ہم بند گلی میں داخل ہوچکے؟

November 11, 2021

مرشد نے پٹرول کی قیمتیں آسمان پر پہنچانے کے بعد فیس بک پر اپنی پروفائل پکچرکیا تبدیل کی کہ جلنے والوں کا منہ کالا ہو، رنگ برنگی بولیاں بولنے لگے۔میرے مرشد کی شان تو دیکھئے ستر کے پیٹے میں آ گئے لیکن ایسے ہینڈ سم نظر آتے ہیں کہ اب بھی کچھ ادھیڑ عمر حسینائیں ان پر جان چھڑکتی ہیں۔ مرشد تازہ ترین پکچرمیں آسمان پر فخریہ آنکھیں جمائے کھڑے ہیں چہرے پر دبے لبوں ایسی مسکراہٹ ہے کہ جیسے کہہ رہے ہوں پاکستانیو! ہور کوئی خدمت ساڈے لائق۔ کچھ نہ پوچھئے کہ اس پروفائل پکچر نے جیالوں، متوالوں،انصافیو کے دلوں میں کیسی آگ لگائی کہ دکھوں بھری زندگی میں یوتھئے مرشد کی حمایت کرنے پر اپنی خفت مٹاتے ہوئے کچھ اس طرح قصیدے پڑھ رہے ہیں کہ مرشد ! تینوں رب دیاں رکھاں، خون کھولتا ہے جب کوئی آپ کے خلاف بولتا ہے۔ مرشد ! اللہ کے واسطے غریب پر کچھ رحم کرو، آپ تو عمرؓ بن خطاب کی مثالیں دیتے رہے اب تو غریب کی صرف اللہ ہی مدد کرے تو کرے حکومت نے تو بھوک سے مار دیا۔ مرشد کے فیس بک پیج پرکچھ اس انداز میں تعریفیں ہو رہی ہیں کہ ایک دیوانے نے موبائل شاپ سے ایک مہنگا فون چُرا لیا، مالک نے دیوانے کو پکڑ لیا۔ پھر سوچا یہ دیوانہ اتنامہنگا فون کیسے چلا سکتا ہے؟ مالک نے فون دیوانے کو دیا اورکہا اسے چلاؤ۔ دیوانے نے فون پکڑا، اس کی ٹچ اسکرین کو گھمانے لگا، جیسے جیسے اسکرین کو ٹچ کرتا گیا آگے لکھا آتا.... See More ۔ مرشد کے ایک اور چاہنے والے نے کچھ اس طرح لکھا کہ ایک بچہ ضد پر اَڑ گیا کہ چھپکلی کھاؤں گا، گھر والوں نے بہت سمجھایا مگر بچے نے کسی کی ایک نہ مانی اور ضد پر اَڑا رہا۔ گھروالوں نے تنگ آکرایک باباجی کو بلایا جو ضد تڑوانے میں ماہر تھے۔ بابا جی کے حکم پر ایک چھپکلی منگوائی گئی اور پلیٹ میں رکھ کر اس بچے کے سامنے رکھ دی ۔ بابا جی نے بچے سے کہا لے کھا! اب بچہ یہ سن کر مچل گیا اورتُرنت بولا! تلی ہوئی کھاؤں گا۔ بابا جی نے چھپکلی تلوائی اور زور سے بولے! لے اب چُپ چاپ کھا لے۔ بچہ پھر گلاٹی مار گیا اور بولا آدھی کھاؤں گا۔ چھپکلی کے دو ٹکڑے کئے گئے ، اب بچہ بابا جی سے بولا! پہلے آپ کھاؤ پھر میں کھاؤں گا، اب بابا جی سوچ میں پڑ گئے کہ کہاں پھنس گیا، کسی بھی طرح آنکھ ،ناک دبا کے بابا جی نے آدھی چھپکلی نگل لی، بابا جی کے چھپکلی نگلتے ہی بچہ زورزور سے رونے لگا کہ آپ تو میرے والا ٹکڑا کھا گئے۔ اتنا سنتے ہی بابا جی نے دھوتی سنبھالی اور ننگے پاؤں سرپٹ بھاگ گئے کہ کرنا کرانا کچھ نہیں نوٹنکی دنیا بھر کی۔ اب بھی مرشد کی ضد ہے کہ پاکستان کو ترقی دوں گا پانچ سال تو پورے ہونے دو، پھر فیصلہ ہوگا کہ غربت ختم ہوئی یا غریب مارا گیا۔ ایک خاتون نے اپنے کمنٹ میں کہا کہ پتہ نہیں ہم نے کون سی ایسی نیکی کی ہے کہ جو ہمیں عمران خان جیسا وزیراعظم ملا، اللہ پاک میرے کپتان کو سلامت رکھے۔ پھر جو مہنگائی کے ستائے دیوانو ں نے جواب در جواب دیا وہ الفاظ تو یہاں دہرائے نہیں جاسکتے لیکن کسی نے محترمہ سے پوچھ ہی لیا کہ کیا آپ سنجیدہ ہیں یا کوئی مذاق کیا ہے؟ اللہ نے ہمیں ایسا وزیراعظم دیا جو بیک وقت ڈاکٹر بھی ہے ، حکیم بھی، استاد بھی، عاشقِ رسولؐ اور قوم سے محبت کرنے والا بھی جس کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ خان صاحب لگے ہاتھ ایک قبرستان کا افتتاح بھی کر دیں(ہن اسی نئیں بچنا) مرشد! بس اب آخری کارڈ کا اعلان کردیں وہ ہے ”قبر کارڈ“۔ اب تو گورکن ایسوسی ایشن کے اس اشتہار کا انتظار ہے کہ قسطوں پر قبریں دستیاب ہیں۔ مرشد! ایک سوال ہے کہ اگر پندرہ ہزار ماہانہ والا ملازم اپنی جیب سے موٹر سائیکل میں پٹرول ڈلوا سکتا ہے تو پھر لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ لینے والے وزرا، مشیروں، معزز جج صاحبان اور اراکین پارلیمنٹ یہ ادائیگی اپنی جیبوں سے کیوں نہیں کرتے؟ مرشد! اگر غریب یہ بوجھ اٹھا سکتا ہے تو پھر آپ کو بھی یہ بوجھ اٹھانا چاہئے۔ سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کریں کہ آپ کو بھی اندازہ ہو کہ جب دنیا میں مہنگائی ہوتی ہے تو پاکستان کون سا آسمان سے اترا ہے کہ یہاں مہنگائی نہ ہو۔ نہ چھیڑ ملنگاں نوں۔ آپ کے بھاشن سن سن کر ہمارا تو ہاسا ہی نکل جاتا ہے۔ اُلٹا جس دن آپ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی سمری مسترد کرتے ہیں تو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ آپ اپنے خطاب میں کون سی قیامت ڈھانے لگے ہیں ماشاءاللہ! جیو ہزاروں سال، جنہوں نے آپ کو بددعائیں دیں اللہ ان کو قیامت کے دن زرداری، شریف برادران کی صفوں میں اٹھائے، آمین کہہ کرثواب دارین حاصل کیجئے کہ نواز شریف 80 روپے لٹر پٹرول پر کرپٹ تھا عمران خان 145 روپے لٹر پر ایمان دار ہے۔ مرشد!آل پاکستان تانگا ایسوسی ایشن نے آپ سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے یہ اعلان کیا ہے کہ شکریہ عمران خان بیس سال بعد ہمارا کاروبار بھی بحال ہوگیا۔ بس اس حقیقت کو سمجھنے کیلئے کسی آئن اسٹائن یا ارسطو کی ضرورت نہیں جب یہ کیفیت طاری ہو جائے تو سمجھئے کہ ہم بندگلی میں داخل ہوچکے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)