• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کے مختلف جمہوری ممالک کی طرز پر پاکستان میں بھی دو ایوانوں پر مشتمل پارلیمانی نظام رائج ہے، ایوان بالا سینیٹ کے انتخابات ہر تین سال بعد آدھی تعداد کی نشست کے لئے منعقد کئے جاتے ہیں جبکہ سینیٹ ارکان کی مدت6 سال ہوتی ہے، اس وقت ایوان بالا میں 104 نشستیں ہیں جن میں سے18 خواتین کی ہیں، اٹھارویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں غیرمسلم اقلیتوں کیلئے چار نشستوں کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ آج جب ایوان بالا کے الیکشن کا وقت قریب آیا ہے تو ہر طرف افواہوں کا بازار گرم ہوگیا ہے، کبھی ایک مخصوص سیاسی جماعت کی صوبائی حکومت کی جانب سے صوبائی اسمبلی توڑنے کا امکان ظاہر کرکے غیریقینی صورتحال پیش کرنے کی کوشش کی گئی تو کبھی دوسری سیاسی جماعت کے سربراہ کی جانب سے ایک ایسے صوبے سے سینیٹر منتخب کرانے کا اعلان کیا گیا جہاں ان کی اسمبلی میں عددی اکثریت ہی نہیں، ملکی سیاست میں نمایاں لسانی جماعت کی اعلیٰ قیادت کے مابین سینیٹ ٹکٹ کے فیصلے پر پھوٹ پڑجانا بھی افسوسناک امر ہے۔ پیسے کے زور پر سینیٹ ٹکٹوں کی خرید و فروخت، ہارس ٹریڈنگ کے الزامات نے جہاں عام آدمی کو سیاستدانوں سے متنفر کیا وہیں سینیٹ کا الیکشن میڈیا کیلئے موضوع بحث بن گیا ہے۔ میری نظر میں وفاق کی علامت ایوان بالا کا مقصد ایوان زیریں پر چیک اینڈ بیلنس رکھنا ہے اور سیاسی قیادت کا من پسند غیرسیاسی افراد کو ایوان بالا بھیجنا ملکی سیاست کیلئے شرم کا باعث ہے، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کچھ مخلص سینیٹرز کو چھوڑ کر اکثریت اپنا تعلق عوام کی بجائے سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت سے قائم رکھنے میں دلچسپی رکھتی ہے، یہی وہ آمرانہ رویہ ہے جس کی بنا پر ایک وفادار سیاسی کارکن اپنی اعلیٰ قیادت سے اختلاف کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ مختلف ممالک کے جمہوری نظام کا جائزہ لیا جائے تو یہ امر سامنے آتا ہے کہ دنیا کے کم و بیش تمام جمہوری ممالک میں ایوان بالا کے قیام کی بنیادی وجوہات وفاق کی تمام اکائیوں کو یکساں نمائندگی دینا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی اہم وجہ تمام صوبوں کو پارلیمنٹ میں برابری کی سطح پر نمائندگی نہ ملنا تھا اور یہی وجہ تھی کہ 1971کے بعد پاکستان میں وفاق کی علامت سینیٹ کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ ہر صوبے کی طرف سے برابر تعداد میں نمائندگی یقینی بنائی جاسکے، قومی اسمبلی سے منظور شدہ ہر قانون کیلئے لازم ہے کہ وہ سینیٹ سے بھی منظور ہو، سینیٹ کا سربراہ ملک کے صدر کا قائم مقام بھی ہوتا ہے۔ برطانیہ کو جمہوریت کی ماں سمجھا جاتا ہے، وہاں کے ایوان بالا کو ہاؤس آف لارڈز یعنی طبقہ اشرافیہ اور امراء کا ایوان بھی کہا جاتا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت سمجھے جانے والے بھارت کے ایوان بالا راجیہ سبھا کے انتخابات میں بھی پیسے کے استعمال کی شکایات زبان زد عام ہیں۔ امریکہ میں وفاقی حکومت کے قیام کے بعد یہ محسوس کیا گیا کہ امریکی سینیٹ درحقیقت دولت مندوں کے ایک ایسے کلب میں ڈھل چکا ہے جو اپنے معاشی مفادات کے تحفظ کو ترجیح دیتا ہے، اس سلسلے میں1913 میں امریکی آئین میں سترہویں ترمیم عمل میں لائی گئی تاکہ عوام سینیٹرز کا انتخاب ڈائریکٹ ووٹ کی بنیاد پر کرسکیں، آج وہاں پاپولر ووٹ کے ذریعے عوام اپنے حقیقی نمائندے سینیٹ میں بھیجتے ہیں۔ پاکستان کی طرح فلپائن میں بھی کثیرالجماعتی سیاسی نظام رائج ہے، فلپائن کی سینیٹ چوبیس نمائندوں پر مشتمل ہے جہاں چھ سال کیلئے منتخب ہونے والے سینٹرز صرف دو بار انتخابات لڑ سکتے ہیں، فلپائن میں سینیٹ کا ادارہ امریکی سینیٹ کے ماڈل پر قائم کیا گیا ہے۔ میری نظر میں پاکستان کو ترقی و خوشحالی کی منزل سے دور کرنے کی ایک بڑی وجہ میرٹ کو نظرانداز کرکے نااہل افراد کو نوازنا ہے، کارکردگی کی بجائے ذاتی پسند ناپسند کی بنیادوں پر فیصلے ہر شعبے میں منفی نتائج مرتب کررہے ہیں، عوام کی حمایت کی بجائے چاپلوسی اور خوشامد کے بل بوتے پر آنے والے ممبران پارلیمنٹ عوامی مسائل کے حل سے زیادہ اپنے ذاتی کاروبار کے پھیلاؤ پر توجہ دیتے ہیں، آج عوام کو بھی پارلیمان سے یہی شکایت ہے کہ وہاں عوام کی بجائے خاص طبقے کے مفادات کا خیال رکھا جاتا ہے۔73کے آئین پر پورے ملک کا اتفاق ہے، اس عرصہ طویل میں بہت سی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں لیکن کسی نے یہ نہیں سوچا کہ پارلیمان میں عوام کی حقیقی نمائندگی یقینی بنانے کیلئے کوئی ایسی پائیدار پالیسی مرتب کی جائے جس کی بنا پر عوام سے گراس روٹ لیول پر تعلق رکھنے والا غریب اور مخلص باشندہ روایتی سیاستدانوں کو شکست دیکر ایوان بالا تک پہنچ سکے۔ یہ اختیار عوام کے پاس ہونا چاہئے کہ وہ کارکردگی کی بنیاد پر امیدواروں کو سلیکٹ یا ریجیکٹ کرسکیں۔ میں مختلف مواقع پر اظہار خیال کرتا رہتا ہوں کہ ایک ہوتی ہے گورنمنٹ اور دوسری گورنس، افسوس اچھے طریقے سے حکومت کرنے سے زیادہ حکومت میں رہنا ہماری ترجیح بن گیا ہے۔ میری نظر میں یہ پاکستانی عوام کا بنیادی حق ہے کہ وہ اپنے حقوق کی حفاظت کیلئے اپنے حقیقی نمائندوں کی موجودگی پارلیمان میں یقینی بنانے کیلئے آواز بلند کریں، اس وقت ملک کو ایسے پارلیمانی لیڈران کی ضرورت ہے جن کی ترجیحات میں مخالف سیاسی جماعت کو تنقید کا نشانہ بنانا نہیں بلکہ سیاست کو عبادت سمجھتے ہوئے عوام کی خدمت کا ایجنڈا سرفہرست ہو اور وہ پاکستان کا موقف احسن انداز میں عالمی برادری کے سامنے پیش کرسکیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ عوام موجودہ جمہوری سیاسی نظام پر اپنے اعتماد کا اظہار کریں تو سب سے پہلے ہمیں سینیٹ کے ادارے میں ایسے قابل اور حقیقی عوامی نمائندوں کی موجودگی یقینی بنانا ہوگی جو عوام کے سامنے جوابدہ ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کے خواہاں امیدواروں کے پاس سیاسی تجربہ بھی ہونا چاہئے، اس حوالے سے لازم کرنا چاہئے کہ سینیٹ امیدوار نے اپنے سیاسی کیریئر میں کم از کم ایک مرتبہ قومی اسمبلی یا کونسلر کا الیکشن لڑا ہو۔ اب جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری سینیٹ الیکشن شیڈول کے مطابق کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا عمل مکمل ہوگیا ہے اور چاروں صوبوں سے سینیٹ کی خالی ہونے والی نشستوں پر انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی حتمی فہرست بھی جاری کردی گئی ہے تو ملکی سیاسی نظام کے استحکام کیلئے یہ بہت ضروری ہے کہ پارلیمان میں ایسے عوامی نمائندے پہنچیں جو اپنی جڑیں عوام میں رکھتے ہوں۔ سینیٹ الیکشن ٹکٹ کی بندربانٹ روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ امریکی سینیٹ انتخابات کی طرز پر ڈائریکٹ ووٹنگ کا سسٹم اپنایا جائے، پاکستان کے ہر صوبے سے کم از کم 23حلقے سینیٹ کےعوام سے براہ راست ووٹ کیلئے کھول دیئے جائیں یا پھرسینیٹر بننے کے خواہش مند امیدوار اپنے صوبے سے ووٹ لیں اور جو امیدوار زیادہ پاپولر ووٹ حاصل کرے اس کو فاتح قرار دیا جائے، اسی طرح قومی اسمبلی کی خواتین اور غیرمسلموں کی مخصوص نشستوں کو بھی ختم کرکے ڈائریکٹ ووٹ کا سسٹم متعارف کروایا جائے۔ مجھے اپنی سیاسی قیادت سے جب بھی تبادلہ خیال کرنے کا موقع ملتا ہے تو میں اپنا یہی موقف دہراتا ہوں کہ عوام میں غیرمقبول ممبران کی پارلیمان میں موجودگی ملکی سیاسی نظام کیلئے کسی صورت فائدہ مند نہیں اور حقیقی عوامی نمائندوں پر مشتمل مضبوط پارلیمان ہی اپنے آپ کو سپریم ثابت کرکے قومی اداروں کے مابین ٹکراؤ کے خدشات کا سدباب کرسکتی ہے۔ حالیہ سینیٹ انتخابات کے حوالے سے میں تمام ساتھی ممبران قومی اسمبلی سے کہنا چاہوں گا کہ ہم عوام کو تو بہت زیادہ تلقین کرتے ہیں کہ ووٹ کوقوم کی امانت سمجھ کر استعمال کیا جائے، اب سینیٹ الیکشن کے موقع پر ہمیں بھی اپنے طرزعمل سے ثابت کرنا چاہئے کہ ہمارا ووٹ بکاؤ نہیں اور ہم خدا کو حاضر و ناظر جانتے ہوئے اپنے ضمیر کی آواز پر اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں۔

تازہ ترین