نغمے کی سیاست

October 28, 2021

آپ تو جانتے ہیں کہ درویش نے سہل طلب اور عافیت پسند طبیعت پائی ہے۔ مسائل کی دھوپ قدرے تیکھی ہو جائے تو کسی خیال کے سائے میں جا بیٹھتا ہے۔ واقعات کی گتھی الجھ جائے تو خواب میں پناہ ڈھونڈ لیتا ہے۔ سوشل میڈیا پر مکالمہ گالی دشنام کی راہ پر چل نکلے تو آپ کا نیاز مند عوامی تبصرے دیکھنا بند کر دیتا ہے۔ بےشک کڑواہٹ بھی ایک ذائقہ ہے لیکن تلخیٔ دہن کے صلے میں ’یک گونہ بےخودی‘ کی توقع تو باقی رہنی چاہئے۔ ملکی معیشت میں رسد کی صورت نظر نہ آئے، اقتدار کے ایوانوں میں خاموشی طوفانوں کی خبر دے رہی ہو، کسی کو یہ بتانے کا یارا نہ ہو کہ سعودی عرب میں ماحولیاتی کانفرنس تو 25اکتوبر کی سہ پہر چار بجے شروع ہو کر سات بجے ختم ہو جانا تھی، ہمارے وزیراعظم تین گھنٹے کی اس تقریب کے لئے تین روز تک مملکتِ سعودیہ میں کیوں فروکش رہے تو بندہ عاصی ایسی سنگلاخ زمینوں میں کوہ کنی کی بجائے شعر و ادب کی سرسبز وادیوں میں زمزمہ پیرائی کرنے نکل جاتا ہے۔ حدچاہئے سزا میں عقوبت کے واسطے…

ستمبر 1965کی جنگ ہماری نوعمر ریاست کی تاریخ میں ایک بڑا واقعہ تھا۔ الطاف گوہر کی اخباری اور نشریاتی حکمت عملی کا بھلا ہو کہ شاعروں، نغمہ گروں اور اخبارات میں قلم کے جوہر دکھانے والوں نے ایسا سماں باندھا کہ تین ماہ بعد جنوری 66میں قوم کے لئے تاشقند کا زمینی حقائق پر مبنی معاہدہ ناقابلِ برداشت ٹھہرا۔ ایک دلچسپ قصہ سنیے۔ اعجاز بٹالوی کا نثری مجموعہ ’اعجاز بیان‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ بھٹو صاحب کے مقدمے کی ناخوشگوار یاد سے قطع نظر اعجاز بٹالوی کی ترشی ترشائی نثر کی خوبیوں سے انکار ممکن نہیں۔ اس کتاب میں اعجاز صاحب کی جنگِ ستمبر کے دوران ریڈیائی تقاریر بھی شامل ہیں۔ ایک تقریر پڑھتے ہوئے محسوس ہوا کہ یہ لب و لہجہ اور بیان تو شاید پہلے بھی کہیں پڑھ رکھا ہے۔ ذرا سی تلاش سے معلوم ہو گیا کہ اعجاز صاحب کی تحریر ہٹلر کی اس تقریر کا لفظ بہ لفظ ترجمہ تھی جو اس نے 4ستمبر 1940کو برلن اسٹیڈیم میں ایک بڑے اجتماع کے سامنے کی تھی۔ ہر روز قوم میں ایک نئی روح پھونکنے کا تقاضا ہو تو ایسے سہو ہو جاتے ہیں۔ یہ معرکہ ختم ہوا تو معلوم ہوا کہ حق و باطل میں مناقشے کے اس تحریری پشتارے سے دو شاہکار برآمد ہوئے۔ ایک تو صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کا ترانہ تھا، ایہہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے۔ (یہ بیٹے بازار کی جنسِ فروخت نہیں ہیں) میں نے بہت سی ماؤں کو آنسوؤں کی اوٹ میں یہ نغمہ سنتے دیکھ رکھا ہے۔ کیوں نہ ہو، صوفی صاحب نے بارود اور لہو کی عظمت بیان کرنے کی بجائے مامتا کے تار چھیڑے تھے۔ دوسرا فن پارہ فیض صاحب کی نظم ’سپاہی کا مرثیہ‘ تھی جو جنگ ختم ہونے کے بعد 30ستمبر کو لکھی گئی۔ فیض صاحب نے بھی جنگی جاہ و جلال کی بجائے ’اٹھو اب ماٹی سے میرے لعل‘ جیسی سطروں میں ماں کی پکار بیان کی تھی۔ لیجئے، اب خامہ خستہ پا سوئے انگلستان روانہ ہوتا ہے۔

