اومی کرون

December 01, 2021

اومی کرون ایک ایسا لفظ ہے جس سے آج سے کچھ روز پہلے تک دنیا کے چند ایک افراد ہی روشناس تھے لیکن اب دنیا کے بیشتر ممالک میں اِس لفظ کی باز گشت سنائی دے رہی ہے اور جن ممالک میں ابھی تک یہ لفظ سننے کو نہیں مل رہا، وہاں بھی آئندہ کچھ روز تک پہنچ جائے گا۔

دنیا اب کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نکل کر بہتری کی طرف گامزن تھی ، اِس وبا کے کیسوں کی تعداد میں بھی کمی نظر آ رہی تھی، پاکستان میں کچھ لوگ بیماری کے ڈر سے اور کچھ لوگ موبائل سِم بند ہونے یا دوسری خدمات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ویکسین بھی لگوا رہے تھے۔ ہوائی سفر بھی کھل رہا تھا اور کورونا وائرس کی وجہ سے لگائی جانے والی پابندیاں بھی ہٹائی جا رہی تھیں۔ 2020میں دنیا بھر میں تباہی مچانے والی وبا اب ختم ہوتی نظر آ رہی تھی اور لوگ معمول کے مسائل مثلاً مہنگائی، معاشی بدحالی اور پیٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتوں کی طرف متوجہ ہو رہے تھے کہ جنوبی افریقہ سے سامنے آنے والی اِس خبر کہ کورونا وائرس کی ایک اور نئی قسم سامنے آئی ہے، نے ایک بار پھر دنیا کو ہِلا کے رکھ دیا ہے۔

کوئی بھی وائرس ہو، وقت کیساتھ اُس میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ویسی ’’تبدیلی‘‘ نہیں جیسی پاکستان میں آئی ہےبلکہ یہ تبدیلی اُس کے جینیاتی کوڈ میں آتی ہے، اِس کو تغیر بھی کہا جاتا ہے، سائنسی زبان میں اِسے میوٹیشن کہا جاتا ہے۔بہت ساری تبدیلیاں یا تغیر ایسے ہوتے ہیں جس سے وائرس کے اثرات میں کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن کچھ تبدیلیاں بالکل ویسی ہی ہوتی ہیں جیسی ’’تبدیلی‘‘ پاکستان میں آئی ہے، یعنی ایسی تبدیلیاں وائرس کے لئے تو اچھی ہوتی ہیں لیکن اُس سے متاثرہ فرد کے لئے بہت بری۔ایسے تبدیلی کی وجہ سے وائرس کیخلاف ویکسین کا حفاظتی اثر بھی کم ہو سکتا ہے، وائرس زیادہ تیزی سے بھی پھیل سکتا ہے اور زیادہ سخت بیماری کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ جب وائرس میں اتنی زیادہ تبدیلیاں آجائیں کہ اُس کی ساخت ہی بدل جائے تو اُس کو ایک نئے ویرئنٹ کا نام دے دیا جاتا ہے۔

اومی کرون کورونا وائرس کا پہلا ویرئنٹ نہیں ہے بلکہ اِس کے بہت سارے اور ویرئنٹ بھی موجود ہیں لیکن یہ ویرئنٹ عالمی ادارۂ صحت کی طرف سے ایک تشویش پیدا کرنے والا ویرئنٹ قرار دیا گیا ہے۔ اِس سے پہلے بِیٹا ویرئنٹ اور ڈیلٹا ویرئنٹ( جن کو بتدریج برطانوی ویرئنٹ اور بھارتی ویرئنٹ کہا جاتا تھا) بھی تشویشناک ویرئنٹ قرار پا چکے ہیں۔ جب بِیٹا ویرئنٹ سامنے آیا تھا تو وہ کورونا وائرس کی سب سے زیادہ پھیلنے والی شکل بن گیا کیونکہ وہ باآسانی ایک شخصسے دوسرے شخص میں منتقل ہو جاتا تھا۔ ڈیلٹا ویرئنٹ کیساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ اومی کرون کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ شاید یہ ویرئنٹ بِیٹا اور ڈیلٹا سے بھی زیادہ تیزی سے پھیلے گا۔

