نیشنل کمیونٹی پاور سپلائی پروگرام

November 27, 2021

اَن گِنت سیاروں کی کائنات میں تیرتے ہمارے ننھے سیارے کرۂ ارض میں خالقِ کائنات نے اپنی سب سے اشرف مخلوق بنی آدم کی ضروریات، آسائشات و تعیشات کا اتنا ساماں فراہم کیا ہے کہ ہر انسان اس کی ہدایت کے مطابق یہاں اک بھرپور اور مکمل پُرآسائش و پرتعیش زندگی بسر کر سکے لیکن اب یہ مکمل ثابت شدہ ہے کہ ایسا، قادرِ مطلق کی ہدایت کے فریم اور واضح کئے نظم و ضبط کے مطابق ہی ممکن تھا جو نہیں ہوا اور اب آسمانی صحیفوں پر ایمان رکھنے والی دنیا میں قرب قیامت کا شور ہے۔ انسان کو کوشش، کھوج، علم و تحقیق ارتقاء اور خوب سے خوب تر کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا کمال عقل سلیم، ابلاغی صلاحیت اور بڑے بڑے طاقتور جانوروں حیوانوں کو قابو اور تابع رکھنے والی بیش بہا جسمانی ساخت سے نوازا گیا۔ تاہم، نیکی و بدی کے مطابق رحمتوں اور عنایاتِ الٰہی سے مالا مال کرۂ ارض پر زندگی گزارنے کا اختیار راہِ راست کی مکمل نشاندہی بذریعہ انبیا کرام و آسمانی صحیفوں کے ساتھ انسان پر چھوڑ دیا کہ نافرمانی کے بعد امتحان مقصود تھا۔ انسان چونکہ زمین پر بسائے جانے سے پہلے جنت کے مزے لوٹتا بھی خطا کار اور نافرمان ثابت ہوا تھا تو اس کرۂ بیش بہا پر بھی بےقابو اور اکڑ میں ہی رہا اور تمام تر احکامات و ہدایات، حصولِ علم و تہذیب کے بعد آج بھی ہے لیکن انسانِ کامل، سرور کائناتؐ، تکمیل دین، اس کے مطابق خالقِ انسان کو مطلوب انسانی زندگی کا نمونہ اور اس کی کامیابی اور برکات و حصولات کا سلسلہ بشکل نہ رکنے والا ظہور اسلام کی شکل میں چھوڑ گئے جس سے دریافتِ دنیا میں امت مسلمہ تیار ہوئی۔ یہ اسی کی دینی اور دنیاوی ذمے داری تھی کہ وہ کل عالمِ انسانی کو بمطابق احکاماتِ الٰہی اجتماعی زندگی کے لیے ایک نظام دیتی لیکن وہ عظیم کامیابیوں اور انسانی معاشرے کی ترقی و جلاکے بعد اور ساتھ ایسی بھٹکی کہ انسانی آرام و آسائش اور تعیشات کے سامان سے بھرپور اس دنیا میں آج اس کا ایک بڑا حصہ بنیادی انسانی زندگی کے لیے سسک رہا ہے اور اسلام دشمن اقتصادی سیاسی اور عسکری طاقتوں کا محتاج ہے۔

مسلمانانِ عالم کی موجودہ حالتِ زار کے حوالے سے دنیا کو تابناک اور رواں دواں رکھنے کے قدرتی ذخائر سے مالا مال بحیثیت مجموعی دنیائے اسلام کی کثیر آبادی آج نان نفقہ کے لیے مکار و ظالم اغیار اور ان کے ابتر عالمی مالیاتی اداروں کی محتاج ہے۔ اس سنگین صورتحال کے باوجود حق و سچ کے شرارے راکھ کے ڈھیر میں اپنے دبے ہونے کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ ہندوستان کی تقسیم سے ایک چنگاری شرارہ بنی تھی جسے ہم ہندی مسلمانوں نے ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کا نام دیا۔قائدین پاکستان کے عمل و عزم اور مسلمانانِ ہند کی ایمان سی تائید کے مطابق نومولود ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کو مکمل عالمی معاشرے کے لیے ایک ایسا عظیم مثالی اور قابلِ تقلید انتظامی یونٹ بننا تھا جس کی انسپریشن ریاستِ مدینہ سے ہی لینی تھی جو تمام تر رکاوٹوں اور ناکامیوں کے باوجود تادم وزیراعظم عمران خان کے سیاسی ابلاغ کا لازمہ بن چکا ہے ،یہ گناہ ہماری قوم کو جگانے، ووٹ حاصل کرنے اور پُرکشش سیاسی عزم کے حوالے سے ہمارے ملک میں بہت سہاناہے لیکن پُرعزم مطلوب عمل و اہلیت کے اعتبار سے لاحاصل اور مایوس کن۔ جبکہ پاکستان کی تاریخ کے تلخ ترین پہلوئوں کے جاری غلبے کے باوجود حوصلہ افزا پیش منظر بس اللہ کے کرم سے ہی یہ بن گیا کہ پاکستان اب جنوبی ایشیا کے راکھ کے ڈھیر میں دبی چنگاری نہیں بلکہ وہ چنگاری ہے جو ڈھیر سے نکل کر شرارے میں تبدیل ہو گئی۔

