• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بے شک علی ترین الیکشن ہار گئے مگر ان کی بدولت لودھراں فتح یاب ہوگیا ہے کہ بہت کم عرصہ میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے 22ارب اور47کروڑ کے ترقیاتی فنڈز ضلع لودھراں کو دے دئیے۔
شکست کھا کے بھی میں فتح کے جلوس میں ہوں کہ ’’جو دے گئے ہیں مجھے مات میرے اپنے ہیں‘‘۔
اگر کسی کو اس بات پر یقین نہیں آرہا تو وہ حکومتِ پنجاب سے تصدیق کر سکتا ہے۔ جیت کی خبر سُن کر نوازشریف نے سب سے پہلے وزیراعلیٰ پنجاب کو مبارک باد کے لئے ٹیلی فون کیا۔ کیا بتائوں لودھراں پر کتنی نوازشات کی گئیں۔ صرف لودھراں کی طالبات کو 4کروڑاور46 لاکھ وظیفے کی مد میں دے دئیے گئے۔ اسپیشل ایجوکیشن سینٹر کے لئے 7کروڑ اور52 لاکھ روپے دئیے گئے۔ لودھراں ایجوکیشن کمپلیکس کے لئے تقریباً پانچ کروڑ روپے، گورنمنٹ ہائی اسکول کی اپ گریڈیشن کے لئے تقریباً چھ کروڑ روپے۔ ڈگری کالج فارویمن کی دیوار کے لئے نو کروڑ سے زائد، ذکریا یونیورسٹی کے سب کیمپس کے لئے فنڈنگ۔ مل ملا کر صرف تعلیم کے شعبے میں تقریباً دو ارب روپے دئیے گئے۔ صحت کے شعبے میں 74کروڑ اور35لاکھ روپے خرچ کئے گئے۔ سڑکوں کی تعمیر کے لئے 10ارب دئیے گئے۔ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے شعبے میں دو ارب اور پچاس کروڑ، سرکاری عمارات کی تعمیر کے لئے تین ارب اور بیالیس کروڑ، دیہی روڈٖ پروگرام کے لئے دو ارب اور نو کروڑ خرچ کئے گئے اور بھی بے شمار شعبوں میں پنجاب حکومت نے کھل کر خرچ کیا۔ سو جہانگیر ترین اور علی ترین کو مبارک باد نہ دینا بخل سے کام لینا ہے۔ وہ نہ ہوتے تو یہ رقم بھی کسی اورنج ٹرین یا میٹرو پر خرچ کر دی جاتی۔ ویسے پنجاب کے 1970 ارب کے بجٹ کے مطابق دیکھا جائے تو بائیس ارب کوئی بہت بڑی رقم نہیں۔
کچھ اِس طرف بھی نظرِ کرم ہو گئی تو کیا
تکلیف اپنی تھوڑی سی کم ہو گئی تو کیا
اگست دوہزار سولہ میں اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقیاتی پروگرام کے سربراہ مارک اینڈر نے کہا کہ پنجاب کے سب سے ترقی یافتہ ڈسڑکٹ لاہور پر حکومتی فنڈز کی سرمایہ کاری سرائیکی علاقوں کے لئے مختص کی جانے والی رقم سے چھ گناہ زیادہ ہے۔ خود پنجاب حکومت نے کہا تھا کہ پنجاب کے ترقیاتی بجٹ میں لاہور کا حصہ 24فیصد ہے، 58فیصد ہونے کی خبرغلط اور بے بنیاد ہے یعنی پنجاب کے بجٹ کا چوتھا حصہ لاہور میں خرچ ہوتا ہے۔
افضل عاجز نے کہا تھا
شہر تیڈے دیاں سڑکاں تے وی چنبا مروا کھلداے
تھل میڈے دے سنجھے ٹبے ساول کیتے لوہندن
(تیرے شہر کی سڑکوں پر بھی چنبا اور مروا کے پھول کھلتے ہیں جب کہ میرے تھل کے ویران ٹیلے سبزے کےلئے ترستے ہیں)
جہانگیر ترین کے حلقے کی طرح میانوالی میں عمر ان خان کےحلقے این اے اکہتر پر بھی فنڈنگ کی بارش کی گئی ہے۔2 ارب 35کروڑ گیس کی مدمیں دئیے گئے، 90 کروڑ بجلی کےلئے دئیے گئے، ایک ارب سڑکوں کے لئے فراہم کئے گئے، نہر کس عمر خان کےلئے 35کروڑ دئیے گئے درہ تنگ تک سڑک کے لئے ایک ارب اور پچاس کروڑ دئیے گئے۔ اِن کے علاوہ بھی کروڑوں روپے کے چھوٹے چھوٹے پروجیکٹ دئیے گئے۔ یہاں سے عبیداللہ شادی خیل نون لیگ کے ایم این اے ہیں۔ میانوالی میں ایم این اے کے دوسرے حلقے این اے 72جہاں سے پی ٹی آئی کے امجد خان ایم این اے ہیں۔ اُس کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا ہے کہ چند لاکھ کی فنڈنگ بھی فراہم نہیں کی گئی الٹا میانوالی (پپلاں ) سے ڈیرہ اسماعیل خان کو ملانے کےلئے محترمہ بے نظیر بھٹو نے دریائے سندھ کے اوپر ایک پل تعمیر کرنے کی منظور ی دی تھی۔اُس پل کےلئے جب فنڈنگ فراہم ہوئی تو وہ پل ضلع میانوالی سے نکال کر ضلع بھکر میں شفٹ کردیا گیا۔
اتنا کہا کہ اپنا بھی کچھ حق ہے آپ پر
جو کچھ تھا پاس وہ بھی کوئی لے کے چل دیا
صرف شہباز شریف نے ہی پنجاب میں خزانے کا در نہیں وا کیا ہوا۔ وفاقی حکومت بھی پوری طرح ان کے نقشِ قدم پر چل رہی ہے۔ ویسے مختلف علاقوں کو ترقیاتی فنڈ کی تقسیم کا سب سے بڑا کریڈٹ عدالت عظمیٰ کو جاتا ہے۔ جب پانامہ کیس شروع ہوا تھا اور نوازشریف کو اندازہ ہوگیا کہ فیصلہ میرے خلاف آنے کے امکانات قوی ہیں تو انہوں نے ترقیاتی فنڈز کے پھاٹک کھول دئیے اور پھر ان کے بعد جب شاہد خاقان عباسی وزیراعظم بنے تو انہوں نے پھاٹک ہٹا ہی دئیے۔ اندازہ لگائیں کہ صرف یکم جولائی دوہزار سترہ سے پچیس اگست دوہزار سترہ تک تقریباً77ارب کے ترقیاتی فنڈز جاری کئے گئے۔ اگرچہ اِس صورت حال سے اُس کا کوئی تعلق نہیں ہے مگر’’مالِ مفت دلِ بے رحم‘‘ کا محاورہ مجھے مسلسل یاد آ رہا ہے۔
عمران خان نے یونہی نہیں کہا کہ لودھراں میں بے دریغ پیسے کا استعمال کیا گیا ہے۔ بیچاری نون لیگ اپنی عوامی مقبولیت ثابت کرنے کے لئے بصد سامانِ رسوائی سر بازار رقصاں ہے کہ انبوہِ جاں بازاں کو دیکھ کر شاید حسنِ عدالت کو رحم آ جائے۔

تازہ ترین