جَہری وسِرّی نمازوں میں تلاوت کا حکم

November 19, 2021

تفہیم المسائل

سوال: کیا نمازِ ظہر یا عصر میں امام جہری تلاوت کرسکتا ہے ،جیسا کہ جمعۃ المبارک میں جہری تلاوت کی جاتی ہے ؟(ظہو راحمد باروی ،کراچی)

جواب:ابتدا میں نمازوں میں قرآن مجید جہراً پڑھا جاتا تھا ، مشرکین کے شر کے سبب اللہ تعالیٰ کے حکم سے رسول اللہ ﷺ نے جَہر اور سِرّ کے اوقات متعین فرمائے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :ترجمہ:’’اورآپ نماز میں نہ بہت بلند آواز سے قرآن پڑھیں اور نہ بہت پست آواز سے اور ان دونوں کے درمیان طریقہ اختیار کریں۔(سورۂ بنی اسرائیل)علامہ آلوسی ؒلکھتے ہیں’’ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے : اس آیت کا معنیٰ یہ ہے کہ نہ تو تمام نمازوں میں جَہر ی قرأ ت کریں اور نہ تمام نمازوں میں اِخفاء کریں، بلکہ درمیانہ طریقہ اختیار فرمائیں، بعض نمازوں میں جَہر جیسے مغرب اور عشاء اور بعض میں اِخفاء جیسے کہ شمار کیاگیا ہے۔ (روح المعانی ،جلد8)علامہ قرطبی مالکیؒ لکھتے ہیں:’’ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے : اس آیت کا معنیٰ یہ ہے کہ دن کی نمازوں میں بلند آواز سے قرأت نہ کریں اور رات کی نمازوں میں پست آواز سے قرأت نہ کریں ۔ یحیٰ بن سلام اور زَہراوی نے بھی اسے ذکر کیا ہے،نوافل اور فرائض میں قرأ ت کے جَہر واِخفاء کے احکام اس سے مُتضمن ہیں،(تفسیر قرطبی ، جلد10،ص:344)‘‘۔

ترجمہ:’’ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما قرآن کریم کی آیت مبارکہ :’’وَلَا تَجْہَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِہَا‘‘کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں : رسول اللہ ﷺ مکہ میں چھپ کر بلند آواز سے قرآن پڑھ کر صحابہؓ کو جماعت کراتے ،مشرکین جب قرآن سنتے تو قرآن مجید کو ، قرآن مجید نازل کرنے والے اللہ تعالیٰ کو اور قرآن لانے والے کو برا کہتے ، اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا: اس قدر بلند آواز سے قرآن مجید نہ پڑھیں کہ مشرکین سن لیں اورنہ اتنا آہستہ پڑھیں کہ آپ کے صحابہؓ بھی نہ سن سکیں ،بلندی اور پستی کے درمیان قرآن شریف پڑھیں ۔(صحیح مسلم:446)

اس حکم کے بعد نمازِ ظہر اور نمازِ عصر میں تلاوت میں اخفاء کیاجانے لگا اور پھر یہی معمول رہا ۔ درجِ ذیل حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ظہر وعصر کی نمازوں میں رسول اللہ ﷺ آہستہ قرأت فرماتے اور صحابۂ کرامؓ رسول اللہ ﷺ کی داڑھی مبارک کے ہلنے سے قرأ ت ہونا مشاہدہ فرماتے :ترجمہ:’’ ۱بو معمر ؓ بیان کرتے ہیں: ہم نے حضرت خباب ؓ سے سوال کیا : کیا نبی ﷺ ظہراور عصر میں قرآن پڑھتے تھے ؟

انھوں نے کہا: جی ہاں!ہم نے کہا: آپ اسے کیسے پہچانتے تھے؟، انھوں نے کہا: نبی ﷺ کی داڑھی مبارک ہلنے کی وجہ سے ،(صحیح بخاری : 760 )‘‘۔بنیادی وجہ تویہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم اور رسول اللہ ﷺ کی سنت یہ رہی کہ دن کی نمازوں میں قرأت میں اخفاء اور رات کی نمازوں میں جہر فرمایا ۔

