”شرمناک“ اور ”توہین عدالت“

August 07, 2013

اہم یہ نہیں کہ اردو لغت میں ”شرمناک“کامطلب کیا ہے ۔ 28 اگست کو سپریم کورٹ کی تشریح ہی اصل معنی ہوں گے ۔بالآخر تحریک ِ انصاف ”توہین عدالت ایلیٹ کلب“کی ممبر بن ہی گئی۔ اس سے پہلے یہ اعزاز صرف مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اوردوسری کئی سیاسی جماعتوں کو حاصل رہا۔تنگ آمد بجنگ آمد۔ تنگی میں عدالت کو آڑے ہاتھوں لینا ہمارے سیاسی رہنماؤں کا وطیرہ بن چکا ہے۔ دو ڈھائی درجن سیاسی جماعتوں میں فقط جماعت اسلامی اس رتبہ سے محروم ہے۔اگر تو سپریم کورٹ پر اٹیک شہرت کومزید چار چاند لگانے کے لیے تھا توانتہائی نامعقول ۔اگر تدبیر الٹی پڑ گئی تو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔توہین عدالت کلب کے سارے ممبران کی ایک قدر مشترک کہ ”ہم توہین عدالت کے مرتکب نہیں ہوئے یہ عدالتیں ہی ہیں جوانصاف کے تقاضے پورے کرنے سے قاصرہیں“ ۔مسلم لیگ ن کو البتہ یہ کریڈٹ ضرور دینا ہو گا کہ انہوں نے ماضی میں ہلا گلا اور ہاتھا پائی کو عدالت تک رسائی دی۔ گالم گلوچ اور زبانی کلامی دھکم پیل میں پیپلز پارٹی کو خاص مقام حاصل ہے ۔ فضل الرحمن ،اے این پی اور ایم کیو ایم بھی حصہ بقدر جثہ نقار خانے میں اپنا ڈھول پیٹ چکی ہیں۔ چیئرمین تحریک ِ انصاف سے قطعاََ توقع نہیں تھی کہ وہ عدالتوں پر برسیں گے جو جماعت پچھلے پانچ سال سے عدالتی بے حرمتی کے خلاف جدوجہد رقم کرتی رہی آخر کیا افتادآن پڑی کہ سپریم کورٹ پر پل پڑی؟یہ بات قرین حقیقت کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی لیکن پچھلے 43 سال کی قومی تاریخ میں جس جماعت کے الیکشن جیتنے کے زیادہ امکانات اتنی ”رج “کے دھاندلی۔ یایوں کہئے کہ جو جماعت پہلے ہی سے الیکشن جیتنے کے لیے فیورٹ قرار پاتی ہے جیتنے سے پہلے ہی دھاندلی کا سہرا بھی باندھ چکی ہوتی ہے۔ جبکہ 11مئی کے انتخابی نتائج کو چیئرمین صاحب اور PTI کے چیف کیمپین منیجر جناب اسد عمر نے 12 مئی کوہی خوشدلی سے قبول کر لیا اورساتھ یہ مژدہ بھی سُناڈالا کہ ہم 33 سیٹوں کے بل بوتے پر خیبر پختونخواہ میں حکومت بنائیں گے یوںPTI ن لیگ کی بچھائی ہوئی بساط پرباآسانی مہرہ بن گئی۔ ورکرز کوکریڈٹ کہ لاہور کے چند حلقوں کے نتیجے کو یکسر مسترد کر کے نہ صرف ہنگام کھڑا کیا بلکہ سوئی ہوئی قیادت کو بھی جگایا۔بالآخر لیڈر شپ کے کان پربھی جوں رینگی اور دھاندلی پر توجہ دی۔ دیکھا دیکھی سارے ہارنے والوں نے کچھ صحیح کچھ من گھڑت اپنے اپنے حصے کی کہانی بیچنا شروع کر دی۔ تحریک انصاف کی عبرتناک شکست کا نہ مندمل ہونے والا گھاؤ خالی دھاندلی پر ڈال کر نااہلی کو چھپانا انصاف کے تقاضوں کی پامالی ہی تو ہے۔ جنوری 2012 میں پورے ملک کو اپنی سیاسی گرفت میں لینے والی اور ن لیگ کے چھکے چھڑوانے والی پارٹی مئی2013 کو جس انجام سے دوچار ہوئی کئی مہینے پہلے اس کا چرچا عام ہو چکا تھا۔
