لِٹل ماسٹرز

November 30, 2021

میں ایک دوست کے ہاں ڈِنر پر مدعو تھا، ڈِنر تھوڑا لیٹ تھا اس لیے مجھے سخت بوریت ہورہی تھی۔ اتنے میں اُن کی 6سالہ بیٹی کھیلتے کھیلتے میرے قریب آئی اور اپنے ہاتھ میں پکڑی ٹافی میری طرف لہرا کر بولی’’کھائیں گے؟‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سرہلایا اور منہ کھول دیا… اُس نے اطمینان سے ٹافی کا ریپر کھولا اور ٹافی میرے منہ میں ڈالنے کی بجائے اپنے منہ میں ڈال کر چٹخارے لیتے ہوئے بولی’’مزیدار ہے ناں؟‘‘… سچویشنل کامیڈی کے اتنے اچھے مظاہرے نے مجھے ایک دم فریش کر دیا۔ میں جب بھی کسی بچے سے گفتگو کرتا ہوں تو ایسے ایسے تخلیقی جملے سننے کو ملتے ہیں کہ ہنس ہنس کر برا حال ہو جاتا ہے۔ میرے ہمسائے میں ایک صاحب ہیں جن کے سر پر 60سال کی عمر میں بھی گھنے بال ہیں، ایک دن ان کی پوتی مجھ سے پوچھنے لگی ’’انکل! میرے دادا امیر ہیں کہ غریب؟‘‘ میں نے پیار سے کہا ’’بھئی آپ کے دادا بہت امیر ہیں‘‘۔ منہ بنا کر بولی ’’سر سے تو نہیں لگتے‘‘۔ بچے چونکہ من کے سچے ہوتے ہیں لہٰذا ان کی باتیں اتنی بےساختہ ہوتی ہیں کہ سڑیل سے سڑیل انسان بھی دانت نکالنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ بچے بعض اوقات اتنا خالص اور بےساختہ جملہ کہتے ہیں کہ شاید بڑے سے بڑا مزاح نگار بھی ایسا جملہ تخلیق نہ کر سکے۔ ایک دن میرا بڑا بیٹا لیپ ٹاپ پہ کوئی گیم کھیل رہا تھا اور چھوٹا بیٹا بار بار اُسے تنگ کرنے کے لیے چارجر کی پن نکال رہا تھا۔ کچھ دیر تو ثمریز نے برداشت کیا، پھر غصے سے بولا ’’تم اُلو ہو‘‘۔ میں نے گھورا ’’خبردار! اگر تم نے چھوٹے بھائی کو دوبارہ ایسے کہا‘‘۔ اُس نے منہ بنایا اور دوبارہ گیم کھیلنے لگا۔ میں اتنی دیر میں کسی کام سے باہر چلا گیا، واپس آیا تو چھوٹا پھر بڑے بھائی کو تنگ کر رہا تھا۔ بڑے بھائی نے محتاط نظروں سے میری طرف دیکھا پھر دانت پیس کر چھوٹے سے بولا ’’وہی ہو تم وہی ہو‘‘۔ موصوف ایک دفعہ 14اگست کے موقع پر جھنڈا خریدتے ہوئے دکاندار سے یہ بھی فرما چکے ہیں کہ ’’انکل کوئی پرپل کلر والا جھنڈا ہے؟‘‘۔ آج سے چند سال قبل میں ایک رشتہ دار کی شادی میں گیا ہوا تھا۔ اُن کے ایک چھوٹے بچے نے مجھ سے پوچھا ’’انکل آپ رائٹر ہیں؟‘‘ میں نے کہا ’’ہاں‘‘۔ یہ سنتے ہی وہ جھٹ سے بولا ’’میرے پاپا بھی رائٹر ہیں‘‘۔ میں الجھن میں پڑ گیا، کیونکہ میں اُس کے پاپا کو بچپن سے جانتا تھا، وہ تو جنم جنم کے آڑھتی تھے، تاہم اپنے اطمینان کے لیے پوچھ ہی لیا کہ ’’بیٹا آپ کو کیسے پتا چلا؟‘‘ بچہ انتہائی معصومیت سے بولا ’’وہ روز ماما کو کہتے ہیں کہ میں تمہارے خاندان کو جوتی پر لکھتا ہوں‘‘۔ میں نے ایک ٹھنڈی آہ بھری، کاش میں بچے کو بتا سکتا کہ جوتی پر لکھنے والا عموماً رائٹر نہیں اینکر پرسن ہوتا ہے۔ میری ایک کولیگ کا واقعہ بھی بڑا دلچسپ ہے، ان کے چھوٹے بیٹے نے اسکول میں پہلی بار لفظ ’’پیشہ‘‘ سنا تو ماں سے پوچھنے لگا کہ امی پیشہ کسے کہتے ہیں؟ ماں نے بتایا کہ بیٹا پیشے کا مطلب ہے کام کاج۔ بچے نے بات ذہن نشین کرلی۔ کچھ دِنوں بعد اسکول میں اُس کی ٹیچر نے پوچھا کہ بیٹا آپ کی ماما گھر میں کیا کرتی ہیں؟ اطمینان سے بولا ’’سارا دن پیشہ کرتی ہیں‘‘۔ میرے بھتیجے نے ایک دفعہ مجھ سے پوچھا کہ چاچو ’’حضرت‘‘ کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ میں نے کہا ’’حضرت کا لفظ کسی کو احترام سے بلانے کے لیے استعمال ہوتا ہے، یوں سمجھ لو کہ اس کا مطلب ہے جناب، محترم وغیرہ‘‘۔ اس نے سر ہلایا اور چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد دروازے پر بیل ہوئی، بھتیجا دوڑتا ہوا میرے کمرے میں داخل ہوا اور جلدی سے بولا ’’حضرت دادا ابو آئے ہیں‘‘۔