قارئین کرام! یہ تو اب ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ موجودہ عمران حکومت قیادت کے سیاسی عزم اور غریب و متوسط طبقے سے سچی ہمدردی اور اخلاص کے باوجود اپنے دعوئوں اور نااہل اور پیچیدہ حکومتی سیٹ اپ کے باعث، قیادت کی بہت مقدم سوچ اور اپنی سی کوششوں کے باوجود ادھورے عمل اور سچے عزم کو مطلوب نتائج میں ڈھالنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ گزشتہ تین سال میں موجودہ حکومت کی جملہ خامیوں کی جو نشاندہی ہوئی، ان میں اس کی منصوبہ بندی اور موجودہ ملکی پوٹنشل سے ناآشنائی، فریزڈ قدرتی وسائل کو استعمال کرنے اور اسے عمل درآمد کے لیے قابلِ عمل پروگرام میں ڈھالنے کے لیے تو کیا یہ انتخابی پروگرام کے طور پر پیش کرنے کی قابلیت و صلاحیت سے بھی یکسر عاری دکھائی دیتی ہے؟ تبھی عمومی تجزیہ ہے کہ پی ٹی آئی نے بڑی مار اپنے انتخابی سیاسی زور سے مطابقت رکھتا ہوم ورک نہ کرنے یا نہ کر سکنے کی کھائی ہے ۔

اب انتخابی مہم شروع ہونے میں ڈیڑھ سال ہی رہ گیا ہے، پی ٹی آئی کی یہ خامی دور ہوتی نہیں لگ رہی، جن کو خان صاحب نے جواہر سمجھا تھا وہ ڈیزاسٹر ثابت ہوئے۔ مخمصہ ہماری قومی سیاست کا یہ ہے کہ متبادل سیاسی امکانی قیادتیں تشویشناک حد تک مہلک اور آزمودہ ہیں۔ دوسری جانب اپوزیشن کا موجودہ رویہ اور ڈھنگ ہی واضح کر رہا ہے کہ یہ اپنی کچھ قائم پاپولرٹی کو بڑھا کر دوبارہ اقتدار میں آ گئے تو اسے اپنے سابقہ اعمال کو عوام کی طرف سے ’’ایسے ہی چلتے جائو‘‘ کا این او سی سمجھیں گے اور پھر پورے اعتماد سے پہلے سے بھی زیادہ بدتر حکمرانی کے مرتکب ہوں گے۔ موجودہ حکومت جو بہت کچھ ملکی وسائل سے کر سکتی تھی اسے کرنا تو ایک طرف، سمجھ بھی نہ پائی۔ جو کچھ بہتر کر رہی ہے وہ محدود ہے اور اسے عوام کو بتانا اور سمجھانا نہیں آ رہا۔ ایسے میں ’’آئین نو‘‘ کی آج سے شروع ہونے والی سیریز میں عوامی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کا ایک ایسا قومی مجوزہ ایجنڈہ عملی تجاویز کے ساتھ پیش کرنے کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے جو موجودہ حکومت اور تمام قومی سیاسی جماعتوں کو ایک مکمل پروپیپل ترقیاتی پروگرام پالیسی و قانون سازی اور عملدرآمد کی حکمت ہائے عملی فراہم کرے گا۔ جب پارلیمان، عدلیہ اور انتظامیہ ہی مکمل متنازعہ اور اپنے کردار اور رویے کے اعتبار سے مکمل بے نقاب ہو گئے ہیں تو اب ناچیز ہی نہیں جس کی جتنی سکت ہے عوام میں سے ہی آواز بلند کرنا ہو گی کہ کیا کیا جائے؟ کیسے کیا جائے، کون کرے، اور کب کرے؟ ان تمام سوالوں کے جواب ’’آئین نو‘‘ کی متذکرہ سیریز میں دیے جائیں گے۔