• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عاصمہ نے بولنے کی آزادی دلوائی،ہم ان کے مقروض ہیں،تجزیہ کار

Todays Print

کراچی(ٹی وی رپورٹ)تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ عاصمہ نے بولنے کی آٓزادی دلوائی،ہم ان کے مقروض ہیں،جمہوری ستونوں کو بچانے میں عاصمہ جہانگیر صاحبہ کا جو کردار ہے اسےفراموش نہیں کیا جاسکتا،کستان بار کونسل کے کامران مرتضیٰ نے لیکن پروگرا م میں عاصمہ جہانگیر کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں نے زندگی میں کسی کو اتنا اسٹیٹ فارورڈ نہیں دیکھا،جو ان کے دل میں ہوتا تھا جس کو وہ درست سمجھتی تھیں وہ بات کہہ دیتی تھیں،بعض وقت ہم مصلحتوں کا شکار ہوجاتے تھے لیکن وہ کبھی نہیں گھبرائیں۔ سینئرصحافی مظہرعباس نے ایم کیوایم پاکستان میں پیداشدہ تازہ صور تحال پربات کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں فلم ختم ہوچکی،کراچی والوں کے لئے سیاسی طورپر یہ بری خبر ہے، خاص طورپر ایم کیوایم کے سپورٹرزاورووٹرزکے لئے یہ افسوسناک خبرہے۔ہمیں فاروق ستار کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہئے لیکن آج میں دیکھ رہا تھا کہ ایم کیو ایم کے کارکن جنہوں نے جیلیں کاٹی ہیں،سزائیں بھگتی ہیں وہ تقسیم نظر آرہے تھے،ایک دوسرے کے خلاف شکایات کررہے تھے اور ایم کیو ایم مخالف سیاسی جماعتیں اس صورتحال پر خوش ہیں۔وہ جیونیوزکے پروگرام ’’لیکن‘‘ میں میزبان رابعہ انعم سے گفتگو کررہے تھے ۔ پروگرام ’’لیکن‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے ماروی سرمد نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ میری وہ استاد ،رہنما اور لیڈر تھیں ان سے نیازمندی کا تعلق تھا۔جبران ناصر نے کہا کہ میں نے ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ نسیم زہرہ آج آپ نے مجھے استادوں کے ساتھ بٹھادیا ہے جس کے لیے میں آپ کا شکر گزار ہوں جوراستہ عاصمہ جہانگیر نے دکھایا تھا اس پر ہم گامزن ہیں،ان کے بد ترین ناقدین بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ہم عاصمہ جہانگیر کے مقروض ہیں کیوں کہ آج جو ہمیں بولنے کی آزادی ہے وہ عاصمہ جہانگیر کی بدولت ہے،جمہوری ستونوں کو بچانے میں عاصمہ جہانگیر صاحبہ کا جو کردار ہے اسےفراموش نہیں کیا جاسکتا۔پاکستان بار کونسل کے کامران مرتضیٰ نے لیکن پروگرام میں عاصمہ جہانگیر کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں نے زندگی میں کسی کو اتنا اسٹیٹ فارورڈ نہیں دیکھا،جو ان کے دل میں ہوتا تھا جس کو وہ درست سمجھتی تھیں وہ بات کہہ دیتی تھیں،بعض وقت ہم مصلحتوں کا شکار ہوجاتے تھے لیکن وہ کبھی نہیں گھبرائیں۔رابعہ انعم نے پروگرام کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان کی اگر آپ بات کریں تو لگتا یہ ہے کہ اب اس فلم کا کلائیمکس چل رہا ہے۔رابطہ کمیٹی کے ارکان نے فاروق ستار کو کنوینر کے عہدے سے سبکدوش کردیا ہے۔اس کا اعلان انہوں نے ایک پر ہجوم پریس کانفرنس میں کیا۔کنور نوید جمیل نے فاروق ستار پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے انہیں غیر آئینی اقدامات کا بانی بھی قرار دیا۔اس کے جواب میں فاروق ستار نے جوابی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ان کے نادان،ناسمجھ بھائیوں نے یہ سب کچھ ایم کیو ایم پاکستان کی سربراہی کے لیے کیا ہے اور آج سازشیں بے نقاب ہوگئی ہیں اور بلی تھیلے سے باہرآگئی ہے۔سینئر صحافی مظہر عباس نے اس صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ بہادر آباد میں اور پی آئی بی میں کتنے لوگ پہنچنے ہیں اور میرے خیال میں تو فلم ختم ہوچکی ہے اور میرے خیال میں تو افسوسناک دن ہے۔آج عاصمہ جہانگیر کی خبر آئی،قاضی واجد کی خبر آئی لیکن کراچی والوں کے لیے سیاسی طور پر یہ بری خبر ہے،خاص طور پر ایم کیو ایم کے سپورٹرز اور ووٹرز کے لیے یہ افسوسناک خبر ہے اور بقول شاعر سبھی منتظر تھے اچھی خبر کے ،مگر اچھی خبر کوئی نہیں ہے،اب جو بھی تقاریر ہونگی بہادر آباد یا پی آئی بی میں وہ نہ تو مہاجروں کے مفاد کی ہونگی نہ ہی کراچی والوں کے مفاد میں ہونگی الزامات پر مبنی ہونگی۔