پہلی عالمی جنگ کچھ مبصرین کے نزدیک منڈیوں اور نوآبادیوں کے لئے لڑائی تھی تاہم اس جنگ کی صف بندی کا ایک زاویہ یہ بھی تھا کہ برطانیہ، فرانس اور امریکہ جیسے فریق جمہوری اقدار کا جھنڈا اٹھائے ہوئے تھے جبکہ جرمنی، روس اور ترکی بدستور شہنشاہیت اور عسکریت پسندی کے دفاع پر کمربستہ تھے۔ جنگ کے آغاز ہی میں برطانوی اخبار ’ڈیلی نیوز‘ نے کچھ ادیبوں اور صحافیوں کی خدمات حاصل کیں کہ دورانِ جنگ اپنے مشاہدات ہفتہ وار کالموں کی صورت میں قلم بند کریں۔ اس مشق کا حاصل الفریڈ جی گارڈنر کے کالموں پر مشتمل کتاب Pebbles on the Shore ٹھہری۔ لبرل صحافی الفریڈ گارڈنر کے یہ مختصر نثرپارے گہری انسانی سچائیوں کے سادہ بیان کا شاندار نمونہ ہیں۔ ایک کالم کا عنوان ہے On The English Spirit۔ آپ جانتے ہیں کہ ایک زندہ معاشرے میں سوچ کے ان گنت دھارے پائے جاتے ہیں۔ برطانیہ میں کچھ عناصر نے اعتراض کیا تھا کہ انگلش فوج کیا خاک جنگ جیتے گی جو It's a Long Way to Tipperary (دور ہے سکھ کا گاؤں) جیسا عامیانہ گیت گاتے ہوئے مارچ کرتی ہے۔ دوسری طرف جرمن فوج Ein feste Burg ist unser Gott(خدا ہمارا مضبوط قلعہ ہے) جیسا فتح و نصرت کے جذبات سے معمور پُرشکوہ روحانی گیت گاتے ہوئے پیش قدمی کرتی ہے۔ پہلے گیت میں لندن میں مقیم ایک آئرش محنت کش اپنی چھوڑی ہوئی بستی کو یاد کر رہا ہے۔ 1912میں گایا گیا یہ سادہ سا گیت جنگ میں شریک برطانوی سپاہیوں کا پسندیدہ گیت بن گیا تھا۔ دوسرا گیت سولہویں صدی کی ابتدا میں مسیحی ریفارمر مارٹن لوتھر نے لکھا تھا اور 17ویں صدی کی 30سالہ مذہبی جنگ میں مقبول ہوا۔ اس اعتراض کے جواب میں اے جی گارڈنر نے مذکورہ بالا پربہار کالم باندھا۔ کچھ جملے ملاحظہ ہوں: ’برطانوی مزاج جذبات کا بے محابا اظہار نہیں کرتا۔ بلند بانگ دعوے نہیں کرتا۔ اس پھیکے پن کے پردے میں داخلی مضبوطی پائی جاتی ہے۔ ٹھنڈے دماغ اور ہلکے پھلکے ماحول میں ایسی خفتہ توانائی پائی جاتی ہے جو ہمہ وقت جذبات کے گھوڑے پر سوار رہنے والوں کو نصیب نہیں ہوتی۔ پنچم کے سروں میں گانے والے نفیس سرتیوں کی اہلیت کھو بیٹھتے ہیں۔ زندگی کی وسعت، تنوع اور امکانات پر نظر رکھنے والے وقت آنے پر بغیر شور و غوغا کئے نئے آفاق کی خبر لاتے ہیں‘۔ آپ کو یہ یاد دلانا تو چنداں ضروری نہیں کہ پہلی عالمی جنگ میں جنگجوئی اور تحکمانہ اقدار کی نام لیوا جمہوریت دشمن طاقتوں یعنی روس، جرمنی، آسٹرو ہنگیرین اور عثمانیہ سلطنتوں کو شکست ہو گئی تھی۔ البتہ یہ عرض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جمہوریت معجزے نہیں دکھاتی، جمہوریت بذات خود انسانوں کی روز مرہ خوشیوں کے تسلسل کا معجزہ ہے۔ ایک ایسا معجزہ جو علم، پیداوار، تخلیق اور محبت سے عبارت ہے۔