• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سچائی پر نزع کا عالم ہے۔ مقولے تڑپ رہے ہیں۔ یقیں متزلزل ہورہا ہے۔ افسوں ٹوٹ رہے ہیں۔ ضرب الامثال ننگے سر بوکھلائے پھر رہی ہیں۔ محاورے خودکشی کر رہے ہیں۔ مکر مکونیاں تگنی کا ناچ نچا رہی ہیں۔
کہا تو جارہا ہے کہ ہم انتشار کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ انتشار ہماری طرف بڑھ رہا ہے اور بہت تیزی سے۔ کہیں کسی پہاڑی پر۔ کسی میدان میں۔ کسی قلعے میں۔ کسی خانقاہ میں۔ کسی درسگاہ میں ایسی کوئی قیادت نظر نہیں آرہی ہے جو اس تیزی سے بڑھتی انارکی کے سامنے بند باندھ سکے۔
قوم پہلے بھی بہت بٹی ہوئی تھی۔ گزشتہ چند ہفتوں میں بیانوں اور فیصلوں سے یہ خلیج اور وسیع ہوگئی ہے۔
حاکموں کا کیا کہنا ۔ منصفوں نے حد کردی
تنگ تھے بیانوں سے فیصلوں نے حد کردی
ہلا شیری کرنے والے لڑوانے والے دانشور تو بہت ہیں لیکن ایسے عالم دین۔ ریٹائرڈ بریگیڈیئر۔ سینئر ماہر قانون بہت کم ہیں جو تلواریں سونت کر کھڑے ہم وطنوں سے کہہ سکیں کہ آپس میں شمشیرزنی کی بجائے جانے پہچانے اور بے چہرہ دشمنوں کے مقابلے کے لئے اپنی صفیں باندھنے کی فکر کرو۔ ہماری بربادیوں کے مشورے دہلی میں ہورہے ہیں۔ کابل میں ہورہے ہیں۔ واشنگٹن میں ہورہے ہیں۔ تہران میں ہورہے ہیں۔ لندن بھی پیچھے نہیں رہنا چاہتا۔ پیرس اور برسلز کے سامنے بھی ہمارا نامۂ سیاہ رکھا جارہا ہے۔ دہلی کی سفارتی سرگرمیاں تیز ہورہی ہیں۔ پہلے بھی اس نے ہمارے ایسے کمزور لمحوں سے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔ ہماری شہ رگ کشمیر پر بھی اس نے ایسے عالم میں ہی قبضہ کیا تھا۔ حیدر آباد دکن میں پولیس ایکشن بھی اس وقت ہوا۔ جب ہم سوگ میں تھے۔
ہمارے گرد گھیرا تنگ ہورہا ہے۔ ہمارا پانی روکا جارہا ہے۔ عالمی منڈیوں کے دروازے ہم پر بند کرنے کی قانونی منصوبہ بندی ہورہی ہے۔ ہم کتنی وضاحتیں کرلیں۔ دنیا کے اکثر ممالک نہیں مان رہے کہ ہم غیر ریاستی عناصر کو اسلحہ نہیں دے رہے ہیں۔ ہم دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی نہیں کرتے ہیں۔ چین اپنا دوست ہے۔ وہ اس خطے میں حقیقی اقتصادی ترقی کا خواہاں ہے اس لئے وہ بلوچستان کے ناراض عناصر سے اندرونِ پاکستان اور بیرونِ ملک خود رابطے کررہا ہے۔ انہیں سمجھا رہا ہے۔ کام یہ ہمارے کرنے کا تھا چین تو اپنے اربوں ڈالر کے تحفظ کے لئے یہ کوششیں کررہا ہے۔ وہ تو مذہبی شدت پسند تنظیموں سے بھی رابطے میں ہے۔ وہ پاکستانیوں کو بھی ایک محفوظ اور مستحکم مستقبل دینا چاہتا ہے اور اپنے ایک پٹی۔ ایک سڑک کے خواب کو بھی تعبیر کی منزل سے ہمکنار کرنا چاہتا ہے۔ وہاں قیادت ایک ہی ہے۔ سیاسی قیادت فوجی قیادت۔ عدالتی قیادت۔ مذہبی قیادت الگ الگ نہیں ہیں۔ ایک نیا جہان وجود میں آرہا ہے۔ تیزی سے بڑی بڑی شاہراہیں ظہور پذیر ہورہی ہیں۔ کارخانے اُبھر رہے ہیں۔
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
چین ہم سے دو سال بعد آزاد ہوا۔ اس نے ایک ہی لانگ مارچ کیا اور منزل مقصود پالی۔ ہم ہر سال لانگ مارچ ملین مارچ کرتے ہیں۔ لیکن منزل دُور تک نظر نہیں آتی۔ منزل کا تو ہم نے تعین ہی نہیں کیا۔
فاضل جج کئی مہینے کے وقفے کے بعد کہہ رہے ہیں کہ ہم نے کسی کو گاڈ فادر یا سسلین مافیا نہیں کہا۔
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
