گرے لسٹ کا چکر کب ختم ہوگا؟

November 07, 2021

ہر چار ماہ بعد یہی بات دُہرائی جاتی ہے کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں برقرار ہے اور اس کی مانیٹرنگ جاری رہے گی۔اِس مرتبہ یہ مدّت فروری2022 ء تک ہے۔اِس ادارے کا19 سے 22اکتوبر تک پیرس میں اجلاس ہوا، جس کی صدارت جرمنی کے مارکوس نے کی۔ اطلاعات کے مطابق، چالیس رکن ممالک کے علاوہ دو سو کے قریب مختلف مالیاتی تنظیموں کے نمایندوں اور ماہرین نے بھی شرکت کی۔

اس تین روزہ اجلاس میں پاکستان کی جانب سے دی گئی رپورٹ پر غور کیا گیا۔فیصلے میں بتایا گیا کہ پاکستان نے 34 میں سے 30 نکات پر عمل کرلیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لسٹ سے نکلنے کے لیے پُرعزم ہے اور اس سمت میں اچھا کام بھی کر رہا ہے، لیکن ابھی چار نکات پر ایف اے ٹی ایف کی تسلّی نہیں ہوئی، اِس لیے اسے اگلے سال فروری تک مزید اسی لسٹ میں رکھا جائے گا۔دوسری جانب اسی زمانے میں وزیرِ خزانہ، شوکت ترین امریکا میں آئی ایم ایف سے مذاکرات کے لیے گئے۔

پاکستان آئی ایم ایف سے طے پانے والے 2018ء کے معاہدے کے تحت چھے ارب ڈالرز کی تین اقساط وصول کرچُکا ہے۔آئی ایم ایف کے قرضے مُلک کے لیے کتنے ضروری ہیں؟ اور اُن کے عوام اور مُلک پر کیا اثرات مرتّب ہو رہے ہیں؟ اس موضوع پر ایک عرصے سے بحث جاری ہے، جس میں عوام، ماہرین اور سیاست دان سب ہی شامل ہیں۔ بہت سوں کی رائے ہے کہ اس سے مُلک کا نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہوا، جب کہ دوسری طرف کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں۔

ایف اے ٹی ایف دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے کے لیے بنائی گئی اہم ترین تنظیم کے طور پر سامنے آئی ہے۔اس سے لاکھ اختلاف سہی، اس کے سیاسی کردار پر بھی تنقید کسی حد تک درست ہے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ عالمی سطح پر ایک تسلیم شدہ تنظیم ہے، جو دو بڑے معاملات دیکھتی ہے، جن کا براہِ راست دہشت گردی سے تعلق ہے۔اس ادارے میں دنیا کے ہر خطّے کے نمائندے موجود ہیں۔

جب سے پاکستان اس کی لسٹ میں آیا ہے، تو چین، بھارت، جرمنی، فرانس اس کی صدارت کر چُکے ہیں۔جس علاقائی ٹاسک فورس کے ذمّے پاکستان کے معاملات ہیں، وہ ایشیا پیسیفک ٹاسک فورس ہے۔پہلے وہ مانیٹرنگ کرتی ہے اور اسی کے مشاہدات کی روشنی میں اسلام آباد کی کارکردگی پرکھی جاتی ہے۔اِس مرتبہ بھی پاکستان کی کارکردگی بہت اچھی تھی اور34 میں سے30 اہداف مکمل کر لیے تھے، اِسی لیے حکومتی عُہدے دار بہت پُرامید تھے کہ اِس مرتبہ تو اس سے جان چُھوٹ ہی جائے گی، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔یاد رہے، ٹاسک فورس دو معاملات پر عمل درآمد کرواتی ہے۔

ایک منی لانڈرنگ کا خاتمہ اور دوسرا ٹیرر فنانسنگ یعنی دہشت گردوں کو سرمائے کی فراہمی بند کروانا۔ اس مقصد کے لیے کسی بھی مُلک کو دو طرح کے اقدامات کرنے ہوتے ہیں۔ایک تو ایسی قانون سازی کرنی ہوتی ہے، جس کے ذریعے اِن معاملات کی روک تھام ہوسکے، جب کہ دوسرے منی لانڈرنگ کرنے والوں اور دہشت گردوں کو سزا دینا ضروری ہے۔ دوسرے الفاظ میں دہشت گرد تنظیموں کی فنڈنگ روکنی ہوتی ہے۔

