• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ریاست کا نظام کسی بھی قوم کے اجتماعی مفاد کے تقاضوں کے مطابق بطریق احسن چلانے کے لئے ملکی اداروں، خصوصاً مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کا ایک صفحے پر ہونا از بس لازم ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب وہ آئین میں متعین کردہ حدود کے مطابق اپنا اپنا کام کریں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اس حوالے سے کوئی قابل رشک روایت قائم نہیں ہو سکی۔ انتظامیہ کی کارکردگی پر اعتراضات اٹھائے جاتے رہے تو مقننہ بھی قوم کی توقعات پوری کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی اور عدلیہ کے فیصلے بھی ہمیشہ تنقید کی زد میں رہے۔ گزشتہ سال پانامہ لیکس کے مقدمے میں عدلیہ نے جو فیصلہ دیا اس پر عملدرآمد تو ہو گیا لیکن متاثرہ فریق نے اس کے میرٹ کو قبول نہیں کیا جس کے نتیجے میں اداروں کے مابین تلخیوں نے جنم لیا جو بڑھ کر محاذ آرائی کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے پیر کو قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے اس ضمن میں پارلیمنٹ کی بالادستی کی پر زور وکالت کی اور اپوزیشن کو دعوت دی کہ اس معاملے پر پارٹی وابستگی سے بالاتر ہو کر ایوان میں بحث کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں 207ملین عوام کے منتخب نمائندے بیٹھے ہیں لیکن عدالتوں میں انہیں چور، ڈاکو، مافیا اور گاڈ فادر کہا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کو ختم کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے، حکومتی پالیسیوں کو مسترد کیا جاتا ہے حکومتی نمائندوں کو بے عزت کیا جاتا ہے اور سرکاری افسروں کی بے عزتی کر کے انہیں نوکریوں سے نکال دیا جاتا ہے۔ ایوان میں اس بات پر بحث ہونی چاہئے کہ کیا قانون سازی پارلیمنٹ کا حق ہے یا نہیں؟ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آئین میں تمام اداروں کی حدود متعین ہیں سپریم کورٹ کی طرح پارلیمنٹ کے فیصلوں کو بھی تسلیم کیا جانا چاہئے عدلیہ کو فیصلے کرنےکا حق ہے تو پارلیمنٹ کو بھی قانون سازی کا حق ہے۔ تمام اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا ہوگا اداروں میں تصادم سے ملک کو نقصان پہنچے گا۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے اپنی جوابی تقریر میں تمام اداروں کے آئین کے اندر رہ کر کام کرنے کی حمایت کی اور کہا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حق ہے جسے کوئی رد نہیں کر سکتا۔ عدالتیں قانون کی تشریح کر سکتی ہیں قانون ختم نہیں کر سکتیں۔ یہ درست نہیں کہ ایگزیکٹو کا کام عدلیہ کرے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ کوئی قانون سازی پارلیمنٹ کی بالادستی اور ملک و قوم کے مفاد میں ہوتی ہے تو ہم حکومت کے ساتھ ہیں مگر کسی قسم کے ذاتی مفاد کی خاطر قانون سازی میں ہم تعاون نہیں کر سکتے کیونکہ کسی فرد یا کسی کے مفاد کے لئے قانون سازی تباہ کن ہو گی۔ وزیرداخلہ احسن اقبال نے بھی عدالتوں کے حوالے سے درپیش مسائل کی نشاندہی کی اور کہا کہ ہم کوئی کام کرتے ہیں تو کوئی بھی جا کر عدالتوں سے حکم امتناعی لے لیتا ہے جو سالہا سال تک چلتا رہتا ہے۔ اس سے قبل مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بھی جو وزیراعظم کی زیر صدارت منعقد ہوا، اعلیٰ عدلیہ اور ججوں سے متعلق پارٹی پالیسی تبدیل کرنے پر اتفاق ہوا اور پارٹی قیادت کے بارے میں ججوںکے ریمارکس پر تشدید تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پارلیمنٹ ہی ملک کا بالادست اور سپریم ادارہ ہے اسے قانون سازی کا اختیار ہے لیکن اختیار ذمہ داری کا دوسرا نام ہے کوئی بھی ادارہ آئینی حدود و قیود سے بالاتر نہیں۔ اداروں پر لازم ہے کہ اپنی حدود میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلیں۔ انہیں محاذ آرائی کی طرف نہیں جانا چاہئے۔ پاکستان اس وقت جن اندرونی اور بیرونی خطرات سے دوچار ہے ان کی موجودگی میں تمام اداروں کو ملکی اورریاستی مفاد میں ایک دوسرے کا دست و بازو بننا چاہئے۔ ادارے آمنے سامنے آجائیں تو نقصان ریاست کا ہو گا۔ ایک دوسرے کے فیصلوں پر ردعمل بھی اپنے اپنے دائرہ کار کے اندر رہ کر دینا چاہئے۔ جو ادارہ جتنا بااختیار ہے اسے اتنی ہی ذمہ داری سے اپنا کام کرنا چاہئے ۔ ایک دوسرے کے کام میں ماورائے آئین مداخلت نہیں کرنی چاہئے، قوم کا مفاد اسی میں ہے اور قومی مفاد کی پاسداری سب کی اولین ذمہ داری ہے۔

تازہ ترین