خدا اور سائنس

August 07, 2013

بیسویں صدی میں ایک صاحب گزرے ہیں ،نام تھا ان کا الیگزنڈر فلیمنگ،پنسلین کی دریافت کا سہرا انہی کے سر ہے ،اس دوا نے لاکھوں انسانوں کی زندگیاں بچائیں، یہی وجہ ہے کہ ٹائم میگزین نے جب بیسویں صدی کے 100اہم ترین لوگوں کی فہرست میں اس عظیم شخص کو شامل کیاتو یہ جملہ لکھا کہ ”اس دریافت نے تاریخ کا دھارا تبدیل کر کے رکھ دیا۔“فلیمنگ کو 1945میں طب کے شعبے میں نوبل انعام سے بھی نوازا گیا ۔کل (6اگست) ان کی سالگرہ تھی۔
الیگزینڈر فلیمنگ ایک درویش آدمی تھا اور یہ بات مجھے ”بابا صاحبا“ سے پتہ چلی۔اشفاق احمد مرحوم نے ” بابا صاحبا“ میں سر الیگزنڈر فلیمنگ سے روم میں ہونے والی اپنی ملاقات کا نہایت حیرت انگیز احوال بیان کیا ہے ۔ اس exclusiveنشست میں فلیمنگ نے انہیں بتایا کہ پنسلین کی ایجاد کے بعد دوا ساز کمپنیوں نے انہیں دس فیصد رائلٹی تک کی آفر کی جو انہوں نے یہ سمجھ کر قبول نہیں کی کہ ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے کیونکہ سارا کام تو انہوں نے کیا ہے جبکہ کمپنی انہیں فقط دس فیصد پر ٹرخا نے کی کوشش کر رہی ہے ،تاہم بعد میں جب اس دس فیصد رائلٹی کا تخمینہ لگوایا گیا تو پتہ چلا کہ وہ بھی لاکھوں پاؤنڈ ماہانہ بنتے ہیں ”ہالینڈ اور بلجیم کے سالانہ بجٹ کو ملا کر تقریباً اس جیسی۔میرے لئے تو اتنی رقم کو سنبھال کر رکھنا بھی نا ممکن تھا۔“ فلیمنگ کے الفاظ تھے ۔اپنی ”نا اہلی“ کو دیکھتے ہوئے فلیمنگ نے پنسلین کا نسخہ ایک فیصد رائلٹی کے عوض دوا ساز کمپنی کو اس شرط پر دینے کا فیصلے کا کہ معاہدے کی تمام شقیں فلیمنگ کی منشا کے مطابق ہوں گی ۔کمپنی نے بلا چون و چرا کے یہ بات مان لی تاہم جب قبلہ الیگزینڈر فلیمنگ شرطیں ٹائپ کرنے کے لئے بیٹھے تو انہیں لگا کہ ایک فیصد رائلٹی بھی اتنی زیادہ بن رہی تھی کہ وہ ساری عمر ختم نہ ہوتی،جبکہ ان کی خواہش سوائے سیر و سیاحت اور تحقیق کے اور کچھ نہیں تھی ۔یہ سوچ کر فلیمنگ نے آدھی رات کے وقت ایک معاہدہ ٹائپ کیا اور لکھا”میری یہ دریافت میری ذاتی ملکیت نہیں ۔یہ ایک عطیہ ہے جو مجھے امانت کے طور پر ملا ہے ۔اس دریافت کا عطا کنندہ خدا ہے اور اس کی ملکیت پوری خدائی ہے۔میں اس دریافت اور اس انکشاف کو نیچے دئیے گئے فارمولے کے مطابق عام کرتا ہوں اور اس بات کی قانونی ،شخصی،جذباتی اور ”ملکیتی“ اجازت دیتا ہوں کہ دنیا کا کوئی ملک ،کوئی شہر،کوئی انسان،معاشرہ جہاں بھی اسے بنائے ،وہ اس کا انسانی اور قانونی حق ہوگااور میرا اس پر کوئی اجارہ نہ ہوگا۔“اشفاق احمد کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔
کچھ دیر بعد جب اشفاق صاحب صدمے کی کیفیت سے باہر آئے تو انہوں نے فلیمنگ سے پوچھا کہ وہ کس بنا پر یہ سمجھتے ہیں کہ پنسلین کی ایجاد خدا کی طرف سے انہیں ودیعت کی گئی تھی ۔فلیمنگ نے اس بات کا تاریخی جواب دیا ”میں اسے دنیا تک پہنچانے کا ایک ذریعہ ضرور تھا۔ ایک آلہ ضرور تھا لیکن میں اس کا موجد یا مخترع نہیں تھا۔صرف اس کا انکشاف کرنے والا تھااور یہ انکشاف بھی میری محنت کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ خدا وند کا کرم اور اس کی عنایت تھی… اصل میں جتنے بھی انکشافات اور دریافتیں ہوتی ہیں وہ خدا کے حکم سے اور خدا کے فضل سے ہوتے ہیں …خدا جب مناسب خیال کرتا ہے اس علم کو دنیائے انسان کو عطا کر دیتا ہے ۔نہ پہلے نہ بعد میں ،ٹھیک وقت مقررہ پر،اپنے حکم کی ساعت کے مطابق…میں نے اس اصول کو لندن کے ایک مقامی اسکول میں بچوں کی آسانی کے لئے یوں سمجھایا تھا کہ خدا کے آستانے پر ایک لمبی سلاخ کے ساتھ علم کی بے شمار پوٹلیاں لٹک رہی ہیں ۔وہ جب چاہتا ہے اور جب مناسب خیال فرماتا ہے ،قینچی سے ایک پوٹلی کا دھاگا کاٹ کر حکم دیتا ہے کہ ”سنبھالو علم آ رہا ہے…“ ہم سائنس دان جو دنیا کی ساری لیبارٹریوں میں عرصے سے جھولیاں پھیلا کر اس علم کی آرزو میں سرگرداں ہوتے ہیں ،ان میں سے کسی ایک کی جھولی میں یہ پوٹلی گر جاتی ہے اور وہ خوش نصیب ترین انسان گردانا جاتا ہے ۔“
