• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اجتماع، تقریر کی آزادی‘ بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے ، سول سوسائٹی

اجتماع، تقریر کی آزادی‘ بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے ، سول سوسائٹی

کراچی (اسٹاف رپورٹر) سول سوسائٹی کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ گزشتہ کئی برسوں اور چند حالیہ افسوسناک واقعات کے نتیجے میں بنیادی انسانی حقوق مسلسل نشانے کی زد پر ہیں اور ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال خراب ہو تی جارہی ہےجبکہ اظہار آزدی پربھی قدغن لگائی جارہی ہے،مطالبہ کرتے ہیں کہ اجتماع، انجمن سازی، تقریراور مذہبی عقیدے کی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنا یا جائے ۔ جمعہ کو کراچی پریس کلب میں پائلر کے کرامت علی ،سندھ لیبر سالیڈیرٹی کمیٹی کے کنوینر حبیب الدین جنیدی، شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (زابسٹ)کے سماجی علوم کے سربرہ ڈاکٹر ریاض شیخ، عورت فائونڈیشن کی ڈائریکٹر مہناز رحمٰن، ڈیمو کریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی نغمی اقتدار ، پاکستان فشر فوک فورم کے جمیل جونیجو اور ٹریڈ یونین کے سربراہ جنت گل نے انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے پریس کانفرنس کی ۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کرامت علی نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں اجتماع اور تقریر کی آزادی پر پابندیاں نافذ ہیں ۔ ہمیں حبیب یونیورسٹی میں ایک طے شدہ سیمینار کو آخری لمحے پر روکنے اور وہاں مدعو مہمانان سے بداخلاقی پر انتہائی تشویش ہے۔ اس طرح کی دیگر مثالیں بھی موجود ہیں جبکہ ملک کے کئی حصوں میں جامعات کے کیمپس حدود میں سیمینارز اور مباحثے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ان حقوق کے سپورٹ میں اظہارِرائے کرنے والے فیکلٹی ارکان کو یا تو برطرف کردیا گیا یا ان کے خلاف کارروائی کی گئی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تقریر اور اجتماع سازی کی آزادی پر قدغن لگانے والی ایسی کارروائیوں کے معاشرے پر بہت منفی اثرات مرتب ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ 2008ء سے تواتر کے ساتھ طلبہ یونین کی بحالی کے اعلانات کے باوجود اب تک ملک بھر میں سرکاری و نجی جامعات اور کالجز میں یونینز پر پابندی عائد ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کو طلبہ میں تنقیدی سوچ کو فروغ دینے کا الزام لگاکر ملازمت سے برطرف کردیا گیا ہے۔ انہوںنے کہا کہ ہمیں اظہار آزدی پر قدغن پر بھی تشویش ہے نامعلوم وجوہ کی بناء پر ملک کے کئی حصوں میں کیبل آپریٹرز نے ملک کے نمایاں نیوز ٹی وی چینل جیو نیوز کی نشریات کئی ہفتوں سے معطل کررکھی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ آزادیٔ صحافت پر براہِ راست حملہ ہے۔پاکستان میں آزادیٔ اظہار و تقریر کی جدوجہد کی ایک طویل تاریخ ہے ۔ اس وقت ملک میں ذرائع ابلاغ کو مخصوص لوگ ،جو جوابدہ نہیں ، کی جانب سے پابندیوں کا سامنا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات پر شدید تشویش ہے کہ مخصوص سوچ کے حامل مخصوص سیاسی رہنماؤں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور اُنکے بنیادی حقوق بشمول آزادیِ تقریر پر پابندیاں عائد کی جارہی ہیں۔تمام اداروں کو ایک دوسرے اور پاکستانی شہریوں کا احترام کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں سیاسی و سماجی تحریکوں کو نشانہ بنائے جانے پر بھی تشویش ہے۔ ہم پنجاب میں مزارعین کی ایک منظم تحریک انجمن مزارعین کے بانی یونس اقبال کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہیں۔