بالاآخر پختونخوا حکومت بلدیاتی انتخابات کرانے کیلئے تیار

October 28, 2021

آخر کار ملک میں بڑھتی ہوئی بدترین مہنگائی کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کو میدان میں نکلنے کا موقع مل ہی گیا ہے ، اپوزیشن جماعتیں طویل عرصہ سے باہمی انتشار کا شکار چلی آرہی ہیں اور بڑی مشکل سے جب سال بھر پہلے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا قیام عمل میں لایا گیا تو یہ اتحاد محض تین چار، مہینے چل سکا جس کے بعد عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی نے اتحاد سے راہیں جدا کرلیں اور یوں پی ڈی ایم اور الگ ہونے والی جماعتیں اپنے اپنے طور پر احتجاج میں مصروف رہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کا احتجاج کبھی بھی موثر شکل اختیار نہیں کرسکا جس کے باعث تحریک انصاف حکومت کو آسانی کے ساتھ تین سال گزارنے کا موقع مل گیا۔

اب بھی اگر اپوزیشن جماعتیں میدان میں نکلنے کیلئے پر تول رہی ہیں تو اس کی بڑی وجہ ملک گیر مہنگائی اور عوامی بے چینی ہے جس کو اپوزیشن جماعتیں کیش کرانے کےلئے کوشاں ہوچکی ہیں چنانچہ پی ڈی ایم کی طرف سے ملک بھر میں دو ہفتوں کیلئے احتجاج کا شیڈول کا اعلان کیا جاچکا ہے اور صوبہ میں مشترکہ احتجاجی حکمت عملی کیلئے صوبائی سطح کا اجلاس بھی ہوچکا ہے جس کے نتیجہ میں صوبہ کے جنوبی اضلاع ،پشاور، مردان، کوہستان ،تور غر، ملاکند، اپر دیر اور اپر چترال میں احتجاج کی ذمہ داری جمعیت علمائے اسلام، صوابی، چارسدہ، بونیر اور دیر پائین قومی وطن پارٹی، سوات پختونخوا ملی عوامی پارٹی، شانگلہ، ایبٹ آباد، ہری پوراور مانسہرہ مسلم لیگ ن جبکہ لوئر چترال میں احتجاج کی قیادت کی ذمہ داریاں جمعیت اہلحدیث کو سونپ دی گئی ہیں۔

اس سے قبل اے این پی ، جے یو آئی، مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی ، جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی الگ الگ احتجاجی مظاہرے کرچکی ہیں اور یہ سلسلہ اگلے ہفتے بھی جاری رہے گا، مسلم لیگ ن نے تو ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے احتجاجی تحریک کو الیکشن مہم کی تیاری بھی قرار دیا ہے اور کارکنوں پر زور دیا ہے کہ وہ بھر پور طریقے سے میدان میں نکل آئے، اپوزیشن جماعتیں آنے والے دنوں میں مہنگائی کیخلاف تحریک میں شدت لانے کیلئے تیار ہیں لیکن انہیں یہ بات ضرور مدنظر رکھنی چاہئے کہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے الگ الگ دکانیں کھولنے کا تمام تر فائدہ پی ٹی آئی حکومت اٹھا رہی ہے۔

اگر اپوزیشن جماعتیں حکومت ہٹاؤ کے یک نکاتی ایجنڈے پر متفق نہ ہوئیں تو یہ آمر یقینی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اگلے دو سال بھی با آسانی نکال لے گی جس کا خمیازہ پھر یقیناً اپوزیشن جماعتوں کو آنیوالے انتخابات میں اٹھانا پڑیگا کیونکہ آخری دو سال میں وفاقی اور صوبائی حکومت کئی میگا پراجیکٹ مکمل کرانے کیلئے حکمت عملی تیار کئے بیٹھی ہیں، اپوزیشن جماعتوں کا یہی انتشار حکومت کی تمام مشکلات کو پہلے بھی آسان بناتا رہا ہے اور اب بھی آسان بنا رہا ہے، ان ہی حالات میں خیبر پختونخوا حکومت نے صوبہ میں بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کا اعلان کیا ہے۔

