• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی میںصنعتوں میں حادثات کی روک تھام کیلئے محنت کشوں کے حوالے سے ہیلتھ و سیفٹی بل پاس کیا گیاتھا تاہم کراچی شپ بریکنگ و کئی صنعتوں کے ورکرز کے حالیہ مظاہرے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مذکورہ بل قانون کی شکل تو اختیار کرگیا ،لیکن پہلے سے موجود دیگر لیبر قوانین کی طرح عملی اطلاق سے ہنوزمحروم ہے اور اس حوالے سےحکومتی سطح پر بھی کوئی سنجیدہ پیش رفت نظر نہیں آتی۔حالانکہ کچھ عرصے سے ملک بھر کی ٹیکسٹائل، کان کنی سمیت تمام صنعتوں ،کارخانوں میں حادثات کے نتیجے میں مزدوروں کی اموات اور زخمی ہونے کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے ۔صرف گزرے ماہ ستمبر میں بلوچستان اور کراچی میں درجن سے زائد محنت کش زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ گزشتہ برس ہی گڈانی یارڈ میں آئل ٹینکر پھٹنے سے26 ورکر جھلس گئے ۔2012میں پیش آنے والابلدیہ ٹائون فیکٹری کا سانحہ کون بھلا سکتا ہے جس میں260افراد فائرفائٹنگ سسٹم کی عدم موجودگی اور سیف ایگزٹ نہ ہونے کے باعث لقمہ اجل بنے تھے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ایسے واقعات روکنے کیلئے صوبائی و مرکزی سطح پر ٹھوس اقدامات لیتے ہوئے لیبر قوانین پر عملدر آمد یقینی بنانے کا اہتمام کیا جاتالیکن اس ضمن میںسوائے قوانین پاس کرنے سے آگے کام نہ بڑھ سکا۔نیشنل ٹریڈ یونین کےتحت احتجاج میں مقررین نے بجا طور پر گڈانی شپ بریکنگ سے لےکر ملکی تمام صنعتوں،فیکٹریوں اور کام کی جگہوں پر لیبر قوانین کے عدم نفاذ اور معیارات سے مالکان کی مسلسل روگردانی کو ایسے واقعات کی بنیادی وجوہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بعض متعلقہ اداروں کی غفلت، لاپروائی کی روش نے محنت کشوں کو موت کے منہ میں دھکیل رکھا ہے۔ ضروری ہے کہ تمام مل مالکوں کو لیبر لاز عملی طور پر موثر بنانے ،ورکروں میں حفاظتی انتظامات سے آگہی پیدا کرنے اور بھاری مشینری کی درست ہینڈلنگ کیلئے تربیتی پروگرام منعقد کرانے کا پابند کیا جائے کیونکہ ایسے اقدامات سے ہی مزدوروں کی جان کا تحفظ ممکن ہو سکے گا۔

تازہ ترین