خان صاحب کے نفسیاتی الجھاؤ قابل ِ فہم لیکن لاتعداد غلطیوں کا محاسبہ نہ کرنا اور سبق نہ سیکھنا کہاں کی دانشمندی ۔ خان صاحب کی کرشماتی اور سحر انگیز شخصیت بے شمار خوبیوں سے مالا مال ہے اور جو خوبی سر چڑھ کربولتی ہے وہ ان کا پُرامید رہنا ہے۔1996 میں جب سیاست کے میدانِ خارزار میں قدم رکھا تو سمجھ بیٹھے کہ اعلان کرنا ہی کافی ہوگا۔ عوام الناس اُمڈ پڑیں گے ۔ کچھ امید صدر فاروق لغاری پر بھی کہ وہ بدعنوان لوگوں کو الیکشن تک رسائی نہ دیں گے۔سادگی پہ کوئی مرنہ جائے اے میر،سیاسی ناپختگی اور غیر سنجیدہ رویہ عوام الناس کو متوجہ نہ کر پایا۔ 1997 کے نتائج پر اپنی کوتاہیوں کا احاطہ کرنے کی بجائے فاروق لغاری ہی تختہ مشق ٹھہرے۔ جہاں پرامیدی سرمایہ ہے وہاں فرسڑیٹ ہونا بہت بڑی کمزوری ۔ تخمینے اوراندازے فہم و فراست سے دورہوں تو نتائج غیر متوقع ہی ہوں گے۔
12جب اکتوبر 1999 جنرل مشرف نے پاکستان کو ناقابل ِ معافی گھاؤ لگایا تو بوریا بستر سمیت مشرف کی کشتی میں سوار ہو گئے ۔ تن من دھن سے ساری امیدیں جنرل مشرف سے وابستہ کر لیں۔جون 2002 میں جنرل مشرف نے جب اپنے پتے ظاہر کیے تو چار بادشاہوں میں کسی پر تحریکی چہرہ موجود نہ تھا۔ غلام مصطفی جتوئی ، میاں اظہر اور چوہدری صاحبان منظور ِ اقتدار ٹھہرے۔ فرسڑیشن میں مشرف کو ایسا ہدف ِ تنقید بنایاگوکہ صحیح بنایا کہ اگلے سارے سال معافی کی گنجائش نامی چیز نہ تھی ۔ حمایت کے پیچھے کوئی اصول نہ مخالفت کی وجہ کوئی نظریہ ۔1999 سے 2002 تک مشرف کی دلجوئی میں اتنے سال ضائع کرنا ناقابل ِتلافی غلطی اس پر مستزاد ذاتی محاسبہ کا نظام ناپید۔ ذاتی انا پر ٹھیس اور چیں بچیں صرف شخصی وقار ہی مجروح کرپائیں۔ پرامید رہنااعلیٰ ظرفی لیکن خواہشات اور توقعات کے گھوڑے خوا مخواہ سرپٹ دوڑانے اور پایہ تکمیل تک نہ پہنچنے پر اپنی خامیوں کو ٹٹولنے کی بجائے فرسڑیٹ ہونا اورخالی دوسروں کوموردِ الزام ٹھہرانا کسی طور بھی احسن نہیں۔میرے خیال میں جب عمران خان نے عدلیہ کے کردار کو شرمناک کہا تو ان کا موقف واضح اور عام فہم تھا ۔ تحریکِ انصاف کے اندر اور باہر ہر جگہ ان کی شکایت کو اسی پیرائے میں لیا گیا جو وہ چاہتے تھے البتہ افسوس عمران خان کا اپنے موقف سے سرکنے پر ہوا۔ یہ عمران کا وتیرہ نہیں رہا۔ چند روز پہلے عزت مآب جسٹس عظمت سعید نے نیپرا کے چیئرمین کو سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ”اب آپ مرد کے بچے بنو اور اپنے کہے الفاظ کے مالک بنو“ ۔
میں توقع رکھتا تھا کہ عمران اپنے الفاظ پر قائم رہتے اور عدالت ِ عظمیٰ کے گوش گزار کرتے کہ اگر میرے الفاظ توہین عدالت کے زمرے میں ہیں تو معافی مانگنے میں مجھے عار نہیں۔