اک طرف مزاحمت کے گھوڑے پر سوار بلکہ شہسوار ہیں جو ہر داغے جانے والے میزائل کا ہدف اپنے آپ کو ہی سمجھتے ہیں۔
جبکہ ایوان دستور کہہ رہا ہے۔
روئے سخن کسی کی طرف ہو تو رو سیاہ
مجھے قبل از اشاعت سنسر کا سفاک دور یاد آرہا ہے جب بڑے بڑے میڈیا گروپ سر تسلیم خم کیے اپنی کاپیاں لئے سنسر آفیسر کے حضور پیش ہوتے تھے۔ بڑے بڑے ایڈیٹرز۔ ایڈیٹر انچیف یہ فیصلہ نہیں کرسکتے تھے کہ اداریہ کونسا جائے گا۔ ایک 17 یا 18 گریڈ کا انفارمیشن آفیسر طے کرتا تھا کہ کیا چھپنا چاہیے اور کیا نہیں۔
میں ایک کالم لے کر پیش ہوا جس میں یہ واقعہ درج تھا
کہ ایک جنگل میں ایک شیر کو بادشاہت کے لئے نااہل قرار دے دیا گیا۔ جانوروں نے ایک بندر کے حق میں ووٹ دیا۔ وہ بادشاہت کے منصب پر فائز ہوگیا۔ ایک لومڑی کے بچے لاپتہ ہوگئے۔ وہ فریاد لے کر آئی۔ اپنی بپتا سناتی ہے۔ بندر اُچھل کر ایک درخت سے دوسرے پھر تیسرے درخت پر کودتا۔ واپس آکر مسند پر بیٹھ جاتا ہے۔ لومڑی پھر فریاد کرتی ہے۔ بندر بادشاہ پھر وہی عمل دہراتا ہے۔ لومڑی رونے لگتی ہے۔ بندر کہتا ہے دیکھ نہیں رہی کہ میں کتنی جدوجہد کررہا ہوں۔
سنسر آفیسر نے کہا کہ یہ واقعہ نہیں جائے گا۔ ہم نے عرض کی کیوں۔ کہنے لگے ہم خوب سمجھتے ہیں۔ آپ بندر کسے کہہ رہے ہیں۔ ہم چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو تضحیک کا نشانہ نہیں بننے دیں گے۔
ان دِنوں قرآن کی آیات روک دی جاتی تھیں۔ جن میں سچ بولنے۔ وعدے نبھانے کی ہدایت ہوتی تھی۔ یہ ان ہی چالیس سال کا دورانیہ ہے جب خون بہتا رہا۔ اس دور میں گملوں میں جو سیاسی قائدین بوئے گئے ان دِنوں ہم ان کی لگائی فصلیں کاٹ رہے ہیں۔
کوئی قائد جب ٹرک پر سوار ہوتا ہے تو اسے مزید اونچا لے جانے والے بہت ہوتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ یہ ٹرک سے نیچے نہ اُترے۔
کشتی بچانے کا طریقہ کسی ملاح سے سیکھئے کہ جب لہر بہت تیز آرہی ہوتی ہے تو وہ لانچ کا انجن بند کردیتا ہے کیونکہ لہر میں طاقت زیادہ ہوتی ہے۔ وہ ننھے انجن کی مزاحمت کی گستاخی برداشت نہیں کرسکتی۔ کشتی پارہ پارہ ہوجاتی ہے۔ لہر واپس چلی جاتی ہے وہ پھر انجن چلا لیتا ہے۔
مسئلہ سادہ سا ہے اگر قومی خزانہ کسی نے بھی نہیں لوٹا اور پاکستانی قوم اربوں بلکہ کھربوں ڈالر کی مقروض ہے۔ کوئی ڈیم نہیں بنا۔ پی آئی اے۔ اسٹیل مل۔ بہت سے ادارے تباہ ہوگئے ہیں۔ تو پیسہ کہاں گیا؟ 40 سال جو ہماری بربادی اور تباہی کے ہیں اس دور میں خزانے کی چابی جس جس کے پاس رہی ہے چاہے اس نے وردی پہنی تھی یا واسکٹ۔ اس سوال کا جواب وہی دے سکتا ہے۔
ایسی پریشانیوں اور بے چینیوں میں ہم اقبالؔ سے ہی رجوع کرتے ہیں۔
ضرب کلیم کی یہ نظم ’’پنجابی مسلمان‘‘ میرے سامنے اچانک کھل گئی ہے۔
مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت
کر لے کہیں منزل تو گزرتا ہے بہت جلد
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد
تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگا دے
یہ شاخ نشیمن سے اُترتا ہے بہت جلد
بات سمجھ میں نہ آئے تو پروفیسر فتح محمد ملک۔ پروفیسر سحر انصاری۔ پروفیسر فخر الحق نوری سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ اقبال نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’قومیں شاعروں کے ذہنوں میں جنم لیتی ہیں اور سیاستدانوں کے ہاتھوں میں دم توڑ دیتی ہیں۔‘‘

تازہ ترین