ایف اے ٹی ایف کا کہنا ہے کہ اسلام آباد منی لانڈرنگ کنٹرول کرنے میں بڑی حد تک کام یاب ہے اور ساتھ ہی اس نے تسلّی بخش حد تک قانون سازی بھی مکمل کر لی ہے، لیکن اس کے مطابق، کمی صرف قوانین پر عمل درآمد میں ہے۔یعنی دہشت گردوں کو سزائیں نہیں دی جا رہیں۔یاد رہے، ان میں زیادہ تر نام وہ ہیں، جنہیں اقوامِ متحدہ نے دہشت گردوں کی لسٹ میں شامل کیا ہے۔اِس سلسلے میں پاکستان نے خاصا کام کیا ہے اور بہت سے افراد آج جیلوں میں بند ہیں، لیکن ایف اے ٹی ایف پھر بھی مطمئن نہیں۔ غالباً اس کا مطالبہ یہ ہے کہ ایسے تمام افراد سلاخوں کے پیچھے ہوں۔

بظاہر دیکھا جائے، تو اس میں پاکستان ہی کا فائدہ ہے، کیوں کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت نقصان اُٹھایا۔ حکومت کے اعداد وشمار کے مطابق 70 ہزار سے زاید پاکستانی شہید ہوئے، جب کہ مُلکی معیشت کو نوّے ارب ڈالرز کا نقصان برداشت کرنا پڑا، جس کی وجہ سے آج تک مُلکی معیشت سنبھل نہیں پارہی۔پھر حکومت کا سارا فوکس دہشت گردی کے خاتمے پر رہا، جس کے لیے چار پانچ فوجی آپریشنز کرنے پڑے، جو بذاتِ خود ایک بہت منہگا کام ہے۔ علاوہ ازیں، وہ قومی توانائی، جو مُلکی ترقّی پر خرچ ہونی چاہیے تھی،شدّت پسندی سے نمٹنے پر صرف ہو رہی ہے اور تقریباً پانچ عشرے سے ایسا ہی ہو رہا ہے۔

اِس معاملے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے، جس کی جانب ماہرین بار بار توجّہ دلاتے ہیں اور وہ ہے، اسلام آباد پر عالمی سیاسی دبائو۔ یعنی بہت سے ممالک اپنے سیاسی مفادات کے لیے بھی پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنا چاہتے ہیں۔ان ممالک میں سب سے نمایاں نام بھارت کا ہے۔اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ بھارت ،پاکستان کے خلاف بھرپور لابنگ کر رہا ہے اور وہ اسے چُھپاتا بھی نہیں، کیوں کہ وہ اسلام آباد پر دہشت گردی کے واقعات میں ملوّث ہونے کے الزامات لگاتا آ رہا ہے، جنھیں پاکستان ہر بار مسترد کردیتا ہے کہ بھارت کے پاس شواہد نام کی کوئی چیز نہیں۔

دونوں ممالک میں کشیدگی کی فضا کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی جارہی ہے اور اِن حالات میں سنجیدہ دو طرفہ مذاکرات بھی ممکن نہیں۔ اِسی لیے وزیرِ اعظم، عمران خان نے سعودی عرب کے حالیہ دورے میں کہا کہ اگر کشمیر کا مسئلہ حل ہوجائے، تو دونوں ممالک کے درمیان کوئی جھگڑا نہیں۔ایک رائے یہ بھی سامنے آئی ہے کہ امریکا سے بگڑتے روابط کا بھی گرے لسٹ سے تعلق ہے۔پاکستان گرے لسٹ میں اُس وقت آیا، جب نومبر2017 ء میں ہونے والے اجلاس میں برطانیہ اور امریکا نے اسلام آباد کو ٹاسک فورس سے مانیٹرنگ کی قرار داد پیش کی، جسے جرمنی اور فرانس نے سپورٹ کیا۔اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان ممالک کی دنیا اور اپنے علاقوں میں کتنی اہمیت ہے اور ان کی کہی بات کو نظر انداز کرنے کے نتائج اقتصادی طور پر کیا نکل سکتے ہیں؟

