اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان عمر ایوب ’’برگر‘‘ بیچ کر بہت خوش اور مطمئن ہیں

November 20, 2021

نوجوان قوم اور ملک کی ترقی میں نہ صرف اہم اور ذمہ دارانہ کردار ادا کرتے ہیں بلکہ معاشرے کو اخلاقی اقدار، سماجی، ثقافتی اور تخلیقی ذہنوں سے روشناس کرواتے ہیں ۔ لیکن آج کے اس دور میں نوجوانوں کی بیروزگاری ایک المیہ بن چکی ہے۔جس کا حل دکھائی نہیں دیتا۔ ہمارے پاس ہزاروں کی تعداد میں پڑھے لکھے ڈگری یافتہ نوجوان ہیں ،جن کے پاس ڈگری ہے اور وہ کام کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں، مگر مناسب مواقع فراہم نہ ہونے کی وجہ سے کام نہیں کر پا رہے۔

ایسے ہی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان عمر ایوب بھی ہیں۔ان کا تعلق اسلام آباد سے ہے، وہ ایک پلازہ کے سامنے چھوٹے سے ٹھیلے پر ’برگر‘ بنا کر فروخت کرتے ہیں، جس کا نام انہوں نے’ ’ایم بی اے وڑا پاؤ‘‘ رکھا ہے۔عمر ایوب نے 2019 میں بحریہ یونیورسٹی سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی ہے لیکن بڑی کوششوں کے باوجود انہیں ملازمت نہیں ملی ، معاشی حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔

کورونا کی وبا نے تو مالی اعتبار سےاچھوں اچھوں کا حال برا کردیا، بے روز گار نوجوانوں کا حال تو اوربھی خراب ہو گیا تھا۔کاروبار زندگی مفلوج ہوگیا تھا اور جوبے چارے ملازمت کر رہے تھے انہیں بھی فارغ کر دیا گیا۔ ایسے میں عمر ایوب نے سوچا کہ کیوں نہ وہ اپنا کام شروع کر ے، دو پیسے ہاتھ تو آجائیں گےکے بیروزگاری کاحل نکال آئے گا۔

ایک دن مارکیٹ کا جائزہ لیا تو انڈے والے برگر ، بریانی چھولے وغیرہ کے تو بہت ٹھیلے لگے تھے، لیکن عمر کو کوئی نئی چیز بنا کر روزگار شروع کرنا چاہتے تھے، لہذا انہوں نے ایک ٹھیلے پر مہاراشٹرا ( بھارت )کی منفرد ڈش’’ وڑا پاؤ ‘‘ بنائی، جس میں آلو کی ٹکیہ کو بن میں مختلف چٹنیوں کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔

پہلے ہی دن لوگوں نے بہت حیران ہو کر دیکھا لیکن پھر دیکھتے ہی دیکھتے چند ہفتوں میں یہ ڈش مشہور ہوگئی ۔ بقول عمر ایوب کے مجھے آرڈر ملنے لگےاور میرے روز گار میں ترقی ہوتی گئی۔ روزانہ شام چار بجے اپنا کام شروع کرتا ہوں اور رات ایک بجے تک فروخت کرتا ہوں۔ عمر ایوب نے اپنے ٹھیلے پر ’’وڑا پاؤ ایم بی اے‘‘ نمایاں لکھ کر لگایا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ، جب میںنے کام کا آغاز کیا تو پہلے دن میں صرف دو وڑا پاؤ بکے تھے، لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری، کچھ ہی دنوں کے بعد خوب بکنے لگا۔ گاہک پسند کرنے لگے۔ اس کا ذائقہ بھی بہت مزے کا ہا ۔ اب روزانہ 70 سے 80 وڑا پاؤ بک جاتے ہیں۔ یونیورسٹی کے طلباء خاص طور پر میرے ٹھیلے پر آتے ہیں اس کام میں ان کی والدہ نے ان کی بہت زیادہ مدد کی وہ انہیں وڑا پاؤ کی چٹنیاں بناکر دیتی ہیں۔

اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود عمر ایوب اب اپنے کام سے خوش ہیں اور کہتے ہیں کہ شاید اب وہ کبھی نو سے پانچ کی لگی بندھی نوکری نہ کریں۔ اپنے ساتھیوں سے بھی کہوں گا کہ ڈگری ہاتھ میں لیے روزگار کی تلاش میں نہ پھریں۔ اپنا کاروبار کریں۔ عمر ایوب کی طرح بہت سےپڑھے لکھے نوجوانوں میں چھوٹے کاروبار شروع کرکے روزگار کمانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

متوجہ ہوں!

قارئین کرام آپ نے صفحہ ’’نوجوان‘‘ پڑھا آپ کو کیسا لگا؟ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضوعات پر لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کرکے شائع کریں گے۔

ہمارا پتا ہے:

انچارج صفحہ ’’نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن،

اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