• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

منشیات کے اڈے پر چھاپہ ایک من سے زائد چرس اور افیون برآمد

منشیات کا بڑھتا ہوا استعمال ہمارے ملک کے نوجوانوں کی زندگیوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ٹنڈو محمد خان میں بھی یہ وباء پھیلی ہوئی ہے۔ بڑی عمر کے افراد کے علاوہ ملک و قوم کے نونہال بھی چرس ، ہیروئن اور افیون کی لت میں پڑ کر اپنی زندگیاں تباہ کررہے ہیں۔منشیات کے اڈے مکمل آزادی کے ساتھ اس شرم ناک کاروبار میں مصروف ہیں، اگر کوئی فرض شناس افسر ان کے خلاف کارروائی کرتا ہے تو وقتی طور پر منشیات فروشوں کی سرگرمیاں محدود ہوجاتی ہیں۔ گزشتہ دنوں، ٹنڈومحمدخان پولیس نے منشیات کےایک اڈے پر چھاپہ مارکروہاں موجود دو افراد کو گرفتار کرلیا،لیکن پولیس کارروائی کی قبل ازوقت مخبری ہونے کے باعث چھاپے کے نتیجے میں نہ تواڈے کے مالک کی گرفتاری عمل میں آئی اور نہ ہی اس کا نام ایف آئی آر میں درج کیا گیا ہے۔ پولیس کی ابتدائی رپورٹ میںصرف تین ملزمان کو مفرور قرار دے کر دو گرفتار شدگان کو مرکزی ملزمان قرار دیا ہے۔ اس کامیاب آپریشن کے صلے میں، پولیس پارٹی نےاعلیٰ حکام سے اپنے کارنامے پر ایوارڈ و انعامات بھی وصول کیے۔باوثوق ذرائع سے روزنامہ جنگ کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ٹنڈومحمدخان شہر کے نزدیک گمھرانی محلہ میں سٹی پولیس نے مخبری پر منشیات کے ایک اڈے پر چھاپہ مارا۔ 

پولیس کارروائی کے دوران زمین میں مدفون بڑی مقدار میں چرس اور افیون برآمد کرکے، اڈے میں موجود دوافراد حیدر خاصخیلی اور حضور بخش خاصخیلی کو گرفتار کرلیا، جب کہ تین افراد بلاول ملاح، انور ملاح اور حبیب ملاح کومفرور قرار دیا گیا جو پولیس چھاپے کے دوران مبینہ طور پرپولیس کی دس ترس سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ کارروائی کے دوران اڈے کی کھدائی کرکے 42کلو چرس ،ڈھائی کلوافیون جوکہ مختلف مقامات زمین میں دفن تھیں، تین گھنٹوں کی تلاش کے بعد برآمد کیں۔ کمھرانی محلہ میں منشیات کے اڈے پر چھاپے کی اطلاع شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی اور سیاسی و سماجی عمائدین نے پولیس کی اس کارروائی کوایک مثبت اقدام قرار دیا تھا۔ پولیس آپریشن کے بعد سٹی تھانے میں پریس بریفنگ کے دوران پولیس ترجما ن نے صحافیوں کو بتایا کہ ٹنڈو محمدخان ضلع میںمنشیات کا کاروبار عرصہ دراز سے جاری تھاا ، منشیات فروشوں کے خلاف کارروائی بھی ہوتی تھی لیکن وہ اثر رسوخ کی وجہ سے بچ جاتے تھے۔ پولیس چھاپوں سے بچنے کے لیے انہوں نے اپنے اڈے خفیہ مقامات پر منتقل کرلیے تھے، پولیس ان کا کھوج لگانے میں کوشاں تھی۔ چند روز قبل مخبر کی طرف سےاطلاع ملنے پر پولیس کی ایک ٹیم نےگمھرانی محلہ میں منشیات کے ایسے ہی خفیہ اڈے پر چھاپہ مارا جو بھینسوں کے باڑے میں بنایا گیا تھا۔ کارروائی کے دوران بھاری مقدارمیں منشیات برآمد کی گئیں۔ مذکورہ اڈہ عطن ملاح نامی شخص کا ہے اور بھینسوںکا باڑا بھی اسی کی ملکیت ہے،۔ عطن ملاح، پولیس کارروائی کے بعد سے روپوش ہے۔باخبر ذرائع نے نمائندہ جنگ کو بتایا پولیس نے کارروائی کے دوران بھینسیں بھی تحویل میں لی تھیں جو تاحال لاپتہ ہیں۔

ہمارا معاشرہ سماج دشمن عناصر کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا ہے مگر وہ اتنے طاقت ور ہوتے ہیں کہ کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، اسی قسم کا واقعہ دوہفتے قبل پیش آیا۔ ڈی آئی جی حیدرآباد کی ایک ٹیم نے ٹنڈومحمدخان شہر کی گنجان آبادی والے سومرا محلہ میں مین پوڑی کی فیکٹری پر اچانک چھاپہ مارا ۔ پولیس نے کارروائی کے دوران یہاں سے لاکھوں مین پوڑیوں کا خام مال، تیار مال، سمیت چار عدد مین پوڑی کی پیکنگ کرنے والی مشینیں اور دیگر سامان تحویل میں لے کر سٹی تھانے پہنچایا گیا ۔علاقہ مکینوں کے مطابق ہمارے علاقے میں مضرصحت مین پوڑی کا کاروبار طویل عرصے سے جاری تھا اور مذکورہ فیکٹری میں گٹکا بنانے کا کام کافی عرصے سے ہورہا تھا ،۔ نوجوان طبقے کی بڑی تعداد اس لت میں مبتلا ہورہی تھی۔علاقہ کی جانب سےاس کاروبار کے خلاف کئ مرتبہ پولیس سمیت عوامی نمائندوں سے رجوع کیا گیا لیکن اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ، ڈی آئی جی کی جانب سے کارروائی کے بعد شہریوں نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ 

یہ تو اس لعنت کے خلاف کسی ایک شہر میں کی گئی کامیاب کارروائی ہے جس کے احکامات ڈی آئی جی حیدرآباد نے خود دیئے تھے لیکن بھارتی گٹکے کے کاروبار پر پابندی کے باوجود اس کی فروخت ضلع ٹنڈومحمدخان کی تینوں تحصیلوں بلڑی شاہ کریم، ٹنڈوغلام حیدر اور شہر بھر میں کھلے عام ہورہی ہے جو پولیس کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے ۔ اس کاروبار کے خلاف شکایت کرنے والوں یا نشان دہی کرنے والوں کوپولیس کے مقامی حکام اچھی نظر سے نہیں دیکھتے بلکہ انہی کو کسی کیس میں پھانسنے کے لیے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اگر ہم سب مل کر سماج دشمن عناصراور منشیات کی لعنت کے خلاف مشترکہ ہ جدوجہد کریں تو معاشرے میں گندگی اواس کے پھیلنے کے ذمہ داروں کوکیفر کردار تک پہنچا سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے پہلے پولیس کے کردار کو بہتر بنانا ہوگا۔

تازہ ترین
تازہ ترین