لیکن ان میں سے کم ازکم تین ممالک امریکا، برطانیہ اور فرانس سے تو پاکستان کے اچھے تعلقات ہی نہیں، وہ اس سے بڑے پیمانے پر دفاعی تعاون بھی کرتے ہیں۔ جرمنی بھی اسلام آباد کو جی ایس پی پلس جیسی غیر معمولی تجارتی رعایت میں پیش پیش رہا ہے۔ اِس لیے ان ممالک کا رویّہ حیران کُن ہے۔ہمارے ہاں حب الوطنی کا ذکر تو بہت ہے، تاہم اسے کس طرح مُلکی مفاد میں استعمال کیا جائے، وہ صرف جذبات اور نعرے بازی کی حد تک محدود ہے یا پھر غدّاری کے سرٹیفیکیٹ تقسیم کرنے کے لیے اسے استعمال کیا جاتا ہے۔کوئی یہ نہیں کہتا کہ مُلک کو فائدہ پہنچانا ہی حب الوطنی ہے اور اس پر کسی کی اجارہ داری نہیں۔ یہ انفرادی اور اجتماعی فعل ہے، جس میں ہر شہری اپنی بساط اور صلاحیت کے مطابق حصّہ ڈالتا ہے۔ہم امریکا یا کسی اور سے دشمنی کا ذکر کر کے معاملات سرد خانے میں ڈال دیتے ہیں، اِس طرح کبھی بھی مسائل حل نہیں ہوں گے۔

نعروں یا دشمنی کی باتوں سے صرف وقتی جذبات میں اُبال پیدا کیا جا سکتا ہے، جس کی قوم اب عادی بھی ہوچُکی ہے۔یورپ کا جی ایس پی پلس اور امریکا کا جی ایس پی پلس ہماری برآمدات کی ریڑھ کی ہڈی ہے، ان کی زبانی مخالفت تو بہت سے سیاست دان اور ماہرین کرتے ہیں، لیکن اُن میں سے کوئی یہ نہیں بتاتا کہ اگر ان ممالک سے ہونے والی پاکستان کی ساٹھ فی صد تجارت متاثر ہوجائے، تو اس کا متبادل کیا ہوگا؟

ایک ایسا مُلک، جو پہلے ہی معاشی بحران کی لپیٹ میں ہے، وہ متبادل تجارتی پلان کے بغیر مختلف ممالک سے کیسے دشمنی مول لے سکتا ہے؟سوال یہ ہے کہ گرے لسٹ کے معاملے پر کیا کیا جائے؟ یہ سوال اِس لیے بھی ضروری ہے کہ گرے لسٹ میں رہنے کا مطلب بیرونی سرمایہ کاری کے لیے خطرے کا الارم ہے۔حکومت سنجیدہ اور سنگین معاشی معاملات پر غور کرنے کی بجائے ایسے معاملات اور جذباتی نعروں میں گِھر گئی ہے، جن کی عام لوگوں کی زندگی میں کھیل تماشے سے زیادہ اہمیت نہیں۔

حکومتی ترجمان یہ بتانے کی بجائے کہ حکومت کتنی سنجیدگی سے عام آدمی کو غربت سے نکالنے پر کام کر رہی ہے اور انھیں ریلیف دینا چاہتی ہے، ہر روز میڈیا پر لایعنی بحث چھیڑ دیتے ہیں اور باقی لوگ بھی اُن کے ساتھ مِل جاتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ سیاسی پارٹیز نے اس فضول مشق کے لیے ٹرولنگ گروپس رکھے ہوئے ہیں، جو اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرتے ہیں۔امریکا سے ہمارے تعلقات بد یا بدترین ہوسکتے ہیں، لیکن اُسے سرکاری طور پر دشمن نہیں کہا جاتا۔حالیہ دنوں میں آرمی چیف، جنرل باجوہ نے کہا تھا کہ پاکستان، امریکا سے وسیع البنیاد تعلقات رکھنا چاہتا ہے۔

اُن کا بیان خوش آیند ہے، لیکن اب حکومت اور وزارتِ خارجہ کی ذمّے داری ہے کہ اُسے عملی شکل دے۔اگر آرمی سربراہ امریکا سے بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں، تو پھر اس کا کوئی پس منظر تو ضرور ہوگا۔ وہ گزشتہ تین سالوں سے خارجہ اور اقتصادی مشکلات میں حکومت کو بیل آئوٹ کروانے میں مدد کرتے آ رہے ہیں، کیوں کہ وہ حالات کو خُوب سمجھتے ہیں۔ اگر امریکا سے ورکنگ ریلیشنز قائم ہوجاتے ہیں، تو ایف اے ٹی ایف کا بڑا کانٹا نکل جائے گا۔اسی مدد سے ہم بھارت سے بھی کم ازکم ایجنڈے پر معاملات آگے بڑھا سکتے ہیں۔اس کا ایک اہم نتیجہ یہ ہو گا کہ سرمایہ کاری بڑھے گی۔برآمدات میں اضافہ ہوگا۔