ہمارے ہاں ویسے بھی سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نہیں ہے لیکن اگر پارٹیوں میں ڈکٹیٹر شپ بھی ہو تو فیصلہ سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی ہی کرتی ہے۔رابعہ انعم نے معروف قانون دان اور سماجی کارکن عاصمہ جہانگیر کے انتقال پر کہا کہ ان کی وفات کے ساتھ ہی انسانی حقوق کی تاریخ کا ایک درخشاں باب اس ملک میں بند ہوگیا،انسانی حقوق اور اقلیتوں کی آواز آج ہمیشہ کے لیے بند ہوگئی وہ پاکستان کی بہادر بیٹی تھیں جس موضوع پر بات کرتے ہوئے سب گھبراتے تھے وہ بات عاصمہ جہانگیر بہادری سے کر تی تھیں،آمروں کے آگے تو وہ ڈٹی رہیں لیکن جمہوری حکمرانوں کے غیر جمہوری رویوں کے خلاف بھی وہ سینہ سپر رہیں،حق گوئی میں اپنوں اور پرایوں کا بھی فرق نہیں کیا۔عاصمہ جہانگیر کی رحلت پر بات کرتے ہوئے جبران ناصر نے کہا کہ میں نے ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ نسیم زہرہ آج آپ نے مجھے استادوں کے ساتھ بٹھادیا ہے جس کے لیے میں آپ کا شکر گزار ہوں جوراستہ عاصمہ جہانگیر نے دکھایا تھا اس پر ہم گامزن ہیں،ان کے بد ترین ناقدین بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ہم عاصمہ جہانگیر کے مقروض ہیں کیوں کہ آج جو ہمیں بولنے کی آزادی ہے وہ عاصمہ جہانگیر کی بدولت ہے،جمہوری ستونوں کو بچانے میں عاصمہ جہانگیر صاحبہ کا جو کردار ہے اسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔وہ اس وقت حق بات کرتی تھیں جب نہ آپ کا الیکٹرونک میڈیا تھا نہ سوشل میڈیا تھا،لوگوں پر ریاستی تشدد ہوتا تھا اور اسٹیٹ میڈیا اس کو دکھاتا نہیں تھا ۔وہ ہم سب کے لیے دیا جلا کر گئی ہیں اور ان کی راہ پر گامزن رہیں گے ،بدترین نقاد بھی ان کے مقروض ہیں ،پاکستان بار کونسل کے کامران مرتضیٰ نے لیکن پروگرام میں عاصمہ جہانگیر کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں نے زندگی میں کسی کو اتنا اسٹیٹ فارورڈ نہیں دیکھا،جو ان کے دل میں ہوتا تھا جس کو وہ درست سمجھتی تھیں وہ بات کہہ دیتی تھیں،بعض وقت ہم مصلحتوں کا شکار ہوجاتے تھے لیکن وہ کبھی نہیں گھبرائیں، میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے دونوں ہاتھ کٹ گئے ہیں انسانی حقوق،قانون ،آمریت کے خلاف جدوجہد غرض وہ کون سا ایسا میدان تھا جس میں انہوں نے اپنا لوہا نہ منوایاہو،اللہ اس کی مغفرت کرے وہ جو چراغ جلاکر گئی ہیں وہ ہمیشہ جلتے رہیں گے اور ان زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے ،عاصمہ کو فالو کرنا ہمارے لیے فخر کی بات ہے،ان کےانتقال پر ہم سب ہکا بکا رہ گئے ہیں،رابعہ انعم نے کہا کہ کئی وکلا نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ آج ان کی ماں فوت ہوگئی ہیں ۔ماروی سرمد نے ’’لیکن‘‘ میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ میری وہ استاد ،رہنما اور لیڈر تھیں ان سے نیازمندی کا تعلق تھا ان پر جو اٹیک آتا تھا وہ شائد ہی کسی کے اوپر آتا ہو میں نے ایک بار ان سے کہا کہ اگر مجھے کچھ ہوجائے تو میری تعزیت تو آپ نے ہی لکھنی ہے تو انہوں نے مجھے ڈانٹا اور کہا کہ ایسی باتیں آئندہ نہ کرنا اور موت کا ڈر لیکر کبھی نہ جیو،ان کے کڑے نقاد بھی جب مشکل میں ہوتے تو عاصمہ ان کے حق میں بھی بولتی تھیں،کسی کی حق تلفی نہیں ہونی چاہئے،ریاستی اداروں کو اپنی حدود میں رہنا چاہئے اور وہ ان اصولوں پر ہی کھڑی رہیں چاہے پختونوں کے،چاہے بلوچوں کے،چاہے مسنگ پرسنز کے ایشوز ہو ں، وہ ہمیشہ آگے آگے ہوتیں۔ مظہر عباس نے کہا کہ ایک ناقد صحافی کا بھی کیس انہوں نے لڑا اور صحافتی برادری ان کے احسانات کبھی نہیں بھولے گی،عاصمہ صاحبہ نثار عثمانی کو اپنا استاد مانتی تھیں اور وہ ان کا ایک قول دہراتی تھیں کہ سچ وہ ہے جو وقت پر بولا جائے،عاصمہ جہانگیر کی پٹیشن کی بنیاد پر نظریہ ضرورت کا خاتمہ ہوا،آج وہ تمام محروم طبقات یتیم ہوگئے جن کے لیے عاصمہ نے اپنی آواز بلند کی ۔انہوں نے کبھی کوئی مفاد حاصل نہیں کیا۔ان کا ایک ہی پیغام تھا کہ دینا پڑے کچھ بھی ہرجانہ،سچ ہی لکھتے جانا،مت ڈر جانا، مت دب جانا،سچ ہی لکھتے جانا۔

تازہ ترین