گود میں اٹھانے والے بچے بھی اپنے پیار کا اظہار مختلف طریقوں سے کرتے ہیں، اِنہیں جس سے زیادہ پیار ہوتا ہے اُسی کو اپنی محبت میں ’’شرابور‘‘ کرتے رہتے ہیں۔ آٹھ دس سال کے بچے اپنے بھولپن میں ایسا ایسا جملہ کہہ جاتے ہیں کہ اس پر پورا تھیسس لکھا جا سکتا ہے۔ میرے ایک دوست کے بیٹے نے ایک دفعہ ایسا ہی کمال جملہ کہا۔ انگریزوں سے ہم لوگ چونکہ بہت متاثر ہیں لہٰذا بچے کو بھی کچھ کنفیوژن تھی۔ ایک دن باپ سے پوچھنے لگا ’’ابو! کیا انگریز بھی واش روم جاتے ہیں؟‘‘۔

اب دس سال کا بچہ، بچہ نہیں رہا۔ کیبل اور انٹرنیٹ کی بدولت اسے ’’بلاتکار‘ گود بھرائی، آتما ہتیا، دوسری شادی اور ناجائز تعلقات‘‘ جیسے الفاظ سے واقفیت ہو چکی ہے لیکن وہ ان کے مفہوم اور پیچیدگیوں سے آج بھی ناواقف ہے۔ ایسے بچوں کے سوالات کچھ کچھ بڑوں والے ہوتے ہیں لیکن وہ بچے جو ابھی ’’ننھے‘‘ ہیں ان کی حیرت انگیز اور قہقہہ بار باتیں آج بھی دل و دماغ معطر کر دیتی ہیں۔ بچے کا دل جیتنے کے لیے اوٹ پٹانگ منہ بنانا ضروری ہے۔ آپ نے کئی ایسے باپ دیکھے ہوں گے جو اپنی جوان اولادوں کے سامنے مسکرانے سے بھی گریز کرتے ہیں، اِن کے چہروں پر ہر وقت ایک کرختگی چھائی رہتی ہے، اِن کی اولادیں بھی باپ کے سامنے سہمی سہمی رہتی ہیں، کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اتنی سخت گیر شخصیت کے مالک نے کبھی اوٹ پٹانگ منہ بھی بنایا ہوگا لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ یہ بھی اپنی اولاد کے بچپن میں اُن کے ساتھ کارٹون بن کر کھیلتے ہیں تاہم اولاد جوان ہونا شروع ہوتی ہے تو یہ فوراً خود پر بردباری کا نقاب چڑھا لیتے ہیں اور اولاد کو یاد ہی نہیں رہتا کہ ان کا باپ بھی کبھی مسکرایا تھا… یہ لوگ اپنی اس کیفیت کو تاعمر برقرار رکھنا چاہتے ہیں لیکن جونہی اِن کا کوئی پوتا، پوتی پیدا ہوتا ہے، اِن کو شکست فاش ہو جاتی ہے۔ یہ اپنے اندر کا کارٹون دبانے کی بڑی کوشش کرتے ہیں لیکن اولاد کی اولاد ایک ہی دن میں اِن کے اندر خودکش حملہ کرکے ساری مصنوعی دیواریں پاش پاش کر دیتی ہے۔