عاصمہ جہانگیر کانفرنس

November 27, 2021

روز آشنائی …تنویرزمان خان، لندن
پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے آمروں کے ادوار کی طرح سول سوسائٹی کی آواز کو دبانا ہی نہیں ختم کرنے اور مکمل خاموش کرنے کے ایسے ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں کہ اب چند برسوں سے یہی زندہ سول سوسائٹی مردہ نظر آنے لگی ہے۔ اپنے حقوق کی آواز اٹھانے والی خواتین کے کردار پر حملے کرکے، مذہبی حوالہ استعمال کرکے، غیر اسلامی طرز زندگی قرار دے کر مغرب زدہ یا شرم و حیا سے عاری کہہ کر ان کی آواز کو دبایا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سوسائٹی اب مسائل کے اظہار کے حوالے سے بے زبان ہوتی جارہی ہے،عاصمہ جہانگیر کانفرنس نے اس تعفن زدہ ماحول میں کچھ آکسیجن ڈالی ہے، عاصمہ جہانگیر تو اپنی زندگی میں بھی اور اس کے نام سے اس کی وفات کے بعد بھی ایک ایسا آکسجن بھری ہوا کا جھونکا آتا رہتا ہے جو ماحول میں روح ڈال دیتا ہے، اسی نے سول سوسائٹی کی دم توڑتی آہ و بکا کو جاندار احتجاجی زبان بنادیا ہے اور اس بات کا عام عوام کو بھی اندازہ ہونے لگا ہے کہ اب اس ریاست کے وہ پرانے ایشوز نہیں رہے، نہ ہی وہ احتجاج کا مزاج رہا ہے بلکہ سب کچھ آمنے سامنے آ کھڑا ہونا شروع ہوگیا ہے جس بات کی عام آدمی کو پہلے سمجھ نہیں آتی تھی یا وہ یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا تھا، اب ریاست اور عوام میں براہ راست ڈائیلاگ ہونے لگا ہے، سول سوسائٹی نے پھر سے کروٹ لی ہے، تیور بدلنے لگے ہیں، وہ ایشوز جو اداروں کی کوکھ سے جنم لے رہے تھے، ان کی نشاندہی ہونے لگی ہے، سول سوسائٹی سوال کرنے لگی ہے کہ عام عوام کے ذہنوں کو کون یرغمال بنائے ہوئے ہے، یہ کھیل کس طرح سے کھیلا جارہا ہے، کس وقت ایک چھوٹا سا نعرہ پورے تضاد کو بیان کردیتا ہے، سپریم کورٹ بار کے سابق صدر علی احمد کرد نے یہی کام کر دکھایا، دو لفظوں سے اسٹیبلشمنٹ کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا اور اگلے دو ہی لفظوں میں عدلیہ کو بھی، اس وقت یہ کٹہرے میں لا کھڑا کرنے کا مسئلہ اس لیے بھی بہت اہم ہوچکا ہے کیونکہ پاکستان کی جس طرح سے معاشی حالت بہت تیزی سے دگرگوں ہوتی جارہی ہے کہ فکر لاحق ہونے لگی ہے کہ کیا یہ اس طرح ملک مزید چل سکے گا یا نہیں، عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں جو آوازیں اٹھیں، ابھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ریاست ان آواز اور سوالات و تشویش کو لے کر مثبت روئیے بنائے گی یا اسے اپنی شان کے خلاف گستاخی سمجھ کر گستاخ سول سوسائٹی کی زبان گدی سے کھینچنے کی کوشش کرے گی۔ کانفرنس میں آواز اٹھانے والوں میں کوئی معمولی سیاسی جیالے نہیں تھے، وہاں پر عدلیہ کا انسانی حقوق اور جمہوریت مضبوط کرنے میں کردار پر سیشن ہوا، مجھے کانفرنس کے دیگر سیشن بھی ریکارڈنگ میں دیکھنے کا اتفاق ہوا، مجھے پاکستان کی تاریخ میں سنجیدہ ایشوز پر سول سوسائٹی کی جانب سے پہلے کبھی اتنی سنجیدہ اور معتبر کانفرنس دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا، جس میں چیف جسٹس کے علاوہ کئی دیگر ججز بھی شریک تھے، مجھے جن تقاریر نے بہت متاثر کیا یا جن میں ملک کی بگڑتی صورت حال پر سنجیدہ تشویش پائی، ان میں ایاز لطیف پلیجو اور منظور پشتین تھے۔ منظور پشتین جن گمشدہ افراد کی لسٹ بیان کررہا تھا وہ دراصل اس ریاستی مرض کا بیانہ تھا جو اس ریاست کو آزاد اور جمہوری ریاست بنانے کی راہ میں رکاوٹ رہیں، پشتین کہہ رہا تھا کہ ہمیں غدار قرار مت دیجئے، یہی ریاستی رویہ ہمیں کھوکھلا کررہا ہے، ہماری ہی فوج ہمارے سانے فریق بن کے کیوں کھڑی ہورہی ہے، پشتین کی بات میں دم ہے کہ ریاستTLPجوکہ مسلح تنظیم ہے اور نظریات میں شدت پسندی رکھتی ہے اور جب وہ تشدد اور غنڈہ گردی پر اترتی ہے تو ریاست گھٹنے ٹیک کر اس کے مطالبات مان لیتی ہے اور جو لوگ امن پسند رہتے ہوئے اپنے آزادی اور جمہوری حقوق کی بات کرتے ہیں انہیں گمشدہ کردیا جاتا ہے یا تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، دراصل یہی ایسے حقائق ہیں جن پر اگر غور نہ کیا گیا تو کچھ ہی دیر میں بہت دیر ہوجائے گی، ریاست کو کافر اور غدار قرار دینے کیے رویے اور سوچ سے اوپر نکلنا چاہیے، تمام اداروں کو فقط اپنے آئینی دائرہ کار میں رہ کے کام کرنا چاہیے، سول سوسائٹی کے آواز اپنی خوش قسمتی سمجھنا چاہیے کہ ابھی تنقید میں وہ رمک باقی ہے، جس کی نشاندہی پر خود کو درست کرکے وہ ایک روگRogueریاست کی بجائے ایک مضبوط ریاست اور عوام کے ادارے کہلائیں جنہیں لوگ اپنا کہنے پر فخر محسوس کریں۔