• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
افغانستان میں دیرپا اور پائیدار امن کا قیام صرف افغانستان اور پاکستان کیلئے ہی نہیں بلکہ اس پورے خطے کیلئے بے حد اہمیت کا حامل ہے ،لیکن اس مقصد کے حصول کی راہ میں کئی مشکلات حائل ہیں سب سے بڑی رکاوٹ تو یہ ہے کہ افغانستان اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے سے کترارہا ہے یا بعض وجوہ کی بنا پرانہیں ادا کرنے سے گریز پائی کا راستہ اختیار کرتے ہوئے پاکستان سے کچھ ایسی توقعات وابستہ کررہا ہے جنہیں پورا کرنا پاکستان کے بس میں ہی نہیں۔افغانستان کا مطالبہ ہے کہ اسلام آباد طالبان کے تمام دھڑوں کو ہر قیمت پر مذاکرات کی میز پر لائےجبکہ حقیقت یہ ہےکہ پاکستان اس حوالے سے اپنی مقدور بھر کوشش تو ضرور کررہا ہے لیکن طالبان کے تمام دھڑوں پر اس کا اتنا اثر و رسوخ ہی نہیں کہ وہ انہیں اس کام کیلئے آمادہ کرسکے۔اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ گزشتہ کئی عشروں سے جنگ آزما طالبان جن کا افغانستان کے تیس فیصد علاقے پر اتنا کنٹرول ہے کہ ان کی مرضی کے بغیر پرندہ بھی وہاں سے نہیں گزر سکتا ان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی پہلی ذمہ داری خود افغانستان کی ہے لیکن اس کے ارباب اختیار اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری تو ادا کرنے سےگریزاںہیں لیکن جب بھی افغانستان میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو وہ فوری طور پر اس کا الزام پاکستان پر عائدکرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں جبکہ امریکہ بھی پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ کرنے میں پیش پیش رہتا ہے ۔ پاکستان پورے خلوص سے اپنی سی کوشش کررہا ہے لیکن اس کی بھی ایک حد ہے اور اسے اس کی طاقت سے زیادہ کسی چیز کا مکلف کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ۔ ان حالات میں چینی وزیر خارجہ وانگ ژی اور مشیر خارجہ وزیر اعظم پاکستان سرتاج عزیز کے درمیان اس بات پر اتفاق رائے کہ وہ افغانستان میں قیام امن کیلئے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے امید کی وہ واحد کرن ہے جو افغانستان میں عدم استحکام کے اندھیروں کو دور کرسکتی ہے اس پس منظر میں توقع کی جاسکتی ہے کہ چار ملکی مشاورتی گروپ کی کوششیں رنگ لائیں گی۔
تازہ ترین