البتہ ابتدائی دور میں مشرکین کے شر سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ حکمت اختیار فرمائی،علامہ احمد بن محمد اسماعیل طحطاوی حنفیؒ لکھتے ہیں:’’ جہری و سرّی نمازوں کے بارے میں اصل یہ ہے کہ ابتدا میں رسول اللہ ﷺ تمام نمازوں میں جہری قرأت فرماتے تھے، مشرکین قرآن کی آواز سن کر آجاتے اور آپ ﷺکو تکلیف پہنچانے اور تنگ کرنے کے لیے خوب شور مچاتے، زور زور سے اشعار پڑھتے، الٹی سیدھی بکواس کرتے اور گالم گلوچ کرتے تھے تاکہ وہ لوگ شور شرابا کر کے غالب آجائیں اور آپ ﷺخاموش ہوجائیں، (مشرکین)قرآن مجید نازل کرنے والے اللہ تعالیٰ کو اور قرآن لانے والے کو بر ا کہتے ، اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا: اس قدر بلند آواز سے قرآن مجید نہ پڑھیں کہ مشرکین سن لیں اورنہ اتنا آہستہ پڑھیں کہ آپ کے صحابہ بھی نہ سن سکیں ،یعنی تمام نمازوں میں جہر سے نہ پڑھیں اور نہ ہی تمام نمازوں میں اخفاء کریں ،بلکہ بلندی اور پستی کے درمیان قرآن شریف پڑھیں ،رات کی نمازوں(فجر ،مغرب اور عشاء ) میں جہر سے پڑھیں اور دن(ظہر وعصر) کی نمازوں میں آہستہ پڑھیں ، لہٰذا اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ ﷺظہر اور عصر کی نمازوں میں سِرّی قرأ ت فرمایا کرتے تھے، کیوں کہ ان اوقات میں مشرکین تکلیف پہنچانے کے لیے بالکل تیار ہوتے تھے، جب کہ مغرب، عشاء اور فجر میں جہری قراءت فرمایا کرتے تھے، کیوں کہ مغرب میں وہ لوگ کھانا کھانے میں مشغول ہوتے تھے اور عشاء و فجر میں وہ سو رہے ہوتے تھے، جمعہ وعیدین کی نمازیں مدینہ میں شروع کی گئیں اور مدینہ میں کفار کو قوت (وغلبہ) حاصل نہیں تھا ،(حاشیۃ الطحطاوی علیٰ مراقی الفلاح شرح نور الإیضاح ،ص:253)‘‘۔

دن کی نمازوں کو سِرّی پڑھنا تواترِ عملی سے ثابت ہے۔جمعہ وعیدین کے اجتماعات اسلامی شوکت کا مظہر ہیں اور ان کے احکامات جدا ہیں ،جمعہ وعیدین کی نمازوں میں رسول اللہ ﷺ کا جَہری قرأ ت کرنا بلکہ بعض سورتوں کے بارے میں احادیث میں ہے کہ آپ ﷺ اُنھیں جمعہ وعیدین کی نماز میں پڑھتے تھے ، اسے سِرّی نمازوں (ظہر وعصر)کے لیے نظیر ومثال نہیں بنایا جاسکتا ۔

آپ مسئلہ ذہن نشین فرمالیں کہ فجر ، مغرب اور عشاء کی پہلی دو رکعات میں اور نمازِ جمعہ وعیدین ،تراویح اور ماہِ رمضان المبارک میں وتر کی تمام رکعات میں امام پر جہر واجب ہے ۔ علامہ علاء الدین ابوبکر بن مسعود کاسانی حنفیؒ لکھتے ہیں: ’’ واجبات میں سے :جہاں قرأ ت میں جہر ہے ،وہاںجہری قرأ ت کرنا اور وہ نمازِ فجر ، مغرب اور عشاء کی ابتدائی دو رکعتیں ہیں اور اخفاء یعنی آہستہ قرأت کرنا ،جہاں اخفاء (واجب) ہے اور وہ ظہر اور عصر کی تمام رکعتیں ہیں، جبکہ وہ امام ہو،(بدائع الصنائع ، جلد 1) مغرب کی تیسری ، عشاء کی تیسری چوتھی ،ظہر وعصر کی تمام رکعتوں میں آہستہ پڑھنا واجب ہے، واجب کے ترک پر سجدۂ سہو واجب ہوجاتا ہے ۔

علامہ نظام الدین ؒ لکھتے ہیں: ’’ اگر آہستہ پڑھنے کی جگہ جہر سے پڑھا یا جہر کی جگہ آہستہ پڑھا ،تو سجدۂ سہو واجب ہوگا ،اس میں اختلاف ہے کہ جہر اور اخفاء کس قدر پڑھنے سے سجدۂ سہو واجب ہوگا، بعض فقہاء نے فرمایا کہ جس قدر مقدار ِ قرأ ت سے نماز جائز ہوجاتی ہے ، ان دونوں صورتوں میں اُسی مقدار کا اعتبار ہے ، یہی اَصح ہے ،(فتاویٰ عالمگیری ،جلد1،ص:128)‘‘۔