اس سے شان میں اضافہ ہی ہونا تھاجبکہ سپریم کورٹ سے بھی صرفِ نظر کی توقع تھی ۔ یہ کہنا صحیح نہیں کہ ”میرا مطلب سپریم کورٹ نہیں تھا اور” شرمناک “کو میں گالی نہیں سمجھتا“ ۔اس تکرار نے اخلاقی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان ہی تو پہنچایا ہے۔ یا اللہ عمران خان کی اخلاقی قدروں کو گھن کیوں لگ رہی ہے ۔ چند ہفتے پہلے سرور خان جعلی ڈگری پر نااہل ہوئے تو تحریکِ انصاف نے اصولوں کا دامن پکڑتے ہوئے ان کی بنیادی رکنیت معطل کر دی لیکن جب ایک خاتون کی نااہلی ہوئی تو ردعمل انتہائی نامناسب تھا، میانوالی کی اس خاتون کی نااہلی کا بدلہ میانوالی سے یوں لیا کہ اسی خاتون کے غیر سیاسی بہنوئی کو ٹکٹ دیدیا۔ جعلی ڈگری کو قدرت نے بے نقاب کر دیا۔ جرم کی پردہ پوشی کیا جرم نہیں؟ حضور اعانت ِ جرم بھی ایک جرم ہے ۔ آپ کا اثاثہ سچائی اور دیانت آج سوالیہ نشان بن چکا ہے؟
تحریکِ انصاف کے نوجوان جو آئیڈیلزم کی تلاش میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔ چیئرمین کے اردگرد انتہائی بدنام، گندے، بری شہرت اور غیر سیاسی عناصر کو پاکر پریشان حال ہیں۔کیا عوام الناس کی قسمت میں آسمان سے گر کر کھجور میں اٹکنا ہی لکھا ہے؟۔کیانہ ختم ہونے والی شام ِ غریباں ہی حرماں نصیب قوم کا مقدر رہے گی؟ یا اللہ !ن لیگ اور پی پی پی کے مارے سادہ لوح بندے کدھر جائیں کہ درویشی بھی عیاری ہے ،سلطانی بھی عیاری ۔
جناب ِ چیئرمین مودبانہ التجا ہے کہ شخصی ملکیت کے تاثر اور ”مرواؤ پروگرام“ والے لواحقین سے جان چھڑوائیں۔یہ 30 اکتوبر کے بعد PTI کی پتنگ کوآسمان سے چھوتا دیکھ کر حواس باختہ ہو کر ہمرکاب ہوئے ہیں۔ ایسے زاغوں کی صحبت شاہین بچے کو زاغ سے زیادہ کچھ نہیں بننے دے گی۔ تحریک ِ انصاف کے گردونواح میں ذہین و فطین، زیرک، باکرداراور بااخلاق افراد پائے جائیں گے تو سپریم کورٹ کے بارے خرافات بھی سرزد ہوں گی اور نہ بار بار سیاسی ہزیمت کا شکار ہونا پڑے گا۔ 76 لاکھ لوگ ”صاف چلی شفاف چلی“ کے لیے وقف ہو چکے ہیں ۔ خدا کے واسطے چند گندے اوربری شہرت کے لوگوں کو اجازت نہ دیں کہ 76 لاکھ ووٹرز کو مایوسی کی اتھا ہ گہرائیوں میں پھینک دیں ۔ تحریکِ انصاف کو صاف اور شفاف ہی چلاناہو گا۔ یہ بات تو قابل ِ ذکر ہے ہی نہیں کہ اگر آئین کی 62/63 کو لیٹر اینڈسپرٹ میں نافذ کیا گیا تو تحریک ِ انصاف کی اکثریت بھی ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی صف میں کھڑی نظر آئے گی۔ہرمالی اور اخلاقی سیکنڈل میں آپ کا کوئی نہ کوئی چہیتا ملوث نظر آتا ہے۔ ابھی سے تدارک کرنا ہوگاوگرنہ 2018 کا الیکشن باقی کا اثاثہ بھی بہا لے جائے گا۔سپریم کورٹ بارے آپ کے الفاظ کے ہیر پھیر نے آپکی شخصیت کا بھرم چاک کیا اب اس بات کا تعین عدالت نے کرنا ہے کہ ”شرمناک“ گالی ہے یا نہیں بفرض محال کورٹ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ شرمناک گالی ہے تو اس کو گالی ہی سمجھا جائے گا اور آپ سے مودبانہ گزارش کہ آپ کو دستہ بستہ اپنے الفاظ واپس لینا ہو ں گے ۔ سپریم کورٹ سے لڑنے کی بجائے اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو ٹٹولیں۔ خود احتسابی اور ذہانت ہی پارٹی کے شاندارمستقبل کی ضامن بن پائیں گی۔سپریم کورٹ اگر آپ کو الفاظ واپس لینے کا حکم دیتی ہے تو خوشدلی اور دلجمعی سے تعمیل کریں ۔ سپریم کورٹ کی بڑائی ہی تحریکِ انصاف کا اصل سرمایہ افتخارہے ۔