آئی ایم ایف معاہدہ اور عوامی مشکلات

November 28, 2021

آئی ایم ایف کے ساتھ حکومت کے نئے معاہدے سے پاکستانی عوام کی سماجی اور معاشی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔اسٹیٹ بینک کی خودمختاری سے جوہری اور قومی اثاثوں کے تحفظ کے حوالے سے بھی کئی سوالات پیدا ہو گئے ہیں۔ آئی ایم ایف چونکہ امریکہ کے زیر اثر عالمی ادارہ ہے اور وہ امریکی پالیسیوں کے تسلسل کے لیے قرض لینے والے ملکوں پر دباؤ بھی بڑھاتا رہتا ہے۔حکومت پاکستان کو غیرملکی قرضوں پر انحصار کی بجائے خو د انحصاری کی پالیسی اپنانی چاہیے۔ دنیا میں کسی بھی جگہ کوئی ایسا ماڈل موجود نہیں کہ کسی ملک کی آئی ایم ایف کے قرض سے معیشت ٹھیک ہوئی ہو بلکہ آئی ایم ایف کے قرض کے باعث معاشی تباہی کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ملائشیا کی معیشت کو آئی ایم ایف نے تبا ہ کر دیا تھا لیکن مہاتیر محمد کی بے باک لیڈرشپ نے آئی ایم ایف سے جان چھڑائی اور ملائشیا کو دوبارہ ترقی کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ہم بھی آج ملائشیا کی طرح آئی یم ایف سمیت دیگر عالمی اداروں کی دلدل میں پھنستے چلے جا رہے ہیں مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے پاس مہاتیر محمد اور طیب اردوان جیسی لیڈرشپ موجود نہیں ہے۔ وزیراعظم عمران خان بلندبانگ تقاریر تو کرتے ہیں لیکن وہ ان پر عمل درآمد کروانے میں ناکام رہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ موجودہ ارباب اقتدار کی نااہلی اور ناتجربہ کاری کے باعث مسائل دن بدن بڑھتے چلے جارہے ہیں۔

