• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک اخباری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قواعد و ضوابط کی ذیلی کمیٹی نے ارکان قومی اسمبلی کی تنخواہیں وفاقی سیکرٹریوں کے مشاہروں کے برابر کرنے کی تجویز پیش کی ہے اور وزارت پارلیمانی امور نے ذیلی کمیٹی کو یہ بھی ہدایت کی ہے کہ وہ اراکین کی مراعات اور حقوق کے بارے میں نئی سمری تیار کرے اور صوبائی اسمبلیوں کو اراکین کی تنخواہوں اور مراعات پر نظرثانی کرنے کے لئے خطوط بھی لکھے جائیں ۔ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ اس ضمن میں گزشتہ برس ایک سمری وزارت داخلہ کو ارسال کی گئی تھی اور اس کی طرف سے اس معاملے میں یقین دہانی بھی کرائی گئی تھی لیکن اس کے باوجود کوئی موثر پیش رفت نہ ہو سکی۔اراکین اسمبلی ایک عرصہ سے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا مطالبہ کررہے ہیں اور ان میں سے بعض نے تو اس حوالے سے اپنی تنخواہوں کو شرمناک قرار دیتے ہوئے یہاں تک کہا ہے کہ انہیں اتنی کم تنخواہ کے چیک پر دستخط کرتے ہوئے ندامت محسوس ہوتی ہے اس لئے انہیں اس شرمساری سے بچانے کا اہتمام کیا جائے۔جمعہ کے روز پارلیمنٹ لاجز میں کنوینر شگفتہ جمالی کی کنوینر شپ میں منعقد ہونے والے اجلاس میں ارکان اسمبلی کو دی جانے والی تنخواہوں اور مراعات کا جائزہ لینے کے دوران یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ عمومی طور پر سارے ارکان اسمبلی ہی اپنے مشاہروں میں اضافے کے متمنی ہیں تاہم سب سے دلچسپ صورت حال ملک کے سب سے زیادہ پسماندہ سمجھے جانے والے صوبے بلوچستان کی ہے جہاں سپیکر اور اپوزیشن لیڈر کی تنخواہیں وزیراعلیٰ سے بھی زیادہ ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ امریکہ برطانیہ اور آسٹریلیاجیسے ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں ارکان پارلیمنٹ کے مشاہرے بہت کم ہیں کیونکہ انہیں نہ صرف غیر معمولی تنخواہیں اور مراعات دی جاتی ہیں بلکہ مختلف شعبوں کے بارے میں اپ ٹو ڈیٹ اطلاعات و معلومات حاصل کرنے کے لئے تحقیقی سپورٹنگ سٹاف بھی دیا جاتا ہے جو اراکین پارلیمنٹ کو تمام زیر بحث مسائل کے حوالے سے پوری طرح باخبر رکھتا ہے اور وہ ہر قومی معاملے میں حکومت کی درست سمت میں رہنمائی کیلئے ہر طرح سے تیار ہوتے ہیں، مغربی ممالک کے ان ارکان پارلیمنٹ کو اتنی زیادہ تنخواہیں، مراعات اور سہولتیں اس لئے دی جاتی ہیں کہ وہ ریاست کی طرف سے عائد ذمہ داریوں کو نہایت محنت اور دیانتداری کے ساتھ ادا کرسکیں انہیں اپنے اس منصب پر فائز رہنےکے دوران کوئی دوسرا کاروبار کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اسی لئے انہیں اپنے روزمرہ معاملات کی انجام دہی کیلئے مالی اعتبار سے ہر فکر سے آزاد رکھنے کی سعی کی جاتی ہے۔ لیکن پاکستان میں عمومی طور پر اراکین اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اراکین اسمبلی کی عمومی کارکردگی بہت ناقص ہے۔ اکثر و بیشتر وہ اسمبلیوں کے اجلاسوں سے غیر حاضر رہتے ہیں کئی ایک تو مہینوں تک ایوان میں نظر نہیں آتے اور اگر آ بھی جائیں تو کسی بھی قومی مسئلے پر ان کی تیاری نہیں ہوتی اور اسی وجہ سے وہ کسی بھی اہم سوال کا اطمینان بخش جواب دینے سے قاصر ہوتے ہیں کئی اراکین اسمبلی کو اجلاسوں کے دوران اونگھتے ہوئے بھی پایا گیا ہے، امور مملکت کی انجام دہی میں ان کی اسی عدم دلچسپی اور ناقص کارکردگی کے باعث عوام ان کے اعزازیوں، تنخواہوں اورمراعات میں اضافے پر معترض ہوتے ہیں اگر وہ اپنی کارکردگی کو بہتر بنائیں۔ سنگل سورس آف انکم پر اکتفا کرتے ہوئے اپنے آپ کو ہر قسم کے نجی کاروبار سے وقتی طور پر علیحدہ ہو کر اپنی توانائیوں کو وسیع تر قومی و ملکی مفاد میں استعمال کریں تو عوام ان کے اعزازیے اور تنخواہوں میں اضافے کو کبھی ناپسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھیں گے کیونکہ وہ خود دیکھ رہیں ہوں گے کہ ان کے منتخب نمائندے کس طرح ان کی بھلائی کیلئے کام کررہے ہیں، اسلئے اصل مسئلہ یہ نہیں کہ عوام ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافے کو پسند نہیں کرتے بلکہ یہ ہے کہ ان کی کارکردگی اور معاوضے میں کس قدر مطابقت پائی جاتی ہے اگر وہ اپنی تنخواہوں اور کارکردگی میں ہم آہنگی اور یکسانیت پیدا کر کے اس تاثر کو دور کردیں کہ ان کی تنخواہوں اور کام میں کوئی تضاد نہیں تو کوئی بھی باشعور آدمی ان کو دیئے جانے والے اعزازیوں، مراعات اور سہولتوں کی مخالفت نہیں کریگا۔
تازہ ترین