کورونا وائرس کے اندر ایک سپائیک پروٹین ہوتی ہے جس کی مدد سےوہ انسان کے اندر داخل ہوتا ہے۔ ڈیلٹا ویرئنٹ میں اِس سپائیک پروٹین میں 18تبدیلیاں آئی تھیں اور اومی کرون میں 43تبدیلیاں بتائی جا رہی ہیں۔ اسی سپائیک پروٹین کو مدِ نظر رکھ کر ویکسینز بنائی گئی تھیں، اِس لئے خدشہ یہی ہے کہ سپائیک پروٹین اتنی زیادہ تبدیلیوں کے بعد ویکسین کے اثر میں نہیں آئے گا۔ ڈیلٹا ویرئنٹ میں دیکھا گیا تھا کہ بیماری ویکسین کے باوجود پھیلتی تو ہے لیکن شدت اختیار نہیں کرتی، اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اومی کرون میں بھی ایسا ہوتا ہے یا نہیں؟ اگر ویکسین کا اثر کم یا ناکافی ہو گیا تو بالکل ممکن ہے کہ اومی کرون کے حساب سے بنی ہوئی ویکسین ہی لگوانا پڑے گی۔ ابتدائی طور پر جنوبی افریقہ میں جہاں پر اومی کرون کی شناخت ہوئی ، وہاں اسپتالوں میں زیادہ تو وہی مریض ہیں جن کو ویکسین نہیں لگی تھی۔

لیکن یہ وقت پریشانی کا نہیں ہے، سچ یہ ہے کہ ابھی سائنسدانوں کو بھی اومی کرون کے بارے میں اِتنا زیادہ علم نہیں ہے۔ بہت سے اہم سوالات کے جوابات آنے والے دو ہفتوں میں سامنے آئیں گے۔ بہت سے ممالک اومی کرون کے پیش نظر ابھی سے پابندیاں لگا رہے ہیں۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ جب تک ایک نئے ویرئنٹ کی شناخت ہوتی ہے وہ دنیا کے بیشتر ممالک میں پھیل چکا ہوتا ہے۔ اللہ نہ کرے لیکن ہو سکتا ہے کہ کچھ وقت تک پاکستان میں بھی یہ ویرئنٹ پہنچ جائے ۔

اب یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کیا یہ ویرئنٹ ڈیلٹا ویرئنٹ سے بھی زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے یا نہیں؟ اگر ایسا ہوا تو دنیا میں ڈیلٹا ویرئنٹ کے بعد یہ ویرئنٹ غالب آ جائے گا۔ اور اگر یہ ویرئنٹ پہلے سے کورونا سے متاثرہ افراد کو دوبارہ متاثر کرنا شروع کردے گا تو یہ بھی ایک مشکل صورتحال بن سکتی ہے۔ یہ تو وقت اور تحقیق سے ہی پتا چلے گا۔

اِس نئے ویرئنٹ کے سامنے آنے میں ہم سب کا بھی قصور ہے۔ سب سے زیادہ قصور اُن امیر ممالک کا ہے جنہوں نے دنیا میں کورونا کی ویکسین عام کرنے سے پہلے اپنے ہاں بوسٹر اور بچوں کو ویکسین لگانا شروع کردی جس کی وجہ سے وائرس پھیلتا رہا اور اُس میں تبدیلیاں آتی رہیں۔ دوسرا قصور اُن لوگوں کا ہے جو ابھی تک ویکسین نہیں لگوا رہے اور اِس وبا کے بارے میں غلط معلومات پھیلاتے ہیں۔

اب اگر نئی ویکسین یا بوسٹر کی ضرورت پڑی بھی تو اِس ضمن میں خوش آئند بات یہ ہے کہ ہمارے پاس انفراسٹرکچر اور مینو فیکچرنگ کپیسٹی موجود ہے۔ لیکن اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہر چند ماہ کے بعد کورونا وائرس کا کوئی نیا ویرئنٹ سامنے نہ آئے تو ہمیں زیادہ سے زیادہ اور ہر ایک فرد کو ویکسین مہیا کرنا پڑے گی۔ بلا شبہ ہمیں کورونا سے ڈرنا نہیں بلکہ اِس کیخلاف لڑنا ہے لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ ہمیں اِس وائرس کے ساتھ ہی رہنا پڑے گا ۔کورونا کیساتھ رہنے کی اِس حقیقت کو تو ہم اب بدل نہیں سکتے لیکن یہ اب بھی ہمارے اختیار میں ہے کہ کورونا کے نئے ویرئنٹس کو سامنے آنے سے روکنا ہے یا نہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)