• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فائق ایک کامیاب انسان تھا۔ گاڑی، بنگلہ، بہترین نوکری اور وہ سب کچھ اس کے پاس تھا جو آج کل ایک کامیاب شخص کہلانے کے لیے ضروری شمار کیا جاتا ہے ،اس نے اپنے آبائی علاقے کو چھوڑ کر مہنگی سوسائٹی میں گھر لے لیا تھا۔ شادی بھی اونچے خاندان کی لڑکی سے کر لی تھی ۔

شادی کو کچھ عرصہ گزرا ہی تھا کہ اس کی بیوی اس سے کہنے لگی کہ میں تمہاری ماں کے ساتھ نہیں رہ سکتی کیونکہ وہ ایک اَن پڑھ عورت ہے، مجھے کسی کو بتاتے ہوئے شرم آتی ہے کہ یہ میری ساس ہیں ،لہذا مجھے ایک علیحدہ گھر لےکر دو یا اپنی ماں کو کہیں اور چھوڑ آؤ، فی الحال میں اپنی امی کے گھر جارہی ہوں۔ وہ کافی حیران ہوا اور بولا میں اپنی ماں کو کیسے چھوڑ سکتا ہوں۔ لیکن اس کی روز روز کی ضد اور لڑائی سے تنگ آ کر آخر ایک دن اس نے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنی ماں سے اس بارے میں بات کرنے پر آمادہ ہو گیا۔

آج رات جب وہ گھرآیا تو اپنے کمرے میں جانے کے بجائے سیدھا ماں کے کمرے میں چلا گیا ۔ماں اپنے لخت جگر کوآ ج اپنے کمرے میں دیکھ کر خوش ہو ئی او ربیٹھنے کا بولا۔ حال احوال پوچھنے کے بعد ماں نے آج اس طرح بجائے اپنے کمرے میں جانے کے سیدھا اس کے کمرے میں آنے کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگا کہ ماں میں اب اس قابل ہو گیا ہوں کہ آپ کے تمام احسانات کا بدلہ چار گناہ کر کے آپ کو واپس کر دوں یہ حساب چکتا کر کے میں اپنی بیوی کو لےکر کہیں اور گھر لے لوں گا ۔میں اور میری بیوی وہاں رہیں گے اور آپ آرام سے یہاں رہیے گا۔ ماں نے جواب دیا کہ’’ بیٹا، حساب ذرا لمبا ہے، اس لیے تھوڑا وقت درکار ہو گا۔ وہ بولا،’’ کوئی جلدی نہیں ہے، آپ آرام کر لیجئے‘‘۔ اتناکہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلا گیا ۔

رات جب کچھ گہری ہونے لگی تو ماں نے ایک جگ میں پانی بھرا اور بیٹے کےکمرے میں جا کر اس کے بستر کے ایک طرف ڈال دیا بیٹے نے جب اس طرف کروٹ لی پانی کی وجہ سے اس کی آنکھ کھل گئی جب دیکھا کہ ماں ہاتھ میں جگ لئے کھڑی ہے اور بستر پر پانی بھی اس نے ہی ڈالا ہے تو چلانے لگا کہ یہ آپ کیا کر رہی ہیں؟ ماں بولی کہ بیٹا اپنے بچپن میں پتا نہیں کتنی دفعہ تو نے میرا، بستر اسی طرح گیلا کیا تھا اور میں نے غصہ کرنے کے بجائےتجھے خشک جگہ پرلٹایا اور خود گیلی جگہ لیٹ گئی بلکہ بعض اوقات اپنے پیٹ پر بھی سلایا تھا، سوچا تمہیں بتادوں کہ حساب چکانا بہت مشکل ہوجائے گا۔ تم اسی گھر میں رہو مجھے کہیں بھی ایک کمرے کا گھر لے دویا اپنےگھر کے پچھلی طرف کا کمرہ ہی مجھے دے دومیں وہیں رہ لوں گی۔ وہ اٹھ کربیٹھ چکا تھا اور ادا س آنکھوں سے ماں کی طرف دیکھ رہا تھا، اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ماں کو کیا جواب دے ۔ماں کچھ دیر رک کر اپنے کمرے میں جاچکی تھی۔ یہ کافی دیر تک جاگتا رہا اور پھر اچانک اس نے ایک فیصلہ کیا اور سکون کی نیند سوگیا.

صبح ہوئی بیوی کو گھر بلایا، اور کہا،’’یہ بتاؤ کہ تمہاری امی کہاں رہتی ہیں؟‘‘

’’یہ کیسی بات کررہے ہیں، آپ، معلوم تو ہے کہ وہ میرے بھائی کے گھر رہتی ہیں‘‘، بیوی نے جواب دیا۔’’ تو ایک کام کرتے ہیں ہم اچھا سا ایک گھر لیتے ہیں، جس میں تمہاری اور میری امی رہیں گی‘‘۔ ’’نہیں ایسا نہیں ہوسکتا ،میری امی اپنے بیٹے کے بغیر کیسے رہیں گی، وہاں ان کا کون خیال رکھے گا‘‘۔ بیوی نے بجھے بجھے لہجے میں جواب دیا۔’’ جس طرح آپ کو اپنی امی کا خیال ہے اور ہونا بھی چاہئیے، بلکہ جو اپنی والدہ کا خیرخواہ نہ ہو، وہ اچھا انسان نہیں تو آپ مجھے بتاو ٔکہ میں اچھا انسان بنوں یا نہیں ؟شوہرکی حکمت بھری گفتگو سے بیوی کو بات سمجھ آچکی تھی،پھر جب رات آئی تو گھر کا منظر بھی عجب سماں پیش کررہا تھا، رات دسترخوان پر ایک ماں اس کا بیٹا، بہواور اس کے پوتے پوتیاں مل کر کھانا کھارہے تھے ۔خوشیاں بکھر رہی تھیں، رات میاں بیوی کی آنکھوں میں آنسو اور زباں پر ایک ہی جملہ تھا کہ، یقیناً جو سکون آج ملا وہ سکون اب تک نہ مل سکا تھا۔

(عرفان )

تازہ ترین