• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدالتی اصلاحات سے تعلق رکھنے والے کئی پہلوئوں پر حکومتی حلقوں میں غوروخوض کی اطلاعات اس اعتبار سے یقیناً اچھی ہیں کہ معاشرے کی ارتقائی تبدیلیاں ہر شعبے سے متعلق قوانین اور ضابطوں میں اصلاح و تبدیلی کی متقاضی ہوتی ہیں اور مقننہ کا اصل کام یہی ہے کہ وہ وقت کی ضرورتوں کے مطابق قانون سازی و پالیسی سازی کرتی رہے۔ کہا جاتا ہے کہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے حلقوں کے علاوہ وزارت قانون بھی اعلیٰ عدلیہ میں تقرر اور برطرفی کے میکنزم کا جائزہ لے رہی ہے تاکہ پارلیمانی نگرانی کا بامعنی نظام متعارف کرایا جاسکے۔ پارلیمانی جمہوریت کی ایک اہم خصوصیت ’’چیک اینڈ بیلنس‘‘ کا نظام ہے جس کے تحت ہر ادارے کی حدود نہ صرف معین ہیں بلکہ اس کی کارکردگی پر دوسرے ادارے کا چیک بھی ہوتا ہے جبکہ مجموعی نگرانی کی ذمہ داری اعلیٰ ترین ریاستی ادارے کی حیثیت سے پارلیمان پر عائد ہوتی ہے۔ اس ذمہ داری کی ادائیگی میں بھی اس نازک فرق کو ملحوظ رکھنا لازم ہے جو ’’نگرانی‘‘ اور ’’مداخلت‘‘ کے درمیان ہے۔ عدلیہ کے امور میں کسی بھی طور پر مداخلت سے نظام عدل کی آزادی اور غیر متنازع حیثیت متاثر ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ اسی طرح پارلیمان کے کاموں میں دخل اندازی کئی مسائل جنم دینے کا سبب بن سکتی ہے۔ بیوروکریسی کو گلہ ہے کہ اس کیلئے اپنے فرائض کی انجام دہی میں انتظامیہ اور عدلیہ کی طرف سے آنے والی بعض رکاوٹیں حائل ہوتی رہتی ہیں۔ سرکاری افسران ایسے قواعد و ضوابط کی ضرورت محسوس کرتے ہیں جن میں جوابدہی کا اصول محکموں کی کارکردگی مثالی بنانے کا ذریعہ تو بنے، ان پر دبائو ڈالنے کے ہتھیار کے طور پر استعمال نہ ہو۔ انکے خیال میں انہیں مدت ملازمت کے حوالے سے تحفظ حاصل ہو تو کئی خرابیوں کے سدباب کی مضبوط بنیادیں فراہم ہوسکتی ہیں۔نظام عدل میں اصلاحات کا تصور ہمہ جہت ہے اور اس حوالے سے تازہ پیش رفت منگل کے روز وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرصدارت منعقدہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ایک اہم قانون کے نفاذ کے فیصلے کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ ’’مقدمہ بازی اخراجات ایکٹ 2017ء‘‘ یکم مارچ 2018ء سے نافذ العمل ہوگا اور بادی النظر میں اس کا مقصد یہ ہے کہ عام لوگوں کو انصاف کے حصول کیلئے غیر معمولی مالی زیر باری سے بچایا جاسکے۔ ملک کے ہر شہری کی انصاف تک رسائی ممکن بنانے کی ضرورتوں میں سے ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ ظلم کا شکار ہونے والے فرد کو اپنی داد رسی کے لئے مالی زیرباری کا سامنا نہ کرنا پڑے بلکہ اس کے اخراجات ریاست برداشت کرے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہوسکے تو حصول انصاف کا عمل اتنے کم خرچ کے اندر، اتنے سادہ طریقے سے اور اتنے کم وقت میں یقینی بنانا ضروری ہے کہ غریب آدمی کی ہمت جواب نہ دے سکے۔ اس کے لئے کچھ عرصے قبل چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سرکردگی میں قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی نے پوری عدلیہ کیلئے رہنما پالیسی خطوط جاری کئے ہیں جن کے تحت احکام امتناع، کرایہ اور وراثت جیسے مقدمات چھ ماہ میں فیصل کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں اور ضلعی عدلیہ کو دلائل سننے کے بعد 30دن میں فیصلہ دینے کا پابند کیا گیا ہے، جبکہ ہائیکورٹوں سے کہا گیا ہے کہ وہ فیصلے تین ماہ سے زائد عرصے کے لئے محفوظ نہ کریں۔ جہاں تک اعلیٰ عدلیہ کا تعلق ہے حالیہ برسوں کے دوران سینیٹ کمیٹی نے حکومت کو ایک رپورٹ پیش کی تھی جس کا مقصد ججوں کے تقرر اور ان کی برطرفی کے حوالے سے پارلیمینٹ کی نگرانی کو موثر بنانا ہے۔یہ معاملہ کافی عرصے سے مختلف سطحوں پر زیر غور آتا رہا ہے۔ 18ویں آئینی ترمیم کے وقت گزشتہ پارلیمنٹ نے پارلیمانی کمیٹی کو جوڈیشل کمیشن کی سفارشات مسترد کرنے کا اختیار دینے کی سفارش کی تھی مگر بعدازاں سپریم کورٹ کی تجاویز منظور کرتے ہوئے متعلقہ ترمیم میں تبدیلی کر دی تھی۔ اب جن آئینی ترامیم پر کام ہورہا ہے وہ عام انتخابات سے پہلے پارلیمنٹ میں پیش ہوں یا بعد میں؟ اس کا انحصار حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق رائے پر ہے۔ اس معاملے میں کئی مرحلے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان مراحل سے کیسے گزرا جاسکے گا؟

تازہ ترین