ساری بات سن کراشفاق صاحب نے کمنٹ کیا ”سر!پھر تومزے ہیں ۔آدمی منہ اٹھا کر علم کی پوٹلی کے انتظار میں بیٹھا رہے اور جونہی پوٹلی قریب آئے ،اسے کاٹی مار کر لے بھاگے۔“فلیمنگ نے کہا” اس سے پتنگ تو لوٹے جا سکتے ہیں ،علم نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ مشرق کے لوگ آج تک پتنگ ہی لوٹتے رہے ،علم پر دسترس حاصل نہ کر سکے …علم کا اتار صرف ان لوگوں پر ہوتا ہے جو اپنی لیبارٹریوں کے اندر علم کی آرزو میں رقص بسمل کی طرح تڑپتے رہتے ہیں …پوٹلی وہیں گرتی ہے جہاں جھولی پھیلی ہوئی ہو…اس کے نزدیک گورے اور کالے میں کوئی فرق نہیں، سب اس کی مخلوق ہیں ۔وہ جب علم کی پوٹلی کاٹ کر نیچے روانہ کرتا ہے تو کالے کو بھی آواز دیتا ہے کہ جھولی پھیلاؤ علم آ رہا ہے ۔دامن کشادہ کرو ،نئی بات بھجوائی جا رہی ہے ۔اس پر کالا ہمیشہ ایک ہی جواب دیتا ہے کہ دامن کدھر سے پھیلاؤں ،میں نے تو آج قمیص ہی نہیں پہنی، حد درجہ گرمی تھی…پھر وہ پیرا شوٹ پوٹلی اپنا راستہ تبدیل کر لیتی ہے اور ن ہزاروں لاکھوں رقص کناں سائنس دانوں کے اوپر لہرانے لگتی ہے جوکئی سال سے اپنی آرزو کے چہرے اوپر اٹھائے اور اپنی عمل کی آنکھ پینل پر جمائے بے چینی سے جھوم رہے تھے…اس بات کی کوئی سائنسی توجیہہ میری سمجھ میں نہیں آتی…۔“”بابا صاحبا“ کا بیان ختم ہوا۔
الیگزینڈر فلیمنگ جیسے لوگ بھی عجیب ہیں ،انہیں دین کی خبر ہوتی ہے نہ دنیا کی،بھاؤ تاؤ کرنا بھی نہیں آتا،ہاتھ آئی لکشمی کو ٹھکرا دیتے ہیں ،اور اس کے بعد درویشی کا دعویٰ کرتے ہیں نہ روحانیت کا درس دیتے ہیں ،اپنی قوم سے محسن برطانیہ کا لقب پاتے ہیں،آرام سے کسی کونے کھدرے میں بیٹھے تحقیق کا کام کرتے رہتے ہیں۔انہیں ہم سے سیکھنا چاہئے ،آخر ہم بھی کچھ چیزوں کے pioneersہیں۔ یہی الیگزینڈر فلیمنگ اگر پاکستان میں ہوتا تو سب سے پہلے کروڑوں ڈالر کی رائلٹی جیب میں ڈالتا،اس کے بعد ایک نام نہاد فلاحی ادارہ کھول کر رمضان میں آٹے کے تھیلے بانٹتا اور اس بات کو یقینی بناتا کہ آٹا تقسیم کرتے ہوئے پچاس ٹی وی چینلزپر اس کی فوٹیج چلائی جائے ۔اور جب ان میں سے کسی کام میں کامیابی نہ ملتی تو پھر عوام کو درویشی کا درس دیتا اور خود کو قلندر ڈ کلیئرکرکے دھمالیں ڈالتا۔
ہم لوگ اپنی کامیابیوں کو خدا کا فضل ضرور قرار دیتے ہیں اور زبانی کلامی اس کا شکر بھی ادا کرتے ہیں مگر جب خدا کی شکر گزاری کو صحیح معنوں میں ثابت کرنے کا موقع آتا ہے تو اس وقت کوئی مائی کا لعل چونّی بھی نہیں چھوڑتا۔دم بھرتے ہیں ایک اللہ سے محبت کا اور کاروبار کرتے ہیں ہندو بنئے کی طرح،کروڑوں روپے کے گھر کے ماتھے پر ”ھذا من فضل ربی “ ضرور لکھتے ہیں مگر رب کے اس فضل کا شکر ادا کرتے ہوئے موت پڑ جاتی ہے ۔ احسان ہوتا ہے خدا کا اور اس کا بدلہ ہم مانگتے ہیں اور اوقات سے زیادہ بدلہ ملنے پر بھی ہماری حرص کم نہیں ہوتی ۔لاکھوں ڈالر ماہانہ کی رائلٹی چھوڑنا آسان کام نہیں ،یہ بات لکھتے ہوئے ہی کلیجہ منہ کو آجاتا ہے ،مگر آفرین ہی اس مرد درویش پر جس نے یہ کہہ کر تمام رائلٹی چھوڑ دی کہ پنسلین کی دریافت تو دراصل عطیہ خداوندی تھی ۔خدا اور سائنس کے باہمی تعلق کو جس انداز میں سر الیگزینڈر فلیمنگ نے بیان کیا ،شائد ہی کسی اور نے کیا ہو…ایسے درویش صفت انسان کا تو عر س منانا چاہئے !