جعلی کیسز کے تحت اُن کی گرفتاری اور ان پر دہشت گرد کی شق لگانا ایک شرمناک عمل ہے۔ ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ادارے کبھی بھی ماضی سے سبق نہیں سیکھتے اوروہ آج بھی مخصوص مالی مفادات کے حصول کے لیے پُرامن شہریوں کو دہشت گرد قرار دینے کے وہی پرانے ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں۔ اوکاڑہ کی مزارعین تحریک ایک جانی مانی تحریک ہے اور ہم اُن کے جائز مطالبات کی حمایت کرتے ہوئے یونس اور دیگر افراد کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔انہوںنے کہا کہ حالیہ دنوں میں پاکستان کے مختلف حصوں میںلوگوں اور اقلیتی برادری کی عبادت گاہوں پر دہشت گردحملے ہوئے ہیں۔کوئٹہ اور پنجاب کے کچھ حصوں میں مسیحی افراد پر ہونے والے ٹارگٹڈ حملوں میں کئی انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔پہلے ہی سے کمزور اقلیتوں پر حملوں سے بین الاقوامی سطح کے ساتھ ساتھ اندرونی طور پر پاکستان کے تاثر پر انتہائی منفی اثر مرتب ہورہا ہے۔حکومت کو مختلف اقدامات کے ذریعے زندہ رہنے کے بنیادی حق کی حفاظت کو یقینی بنانا چاہیے۔ ان گھناؤنے جرائم میں ملوث افراد کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جانی چاہیے ۔ یہ بھی ضروری ہے کہ متاثرہ خاندانوں کو مناسب طور پر زرِتلافی ادا اور اُن کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔جبری گمشدگیاں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ دن بہ دن سنگین بنتا جارہا ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں کئی سیاسی اور سول سوسا ئٹی رہنما اب بھی لاپتہ ہیں کیوں کہ اطلاعات کے مطابق ایسے کئی افراد کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اُن کے گھروں سے اٹھایا تھا اور ریاست انہیں کسی بھی عدا لت میں پیش کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ایسے لاپتہ افراد کے خاندانوں کو نفسیاتی، معاشی اور سماجی پریشانیوں سمیت کئی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، تاہم انہیں اپنے پیاروں سے متعلق کسی قسم کے معلومات نہیں مل پارہی ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا انسانی المیہ ہے اور عدالتیں ایسے خاندانوں کو ریلیف نہیں دے پارہی ہیں۔ جبری گمشدگیوں کی انکوائری کے حوالے سے قائم کردہ کمیشن بھی کوئی خاطرخواہ کارکردگی نہیں دکھاسکا ہے ، لہٰذا اسے ختم کردیا جائے یا پھر اصلاح کی جائے تاکہ وہ نئی قیادت کی زیر قیادت مؤثر طور پر کام کرسکے۔اس سلسلے میں قانون پر عملدرآمد اورمنصفانہ سماعت کے حق کو یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے موجودہ حکومت کی مدت مکمل ہورہی ہے اور توقع کی جانی چاہیے کہ اس سال ہم اگلے عام انتخابات کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہم بنیادی آزادیوں کو یقینی بنانے کے ایجنڈا پر گرینڈ مکالمے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران بنیادی حقوق کی صورت حال کا جائزہ لینا اور لوگوں کے حقوق متاثر کرنے والے عناصرکی نشاند ہی اور وجوہات کا تعین کرنا ضروری ہے۔بنیادی حقوق کے لیے ہمارا اجتماعی ایجنڈا اور اخلاص ہونا چاہیے ۔ ایسی میکانیات کی موجودگی بھی ضروری ہے جو یقینی بنائے کہ کسی بھی صورت میں بنیادی آزادیوں پر سمجھوتہ نہ ہو اور نہ ہی کوئی پابندیاں عائد ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس حوالے سے جلد ہی تمام اہم سیاسی جماعتوں کے ساتھ کئی اجلاس منعقد کریں گے اور اس اہم مسئلے پر ہمیں آپ کی حمایت اور اخلاص درکار ہے جو منصفانہ اور شفاف سیاسی نظام کا بھی اہم جُز ہے۔

تازہ ترین