• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حالیہ انتخابات میں جماعت اسلامی کے انتخابی نتائج پر تنقید و تبصرہ کے کچھ مضامین اور کالم تو ہمارے ان کرم فرماؤں کے ہیں کہ جو اپنے بعض داخلی و خارجی محرکات کی وجہ سے جماعت اسلامی کی مخالفت پر ” پابند “ ہیں، اس لئے ہم ان کے تبصروں کا جواب دیناغیر ضروری سمجھتے ہیں تاہم بعض کالم ہمارے ان بہی خواہوں کے ہیں کہ جو اپنی قلبی وابستگی اور اپنی شدت احساس کی وجہ سے دل گرفتہ بھی ہیں اور رنجیدہ خاطر بھی ۔ ہم ان کے کالموں میں بیان کردہ نکات جو ان کی دانست میں راز ہائے درون خانہ ہیں کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں ۔ ایک تاثر دیا جارہاہے کہ جماعت اسلامی کو خدانخواستہ بڑی ناکامی کا سامنا کرناپڑا ہے ۔ یہ تاثر بھی حقائق پر مبنی نہیں ۔ اگرچہ ہمارے نقطہ نظر سے بھی نتائج زیادہ شاندار نہیں لیکن کئی معنوں میں جماعت اسلامی نے بہت کچھ حاصل کیاہے ۔
2008 ء کے اصولی بائیکاٹ کی وجہ سے ہم پارلیمنٹ سے باہر تھے ۔ اب ہم نے اپنے نشان ، اپنے جھنڈے ، اپنے منشور پر انتخابات میں حصہ لیا ۔ اتحاد تو کجا کوئی سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی نہیں تھی ۔ اللہ کے سوا کوئی اور دنیاوی سہارا نہیں تھا ۔ کراچی میں ہم انتخابات کے بائیکاٹ پر مجبور کر دیئے گئے ۔ وہاں کا ہمارا ووٹ بھی شمار نہ ہوا تب بھی ہم نے قریباً دس لاکھ ووٹ لئے ۔ قومی اسمبلی کی چار اور صوبائی اسمبلیوں کی نو نشستیں حاصل کیں ۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں شریک اقتدار ہوئے اور اب ہمارے تین وزراء عوام کی خدمت کے لئے کمربستہ ہیں پھر ہم نے سب سے پہلے اور سب سے بہترین اور انقلابی منشور دیا ۔ ہمارے منشور کا اکتوبر2011 ء میں اعلان کیا گیا تھا۔ تمام جماعتوں کے منشور ہم سے کافی بعد میں آئے اور اکثر جماعتوں کے منشور ہمارے منشور سے اخذ کئے گئے ۔حتیٰ کہ الفاظ اور جملے بھی کم و بیش وہی ہیں ۔ یہی معاملہ امیدواران کی کوالٹی کا ہے ۔ یہ میدان بھی پارٹیوں کے درمیان مقابلے کا ہوتاہے ۔ اگر پارٹیاں کرپشن کے بادشاہوں ، اٹھائی گیروں ، قبضہ گروپوں ، بکیوں ، منشیات فروشوں ، رسہ گیروں ، بجلی ، گیس و ٹیکس چوروں ، جعلی ڈگری ہولڈرز وغیرہ کو ٹکٹوں سے سرافراز کرتی ہیں اور کروڑوں لگا کر اربوں کمانے والے پیدا گیروں کو ہی ایم این اے یا ایم پی اے بنوا لیتی ہیں تو ان کی کامیابی بھی اصل میں ناکامی ہے ۔ اس میدان میں تھوڑے بہت فرق سے سب جماعتوں نے صرف ایک ہی صفت تلاش کی ہے کہ وہ Electables ہوں ۔ چاہے ان کا کردار کچھ بھی ہو ، یہی وجہ ہے کہ ایک پارٹی کے سربراہ کو ووٹروں سے یہ اپیل کرنا پڑی کہ میرے امیدواروں کو نہ دیکھو مجھے دیکھو۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس میدان میں ہم ہارکے بھی جیت گئے ہیں کہ ہم نے امیدواروں کے کردار پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا ۔ ہم نے کسی اٹھائی گیرے اور جیب کترے کو ٹکٹ نہیں دیا ۔ لوگ قبول کریں نہ کریں ہم نے اعلیٰ تعلیم یافتہ ، باکردار ، باصلاحیت اور دیانتدار نمائندے دئیے اور کوئی انگلی ہمارے نمائندوں کی طرف نہیں اٹھتی ۔ ہم نے نگری نگری پھرنے والے سیاسی مسافروں ، پانچ پانچ چھ چھ پارٹیا ں بدلنے والے سیاسی فنکاروں اور # ”جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے“ قسم کے موسمی پرندوں کو اپنی پارٹی میں جگہ نہیں دی اور یہ بھی ہماری اخلاقی فتح ہے ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جماعت اسلامی کے امیدواروں نے انتخابات جیتنے کے لئے کوئی منفی حرکت نہیں کی کوئی غلط راستہ اختیار نہیں کیا ۔ انتخابی عمل کو ہائی جیک کرنے کی کوشش تو کجا خواہش بھی نہیں کی ۔ کوئی غیر قانونی ہتھکنڈہ بروئے کار نہیں لائے ۔ ایک مثالی جمہوری مہم چلائی ۔ گھر گھر گئے ۔ ہر دل کے دروازے پر دستک دی ۔ کارنر میٹنگز ، جلسے جلوسوں ریلیوں کے راستے عوا م تک اپنا پیغام پہنچایا جبکہ دوسری طرف سیاسی جماعتوں نے اربوں روپوں کی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا مہم چلائی ۔ ہر چینل پر ہر منٹ میں کئی بار ان کے اشتہارات دکھائے گئے ۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ دے رکھا تھاکہ انتخابی عمل کو ارزاں اور یکساں بنایا جائے اس پر ذرہ برابر عمل نہیں ہوا ۔ اسی لئے جماعت اسلامی کا اصل مقابلہ سرمائے کے ساتھ تھا۔ یہ اربوں روپے کہاں سے آئے ؟کیوں خرچ کیے گئے ؟ انتخابی قواعد اور الیکشن کمیشن کہاں سوئے رہے ؟۔ یہ الگ موضوع ہے ۔ انتخابی مہم ہیلی کاپٹروں پر چل بلکہ اڑ رہی تھی اور ہمارے پاس ہیلی کاپٹر تو کجا بڑی گاڑیاں بھی نہ تھیں ۔ ہم سرمائے کی یہ جنگ ہار گئے۔ یکساں مواقع ہوتے، یکساں مقابلہ ہوتا تو ہمارا ووٹ بنک یکجا رہتا ،نہ بکھرتا ۔ لیکن مقابلے میں پورے پورے صفحہ کے روزانہ اشتہارات ہر روز دن میں سینکڑوں مرتبہ ٹی وی اشتہارات کی یلغار تھی ۔ انتخابی قواعد کے مطابق ہر امیدوار نے پورے انتخاب پر زیادہ سے زیادہ پندرہ لاکھ روپے خرچ کرنا تھے لیکن ہمارے مد مقابل اپنے حلقوں میں ایک ایک دن میں پندرہ پندرہ لاکھ روپے کی انتخابی مہم چلا رہے تھے ۔ الیکشن کمیشن کو تحریری شکایات کی گئیں لیکن وہاں کانوں پر جوں تک نہ رینگی ۔ اگر سوچا جائے تو انتخابی دھاندلی یہ بھی ہے ۔ جماعت اسلامی نہ یہ دھاندلی کر سکتی ہے نہ اس کے پاس بھتہ خوری کی اور لوٹی ہوئی دولت ہے اس لئے ہم سرمائے کی جنگ نہ جیت سکے اور اس کا ہمیں کوئی افسوس نہیں ۔ البتہ اب ہم میڈیا کے مقابلے میں گھر گھر ، دردر دستک اور سوشل میڈیا کے بھر پور استعمال کی پالیسی زیادہ بہتر انداز میں اپنا رہے ہیں ۔ کراچی ، حیدرآباد ، فاٹا اور بلوچستان میں سرے سے انتخابات ہی نہیں ہوئے پولنگ عملہ پہنچنے نہیں دیا گیا جو پہنچ گئے انہیں الگ کمرے میں بٹھا دیا گیا کہ آپ کھانا کھائیں ۔چائے پئیں آپ کو تیار شدہ رزلٹ دے دیں گے آپ نے بس ان پر دستخط کرنا ہیں ۔ ایک طرف کہاگیا کہ ہمیں انتخابی مہم کے لئے باہر نہیں نکلنے دیا گیا ۔ دوسری طرف دو دولاکھ ووٹ دکھائے گئے جن کی لمحوں میں گنتی بھی ہو گئی اور بغیر انتخابات میں حقیقی کامیابی کے محض گن پوائنٹ پر ایک مرتبہ پھر ایم این اے، ایم پی اے بنائے گئے ۔ جعلی مینڈیٹ کے خلاف دھرنے مہمات کے باوجود قانون نافذ کرنے والے اداروں کی وجہ سے ہارے ہوئے جیت گئے اور جیتنے والوں کو ہرا دیا گیا۔
جماعت اسلامی ایک شورائی جماعت ہے ۔ فیصلے امیر جماعت نہیں جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کرتی ہے ۔ فیصلہ ہونے سے پہلے آراء مختلف ہو سکتی ہیں ۔ شوریٰ کا مقصد ہی اختلاف رائے میں سے اتفاق رائے یا کثرت رائے کو تلاش کرنا ہوتا ہے ۔ بلاشبہ ایم ایم اے کے موضوع پر جماعت اسلامی کی شوریٰ میں اختلافی بحثیں چلتی رہیں ۔ دونو ں طرف دلائل تھے ، شواہد تھے ۔ ماضی کے تجربات اور مستقبل کے خدشات تھے فیصلہ سے پہلے قیادت کی کیا رائے تھی ؟یہ سوال اس لئے بے معنی ہے کہ جب فیصلہ ہو گیا پھر وہ وہ سب کا فیصلہ اور سب کی رائے تھی ۔
جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ نے کثر ت رائے سے یہ فیصلہ دیا کہ جماعت اسلامی اپنے نشان اپنے پرچم اور اپنے منشور کے تحت انتخاب لڑے گی تاہم مجلس شوریٰ نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ ہم سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا راستہ اختیار کریں گے ۔ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے مجلس شوریٰ نے تمام آپشن کھلے رکھے ۔ اگر کسی کے پاس یہ معلومات ہیں کہ صرف فلاں پارٹی سے ایڈجسٹمنٹ کا فیصلہ ہوا تو یہ اطلاعات قطعاً بے بنیاد غلط اور محض مفروضوں پر مبنی ہیں ۔ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ترجیحات میں البتہ صوبہ خیبر پی کے میں جمعیت علمائے اسلام اور دیگر دینی جماعتوں کو رکھا گیا تھا ۔ صوبہ پنجاب کی ترجیحات میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن دونوں شامل تھیں۔ دونوں کے ساتھ رابطے کی یکساں کوششیں ہوئیں ۔
