کے سامنے راؤ انوار نے بتایا تھا کہ نقیب اللہ 2014میں درج مقدمہ میں مطلوب تھا۔ راؤ انوار نے کمیٹی کو بتایا کہ سینٹرل جیل میں قید ملزم قاری احسان اسکا ساتھی ہے اور قاری احسان سے پوچھا جائے تو وہ اس بات کی تصدیق کرے گا۔ سلطان خواجہ نے بتایا کہ جب سینٹرل جیل میں قید قاری احسان سے پوچھا گیا تو اس نے نقیب محسود کو پہچاننے سے انکار کر دیا،اسکا کہنا تھا کہ اسکا کرائم پارٹنر نقیب اللہ کوئی اور تھا۔
تازہ ترین