اِسی پس منظر میں آئی ایم ایف سے مذاکرات کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔دراصل، آئی ایم ایف کی مُہر دنیا کو یہ بتاتی ہے کہ فلاں مُلک سرمایہ کاری کا اہل ہے اور وہ دیوالیہ نہیں ہو رہا۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سے ملنے والے چھے ارب ڈالرز کی مُلکی معیشت میں شاید ہی کوئی بڑی اہمیت ہو۔بجلی، گیس، پانی اور نہ جانے کن کن چیزوں پر ٹیکس کی شرائط منوائی جاتی ہیں اور یہ اُس وقت تو بہت ہی ناگوار گزرتی ہیں، جب لوگ منہگائی کو بارہ فی صد سے اوپر جاتا دیکھ رہے ہوں اور اشیائے خورو نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہوں۔

پتا نہیں یہ پٹّی کس نے پڑھائی ہے کہ عالمی تیل کی قیمتوں اور دنیا میں اشیاء کی بڑھتی قیمتوں کو پاکستان میں بھی منہگائی کا جواز بنایا جائے۔جب کورونا کی وجہ سے مارکیٹ میں کساد بازاری تھی، تو کیا اُس وقت یہاں ڈالر سستا اور قیمتیں کم تھیں؟ آئی ایم ایف نے قرض کی اقساط سے زیادہ تو کورونا ریلیف کی مد میں ڈھائی ارب ڈالرز دیے ہیں۔اُن میں سے کتنے کورونا سے نمٹنے کے لیے خرچ ہوئے اور اگر وہ ڈالر مارکیٹ میں آئے، تو پھر روپیا کیوں گر رہا ہے؟ یقیناً حکومت کو منہگائی کا ادراک ہے اور اِسی لیے وہ بار بار ٹارگٹڈ سبسڈی کی بات کرتی ہے،لیکن عملاً کچھ نہیں ہو رہا۔ اب تو مِڈل کلاس بھی، جو پی ٹی آئی کا بڑا ووٹ بینک ہے، بوکھلا گئی ہے۔

جو اقتصادی ماہرین حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانے سے روکتے ہیں، اُن میں سے زیادہ تر اس مُلک کو چلا چُکے ہیں اور اُنہوں نے آئی ایم ایف کو برتا بھی ہے، اِس لیے وہ اِن معاملات کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔تو اس میں کیا قباحت ہے کہ ان ماہرین کا ایک اجلاس بُلا کر اُنہیں شارٹ اور لانگ ٹرم اقتصادی پالیسی تشکیل دینے کا ٹاسک سونپ دیا جائے۔پھر مُلک کی تمام سیاسی جماعتوں کو بھی معاشی پیج پر یک جا کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔یہ معاشی اتحاد ہی دنیا کو مثبت پیغام دے گا کہ یہ قوم اپنے معاشی معاملات ٹھیک کرنے میں سنجیدہ ہے اور اس سے بات ہوسکتی ہے اور سرمایہ کاری بھی۔سیدھی سی بات ہے، جو بھی پیسا لگاتا ہے، وہ منافع چاہتا ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف امریکا کی مرضی کے بغیر نہیں چلتا۔ کسی حد تک یہ درست بھی ہے، لیکن اس کے فعال ارکان میں چین اور روس بھی شامل ہیں۔چین تو اس کے فنڈ میں اچھا خاصا حصّہ بھی ڈالتا ہے۔اِس لیے ہم چین کو بھی اعتماد میں لے کر آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ایک اور بات بھی اہم ہے۔سابقہ وزیر خزانہ اور موجودہ گورنر اسٹیٹ بینک اور ڈپٹی گورنر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کی موجودگی کے باوجود عالمی ادارے کی شرائط نے عوام کو زمین سے لگا دیا ہے، تو اِن افراد کے کردار کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے۔

مان لیا کہ حکومت کو معاشی مینجمنٹ کا کوئی تجربہ نہیں، لیکن سامنے کی بات یہ ہے کہ اب عوام کی بس ہوگئی ہے۔بہتر ہوگا کہ ایسی پالیسیز بنائی جائیں، جن سے عالمی سطح پر اثر ورسوخ رکھنے والے ممالک فی الحال راضی ہوجائیں اور ہماری معاشی راہ میں رکاوٹیں نہ ڈالیں۔یوں ایف اے ٹی ایف کا معاملہ طے ہوجائے گا اور آئی ایم ایف سے نجات کے راستے بھی نکلنے شروع ہوجائیں گے۔