مرکزی مجلس شوریٰ کے اس فیصلے کے بعد کے پی کے میں جے یو آئی اور دیگر دینی جماعتوں سے رابطے کئے گئے ۔ ہماری خواہش اور کوشش تھی کہ دینی ووٹ تقسیم نہ ہوں بعض دینی جماعتوں مثلاً اشاعت التوحید والسنہ نے ہماری اس کوشش کا ساتھ دیا لیکن بدقسمتی سے جے یو آئی (ف) نے ہر سیٹ پر جماعت اسلامی کا مقابلہ کرنے کو ترجیح دی اور دینی ووٹوں کو یکجا رکھنے کی کاوش کو ناکام بنادیا ۔ اسی طرح صوبہ پنجاب میں دونوں جماعتوں سے رابطے ہوئے جماعت اسلامی کے امیر سید منورحسن اور عمران خان کے درمیان ملاقاتیں ہوئیں ۔ خان صاحب بھی اپنے وفد کے ساتھ منصورہ آئے اور محترم شاہ صاحب بھی اپنے وفد کے ساتھ خان صاحب کے ہاں گئے ۔ قیادت کی ملاقاتوں میں ہی دونوں جماعتوں کی کمیٹیاں بنیں اور جاوید ہاشمی کو ان کمیٹیوں کے اجلاس بلانے اور ایڈجسٹمنٹ کا فارمولا طے کرنے کے لئے کنوینئر مقرر کیا گیا لیکن انہوں نے ایک اجلاس بھی نہیں بلایا ۔ رابطہ تک نہیں کیا ۔ اجلاس نہ بلانے کی وجوہات سے بھی آگاہ نہ کیا بلکہ میڈیا کے ذریعے اور براہ راست رابطوں سے پی ٹی آئی کے ذمہ داران نے یہ پیغام پہنچایا کہ ہماری پارٹی میں جماعت اسلامی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے شدید تحفظات و اختلافات ہیں ۔ چنانچہ ہماری خواہش و کوشش اور پہل کرنے کے باوجود پی ٹی آئی نے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی سرے سے بات ہی شروع نہیں کی ۔ انہو ں نے ایسا کیوں کیا ؟ اس کا جواب تو وہی دے سکتے ہیں تاہم معلومات یہی ملتی رہیں کہ پارٹی کے اندر کا لبرل طبقہ اس ایڈجسٹمنٹ کے راستے میں رکاوٹ تھا ۔ یہ ساری مستند معلومات میں نے اس لئے تحریر کی ہیں تاکہ جان بوجھ کر اور بدنیتی سے ڈس انفارمیشن پھیلا کر جماعت اسلامی کے اندر کسی گروپنگ کا تاثر دینے والوں کے جھوٹے پراپیگنڈے کو زائل کیا جاسکے ۔ یہی معاملہ مسلم لیگ ن کا ہے ۔ انکے ساتھ بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لئے مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت اور جماعت اسلامی پنجاب کی ایک کمیٹی کے درمیان مذاکرات کی کم و بیش پانچ نشستیں ہوئیں ۔ جماعت اسلامی پنجاب کے وفد کی قیادت امیر صوبہ ڈاکٹر سید وسیم اختر کر رہے تھے دیگر ممبران میں امیر العظیم ، نذیر احمد جنجوعہ اور میاں مقصود احمد شامل تھے جبکہ مسلم لیگ ن کے وفد میں حمزہ شہباز شریف ، خواجہ سعد رفیق ، سردار ایاز صادق اور بعض دیگر حضرات شامل تھے ۔ ابتداء میں ہی کمیٹی نے طے کیا کہ لاہور کی نشستوں پر آخر میں اور الگ بات ہو گی تاکہ اس جھوٹے اور بے بنیاد پراپیگنڈے کا ازالہ کیا جاسکے کہ تمام فیصلے لاہور کی سیٹوں کے ارد گرد گھومتے ہیں ۔ طویل بحث و تمحیص اور ایک ایک سیٹ اور ایک ایک امیدوار پر بحث کرنے کے بعد کمیٹیوں میں یہ اتفاق رائے ہوا کہ لاہو رکے علاوہ صوبہ پنجاب کی دس قومی اسمبلی اور 20صوبائی اسمبلی کی سیٹوں پر جماعت اسلامی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو سکتی ہے ۔ لاہور کے لئے جماعت اسلامی کا تین قومی اور 6 صوبائی نشستوں کا مطالبہ اس کے علاوہ تھا۔ معاملہ مسلم لیگ ن کی قیادت کے پاس چلا گیا ۔ یہ وقت تھاکہ مسلم لیگ ن پر ٹکٹوں کے حصول کے لئے داخلی دباؤ شدید تھا ۔ ٹکٹ دینے یا نہ دینے کے مطالبات کے لئے پارٹی کارکنان کھمبوں اور درختوں پر چڑھ رہے تھے ۔ مرغا بننے اور بینڈ باجے ہمراہ لانے کے واقعات ہورہے تھے ۔ اس پس منظر میں اور شاید عالمی سطح پر اپنا سافٹ امیج دینے اور دینی جماعتوں سے فاصلہ رکھنے کی ہدایت کے تحت بالآخر مسلم لیگ ن کے وفد نے باہمی تجویز کر دہ فارمولے سے کافی کم یعنی پنجاب بھر میں تین قومی اور شاید پانچ صوبائی سیٹیں آفر کیں ۔چونکہ یہ پیش کش کافی کم تھی اور ہمارے اندر بعض احباب کی یہ رائے بھی موجود تھی کہ کسی سے ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت نہیں چنانچہ اس پیش کش کی قبولیت کا معاملہ آگے نہ بڑھ سکا ۔ یہ تفصیل بھی میں نے اس لئے لکھی ہے کہ ہمارے ایک دو کالم نگار حضرات نے بلاتحقیق لاہوری گروپ کا شوشہ چھوڑا اور دیگر بعض حضرات نے اپنی ذاتی وجوہات کی بنیاد اس جھوٹے بے بنیاد پر اپیگنڈے کو ہوادی۔ الحمدللہ جماعت اسلامی میں نہ تو کبھی کوئی گروپ بنے ہیں اور نہ کسی لاہور ی گروپ کا کوئی وجود ہے ۔ چونکہ اس نام نہاد گروپ میں میرا نام بھی شامل کیا جاتا ہے اس لئے میں پہلی مرتبہ اس موضوع پر چند سطور تحریر کر رہاہوں ۔ مقصود وضاحت نہیں کہ جھوٹ کی کیا وضاحت ہوسکتی ہے اور حسد کا کیا علاج ہو سکتاہے ۔ اصل مقصود دو تین بنیادی باتوں کی طرف توجہ دلانا ہے ۔
1۔جماعت اسلامی میں کسی کی سیٹیں نہیں ہوتیں ایک مرتبہ منتخب ہونے والے کو اگلی مرتبہ کارکنان و ارکان امیدوار نہ بنانا چاہیں تو وہ آسانی سے ایسا کر سکتے ہیں ۔ ماضی میں لاہور میں ہی دو تین نشستوں پر کارکنان نے اپنے اس حق کو استعمال کیا ہے ۔ چنانچہ پروپیگنڈا کے یہ الفاظ کہ فلاں اپنی سیٹوں کے لئے کوشاں تھے یا تو جماعت اسلامی کے نظام سے قطعاً لاعلمی ہے یا بد نیتی پر مبنی ایک دانستہ کارروائی ہے۔
2۔انتخاب لڑنا اور جیت کر یا ہار کر کارکردگی دکھانا اور مسلسل رابطہ رکھنا کوئی آسان کام نہیں یہ اصطلاحاً ہی نہیں حقیقتاً چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی اور جان جوکھوں کا کام ہے ۔ ہمارے ممبران نے قومی اسمبلی کے فلور پر مثالی کارکردگی دکھائی ۔ اسمبلی بزنس میں بھر پور حصہ لیا ۔ ہر عوامی موضوع کو اٹھایا ۔ اسمبلی فلور پر نظریاتی جنگ لڑی ۔ حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ۔ ایم این اے ہوتے ہوئے آمریتوں کے مقابلے میں پولیس تشدد کا سامنا کیا ۔ جیلوں کو آباد کیا ۔ حلقہ میں بھر پور رابطہ رکھا ۔ ہر خوشی غمی میں شمولیت کی ۔ اسمبلی ایوانوں میں اور ٹی وی چینلوں پر جماعت ، نظریہ پاکستان اور امت مسلمہ کا کیس پوری جرأت و استقامت سے لڑا ۔ کوئی ذاتی مفاد حاصل نہیں کیا ۔ کوئی ریلیف نہیں لیا ۔ قرض نہیں لیا ۔ ناجائز مراعات نہیں لیں ۔الحمدللہ دامن کرپشن سے پاک رکھا ۔ جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا تو کاغذات نامزدگی واپس لیتے ہوئے ایک لمحہ کا توقف نہیں کیا ۔ اب ایسے افراد کے بار ے میں بلاتحقیق بلاثبوت بڑی آسانی سے یہ لکھ دینا اور یہ کہہ دینا کہ اپنی سیٹوں کے لیے انہوں نے یہ کیا اور یہ نہ کیا… صرف غیر ذمہ داری ہی نہیں قرآن پاک کے اس حکم کی بھی صریحاً مخالفت ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ”زیادہ بدگمانی سے بچو کہ بعض بدگمانیاں گناہ ہوتی ہیں “۔ میں ایسے کالم نگار حضرات اور احباب سے اتناہی عرض کروں گا کہ ایک دن ایسا بھی آنا ہے کہ جب ہر جملے اور ہر بلاثبوت الزام کا جواب دینا پڑے گا اور یقیناً یہ مشکل دن ہوگا ۔ اللہ کریم اس دن کی سختیوں سے ہم سب کو بچائے۔
جماعت اسلامی ایک زندہ و متحرک جماعت ہے ہم نے پوری غیر جانبداری سے انتخابی نتائج کا جائزہ لیا ہے ۔ اپنی ایک ایک غلطی کمزوری کا بھی محاسبہ کیاہے ۔ پوری بحث کے بعد مرکزی شوریٰ نے گائیڈ لائن دی ہے جس پر سیاسی کمیٹی کی سبجیکٹ کمیٹیاں کام کر رہی ہیں بلاشبہ یہ تجزیہ کیا جاسکتاہے کہ یوں ہوتا تو یوں ہوتا یا ایڈجسٹمنٹ کا ڈول کچھ عرصہ پہلے ڈالا جاتا یا یہ طریق کار اختیار کیا جاتا .... وغیرہ وغیرہ ، لیکن ہماری مجلس شورٰی کا فیصلہ ہے کہ ماضی کو ہی پیٹنے کی بجائے ماضی کے تجربات کو مد نظر رکھتے ہوئے اب مستقبل پر نگاہ رکھی جائے ۔ نظریاتی سیاست کبھی مرتی نہیں نظریہ کو کبھی شکست نہیں ہوتی ۔ ہم نے مئی 2013 ء میں مورچہ ہارا ہے جنگ نہیں ہاری ۔ اسلامی انقلاب کے لئے پاکستان کے حالات پورے عالم اسلام میں سب سے بہترین ہیں ۔ یہا ں کروڑوں فرزندان توحید کے دل اسلام کے لیے دھڑکتے ہیں ۔ پاکستانی عوام ادھر ادھرسے مایوس ہو کر بالآخر اسلام کے دامن رحمت میں ہی آئیں گے ۔ جماعت اسلامی اپنی گڈ گورننس اور کرپشن فری کارکردگی کا تین مرتبہ کراچی میں اور دو مرتبہ صوبہ سرحد و خیبر پختونخوا میں بھر پور مظاہر ہ کر چکی ہے ۔ مرکزی مجلس شوریٰ نے مرکزی سیاسی کمیٹی کو مستقبل کے لیے دعوتی ، تنظیمی و سیاسی حوالے سے انقلابی اقدامات کے لیے سفارشات تیارکرنے کا جو ٹاسک دیاہے اس پر کام جاری ہے اور ہمیں یقین ہے کہ انشاء اللہ
شب گریزاں ہو گی آخر جلوہٴ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمہٴ توحید سے
تازہ ترین