تحریک انصاف حکومت کا توکوئی ترجیحی ایجنڈا ہی نظر نہیں آتا۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ قوم کوکفایت شعاری کا درس دینے والوں نے گزشتہ چار ماہ کے دوران صرف قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں 72کروڑ روپے خرچ کر ڈالے ۔ کھانے پر 4کروڑ 39لاکھ روپے اور اوور ٹائم پر 82 لاکھ،پٹرول پر 83لاکھ، 12کروڑ 87لاکھ اعزازی تنخواہوں کی مد میں اور دوروں پر 3کروڑ 48لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ ہمارے حکمران تبدیلی کے نام پر ماضی کی حکومتوں کا تسلسل ہیں جو اقتدار سے لطف اُٹھانے کے سوا کچھ نہیں کررہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی کسی شعبے پر بھی توجہ نہیں۔ وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ پنجاب حکومت بھی اس حوالے سے بے بس دکھائی دیتی ہے۔آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں لاہور 350ایئر کوالٹی انڈیکس کے ساتھ پہلے نمبر ہے۔ افسوس ہے کہ انسداد ِاسموگ پالیسی پر عمل در آمد نہیں کیا جارہا۔ عوام میں سانس، گلے اور سینے کے امراض میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ رہی سہی کسر ڈینگی نے پوری کردی ہے۔ اسپتالوں میں مریض اور ان کے لواحقین خوار ہونے پر مجبور ہیں اور ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ میٹرو پولیٹن کارپوریشن لاہور اور ٹریفک پولیس کی مشترکہ ٹیمیں تجاوزات کے باعث ٹریفک جام کرنے پر گرینڈ آپریشن کرتے ہوئے دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کو موثر بنا ئیں۔ محض بیان بازی اور کاغذی پالیسیوں سے حالات ٹھیک نہیں ہوسکتے۔ کورونا کے لیے مخصوص فنڈ میں اربوں روپے کی مالی بے ضابطگیوں کے حوالے سے آڈیٹر جنرل کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف نے تحریک انصاف کی صاف شفاف اور کرپشن فری حکومت کے اصل چہرے کو بھی بے نقاب کردیا ہے۔چندروزقبل پارلیمنٹ کے اجلاس میں بھی ہنگامہ، گالم گلوچ اور ہاتھا پائی سے دنیا میں پاکستان کا منفی تاثر پیدا ہوا ۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ عجلت میں ایک ہی دن میں 33بلز منظور کیے گئے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر ایک ہی دن میں 33بلز منظور کروانا سینیٹ کو بلڈوز کرنے کے مترادف ہے۔مشترکہ اجلاس اہم مقاصد کےلئے بلایا جاتا ہے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے تحریک انصاف کی حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔حکمرانوں کو عوام کے بجائے کل بھوشن کی فکر ستائے جارہی ہے جو کہ افسوسناک اور لمحہ فکریہ ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر الیکشن کمیشن سمیت تمام جماعتوں کو تحفظات ہیں ان کو دور کیا جانا چاہئے۔یوں لگتا ہے کہ جیسے حکومت آئندہ انتخابات میں دھاندلی کے بیج ابھی سے بو رہی ہے۔عجلت میں کی گئی متنازع قانون سازی کا مقصد سیاسی مفادات کا حصول ہے۔ہمارے ارباب بست و کشادکو عوام کی فلاح وبہبود کا کوئی خیال نہیں ہے۔ مہنگائی،بے روزگاری اور سودی نظام کے خلاف قانون سازی سے حکومت کیوں گھبرارہی ہے؟ ملک کا مستقبل شفاف اور مضبوط جمہوریت سے جڑا ہے۔ وفاقی حکومت چند ووٹوں کی برتری سے عوام کے مستقبل سے کھیل رہی ہے۔سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے حوالے سے مبینہ آڈیو ٹیپ کا سامنے آنا بھی تشویش ناک امر ہے۔ اس کی فرانزک تحقیق کرواکے اصل حقائق قوم کے سامنے لائے جانے چاہئیں۔ ملک میں پائیدار جمہوریت اور سیاسی استحکام کے لیے قومی اداروں کی سیاست میں مداخلت بند ہونی چاہیے۔ ماضی میں اور اب بھی محض سیاسی مخالفین کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایاجاتا رہا ہے۔ نوازشریف اور دیگر بڑے مگرمچھوں سے قومی دولت کی ایک پائی بھی نہیں نکلوائی جا سکی۔نیب کا ادارہ بھی مشکوک ہوتا جا رہا ہے۔اب تو اس پر پلی بارگیننگ اور ریکوریوں کے حوالے سے بھی الزامات لگ رہے ہیں۔نیب لوگوں کو گرفتار کرتا ہے اور وہ ٹھوس ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے عدالتوں سے رہا ہوجاتے ہیں۔ چیئرمین نیب جاوید اقبال کو اس حوالے سے اپنی اور اپنے ادارے کی پوزیشن واضح کرنی چاہیے۔تحریک انصاف کی حکومت نے متنازعہ قانون سازی کے ذریعے اسٹیٹ بینک کے گورنر کو وائسرائے کادرجہ دے دیا ہے جو آئی ایم ایف کے سوا پاکستان کے کسی ادارے کے سامنے جوابدہ نہیں ہے۔ حیرت یہ ہے کہ ملک کی5595ارب روپے کی سرکاری زمین پر لینڈ مافیا قابض ہے۔ جب تک وزیر اعظم عمران خان کے اردگرد مافیا کا حصار رہے گا، اس وقت تک کوئی بہتر تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ ایک غیر سرکاری سروے کے مطابق پاکستان کے 87فیصد شہری ملک کی سمت کو ہی غلط سمجھتے ہیں۔ 46فیصد نے معیشت کو انتہائی کمزور جبکہ 43فیصد نے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی کو قرار دیا ہے۔ ایسے لگتاہے کہ موجودہ حکمران اپنی نا اہلی اور ناکامی کو سابق حکمرانوں پر ڈال کر راہ فرار اختیار کرنا چاہتے ہیں۔