صوبائی حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن کو تین صفحات پر مشتمل ایک مراسلہ ارسال کیا گیاہے جس میں بلدیاتی انتخابات دو مراحل میں کرانے کی تجویز دی گئی ہے ،پہلے مرحلے میں 15 دسمبر 2021ء کو ویلیج کونسل اور نیبرہوڈ کونسل کے انتخابات ہوں گے جبکہ دوسرے مرحلے میں 25 مارچ 2022ء کو تحصیل کونسل کے انتخابات کا انعقاد کیا جائیگا،صوبہ بھر میں مجموعی طور پر 4201 ویلیج کونسل اور نیبر ہوڈ کونسل کی سطح پر الیکشن کروائے جائیں گے۔

ہر نیبرہوڈ اور ویلیج میں سے8 ممبران پر مشتمل کونسل ہوگا تاہم الیکشن کمیشن نے صوبائی حکومت کی بعض سفارشات کو مسترد کرتے ہوئے ویلیج کونسل اور تحصیل چیئرمینوں کا الیکشن ایک ہی دن کرانے کا فیصلہ کیا ہے ، خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے یہ تجویز دی گئی تھی کہ دسمبر میں صوبہ کی تمام ویلیج اور نیبر ہوڈ کونسلوں میں الیکشن کرائے جائیں گے اور بعد ازاں مارچ میں مئیر اور تحصیل چیئرمینوں کے انتخابات کرائے جائیں گے تاہم الیکشن کمیشن نے نچلی سطح اور چیئرمینوں کے انتخابات ایک ہی روز کرانے کا فیصلہ کرنے کے بعد شیڈول کا ابتدائی خاکہ تیار کرلیا ہے جس کے بعد اب امید ہے کہ جلد ہی بلدیاتی الیکشن کا باضابطہ شیڈول بھی جاری کردیا جائیگا۔

یو ںصوبہ میں دو سال کے بعد بلدیاتی الیکشن کا انعقاد ہوگا، نچلی سطح پر انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوں گے تاہم میئر اور تحصیل کونسلوں کے چیئرمینوں کا انتخاب نہ صرف جماعتی بنیادوں پر ہوگا بلکہ براہ راست عوامی ووٹ کے ذریعے کیا جائیگا اس مرحلہ پر اگر اپوزیشن جماعتیں اسی طرح منتشر رہیں اور کسی قسم کا بلدیاتی اتحاد قائم نہ کرسکیں تو پاکستان تحریک انصاف سیاسی فائدہ اٹھانے کی پوری کوشش کرے گی اور اس میںاس کی بڑی حد تک کامیابی کے امکانات بھی دکھائی دیتے ہیں، ویسے بھی بلدیاتی الیکشن میں اتحاد کے امکانات کم ہی ہوا کرتے ہیں۔

کوئی بھی جماعت دوسری جماعت کےلئے قربانی دینے پر آمادہ نہیں ہوا کرتی ، ماضی میں سہ فریقی اتحاد کا تجربہ بھی ناکامی سے دو چار ہوچکا ہے اور فی الوقت پی ڈی ایم کی جانب سے بھی انتخابی اتحاد کے قیام کے کوئی بات سامنے نہیں آرہی ہے تاہم اگر پی ڈی ایم کی جماعتیں مل کر بھی الیکشن لڑتی ہیں تو اے این پی، پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کس پلڑے میں وزن ڈالے گی، یہ سب سے اہم سوال ہے جس کے جواب پر ہی مستقبل کے سیاسی منظر نامہ کا دار و مدار ہے،ادھر وفاقی حکومت نے مشیر خزانہ شوکت ترین کو سینیٹر بنانے کیلئے ایک مرتبہ پھر کوششیں تیز کردی ہیں ، انہیںاب خیبر پختونخوا سے سینیٹر منتخب کرایا جائیگا ۔