سعودی عرب سے 3 ارب ڈالر

November 27, 2021

حکومتی ذرائع کے مطابق آئندہ 60روز میں پاکستان کو مختلف مدوں میں 7ارب ڈالر ملیں گے جن سے درآمدی اخراجات کا موجودہ دباؤ کم کرنے میں مدد ملے گی۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے زرمبادلہ سے متعلق مالیاتی اداروں کو یہ اطمینان دلایا ہے کہ سعودی عرب سے رواں ہفتے میں پاکستان کو 3ارب ڈالر کا سرمایہ منتقل ہو جائے گا اس کے علاوہ 1.2ارب ڈالر تیل کی مؤخر ادائیگیوں کی صورت میں ملیں گے۔ 800ملین ڈالر کے تیل کی سہولت اسلامی ترقیاتی بینک سے ملے گی۔ ایک ارب ڈالر سکوک بانڈز اور ایک ارب ڈالر ہی آئی ایم ایف سے آئیں گے۔ یہ ایک کثیر سرمایہ ہے اس کے باوجود اسے معیشت کے لیے دیرپا قرار نہیں دیا جا سکتا جو اگرچہ ہمیشہ ہی سے ادائیگیوں کے عدم توازن کا شکار چلی آرہی ہے لیکن موجودہ لہر نے ایسی کیفیت پیدا کر رکھی ہے کہ اس سے نمٹنے کے لیے آئی ایم ایف کی انتہائی سخت شرائط پوری کرنا پڑ رہی ہیں۔ مزید برآں گزشتہ پانچ ماہ سے درآمدی اخراجات میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے یہ حجم ماضی کے سالانہ اضافوں سے بھی زیادہ ہے۔ 19نومبر کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران زرمبادلہ کے ذخائر جو گزشتہ ماہ بڑھ کر 21ارب ڈالر تک پہنچ گئے تھے، ان کی سطح گر کر 16ارب ڈالر پر آگئی ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ رواں برس پاکستان کی خالص آمدنی صرف قرضوں کی ادائیگی میں استعمال ہوگی۔ ان کے مطابق خالص آمدنی کی رسیدیں صرف رواں مالی سال کے قرضوں کی ضروریات پوری کر سکتی ہیں لہٰذا دفاعی ترقی، سبسڈیز، سول حکومت کا معاشی نظام بشمول وفاقی حکومت کی تنخواہیں اور پنشنیں قرضوں کی رقم سے ادا کی جائیں گی۔ ایک اندازے کے مطابق یہ رقم 15فیصد بنتی ہے جبکہ باقی 85فیصد قرضوں کی ادائیگی میں جائے گی۔ بھارت کے یہ اخراجات 51اور بنگلہ دیش کے 20فیصد ہیں۔ اس تناظر میں وطن عزیز میں گزشتہ سال خالص آمدنی سے قرضوں کی ادائیگی اور جملہ اخراجات کا 59فیصد پورا کیا گیا تھا تاہم یہ صورتحال اگر اطمینان بخش نہیں تو اسے منفی بھی قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ دلیل واضح کردیتی ہے کہ اگر سعودی عرب اور دیگر ذرائع سے یہ 7ارب روپے نہ ملتے تو غیرملکی قرضوں کی ادائیگی زرمبادلہ کے ذخائر سے کرنے کے علاوہ کوئی ذریعہ دکھائی نہیں دیتا جن کی صورتحال پہلے ہی ابتر ہے۔ اس مشکل سے نکلنے کے لیے حکومت نے آئی ایم ایف سمیت جن راستوں کا تعین کیا ہے وہ سب مہنگائی در مہنگائی کی طرف جاتے ہیں جس کے بارے میں ماہرین کا اندازہ ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ مزید ڈیڑھ سے دوگنا ہو جائے گی۔ پیٹرول کی قیمت جو اس وقت 145روپے فی لیٹر ہے ڈیلروں کی ہڑتال اور ان کے مطالبات تسلیم کرنے کے بعد یکم دسمبر کو اس میں مزید اضافہ یقینی قرار دیا جارہا ہے جس سے بجلی کی پیداواری لاگت اور اس کی قیمتوں میں اضافہ آئی ایم ایف کے تخمینے سے بھی زیادہ دکھائی دینے لگا ہے۔ پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ حقیقتاً متوسط درجے کو بھی غربت میں دھکیلے گا۔ سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا پہلے ہی تخمینہ لگا چکے ہیں کہ بجلی گیس اور پیٹرول کے نرخوں میں تازہ اضافوں سے روزمرہ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں 9سے 12فیصد بڑھیں گی جس سے اجرت و کم تنخواہ دار طبقوں کی زندگی مزید مشکل ہو جائے گی۔ حکومت اس وقت 39ہزار ارب روپے کی قرض دار ہے جن کی ادائیگیاں مزید قرضے لیکر کرنی پڑتی ہیں اور پی ٹی آئی کے دور میں 11ہزار ارب روپے کا اضافہ بھی اسی کا شاخسانہ ہے۔ جس سے جلد از جلد نجات حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش قومی مفاد کا ناگزیر تقاضا اور اقتصادی ماہرین کی کانفرنسیں بلا کر اس صورتحال کا قابلِ عمل تلاش کرلینا عین ممکن ہے۔