مہنگا سماں اور اس کا متبادل

December 05, 2021

حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
کہتے ہیں کہ کسی چیز کے دام بڑھ جائیں تو اس کا استعمال کم کر دینا چاہئے یا پھر اس کا متبادل ڈھونڈ لینا چاہئے۔ اس فلسفے کو لوگ اگر سمجھ جائیں تو بہت فائدہ ہو مگر ہمارے عوام چینی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہیں کہ گڑ کی افادیت انہیں نظر ہی نہیں آرہی۔ گوشت کی جگہ دال کو پذیرائی مل کر نہیں دے رہی، مرغ مچھلی کی جگہ میتھی پالک کو گھر کی مرغی دال برابر ہی سمجھ کر کھا لیجئے توصحت کیلئے مفید ہے۔ کون کہتا ہے کہ مہنگائی صرف حالیہ دور کا مسئلہ ہے یہ تو ازل کا شکوہ ہے۔ حضرت علیؓ کے زمانہ خلافت میں مکے کے اندر کسی موقع پر کشمش کی قیمت بہت بڑھ گئی لوگوں نے آپؓ کے علم میں یہ معاملہ لایا اور شکوہ کیا۔ آپؓ نے پھر یہ تجویز پیش کی کہ تم لوگ کشمش کے بدلے کھجور استعمال کیا کرو کیونکہ جب ایسا کرو گے تو مانگ کی کمی سے کشمش کی قیمت گر جائے گی اور وہ سستی ہو جائے گی تو پھر اگر نہ بھی سستی ہوئی تو کھجور اس کا بہترین متبادل ہے۔ مہنگائی کے ادوار کا جائزہ لیا جائے تو ہر دور میں مہنگائی کے ہاتھوں عام عوام کو تنگ ہوتے دیکھا گیا ہے۔ 1970ء کے اخبار اٹھا کر دیکھ لیجئے وہاں بھی چینی کی قلت کی خبر شہہ سرخیوں کیساتھ نظر آتی ہے۔ ہمارے ملک کے سیاستدانوں نے حالات کو ہمیشہ تلخ و ترش ترکئے رکھا اس لئے عوام کو چینی کی ضرورت رہتی ہے وہ چینی سے اپنے حالات میٹھے کرتے رہے ہیں۔ گڑ تو میٹھا نہیں بس چینی ہے۔ حال ہی میں ایک تحریر نظروں سے گزری جس میں بتایا گیا کہ ہر پاکستانی پر قرض کا بوجھ ایک لاکھ 33 ہزار سے بڑھ کر 2 لاکھ 35 ہزار پہنچ گیا۔ حکومت پاکستان کا قرضہ 50 کھرب روپے ہوگیا جس میں 20 کھرب عمران خان حکومت نےصرف تین سال میں بڑھے۔ سنا یہ بھی ہے کہ آئی ایم ایف نے مزید قرض آسانی سے نہیں دیا ویسے تو مہنگائی حصہ ہے ہر دور کا اور ابھی شکر ہے کہ کچھ ایسے واقعات گردش نہیں کر رہے جو رسولؐ سے متعلق ہیں ورنہ عوام صبر کرلے اور حکمران وہی واقعات دہرانا شروع کردیں جیسے حالیہ حالات میں حکومت ریاست مدینہ کی تسبیح سے عوام کو متاثر کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ چنانچہ سن لیجئے۔ بلکہ بہت سے لوگوں کو معلوم بھی ہو کہ ایک مرتبہ آپؐ کی خدمت میں بعض صحابہ کرام تشریف لائے اور آپؐ سے عرض کی کہ گرانی بڑھ گئی ہے لہذا اشیائے خوردنی کے نرخ کے تعین کی بات کی۔ لیکن آپؐ نے انکار کردیا اور ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ قیمتوں میں کمی اور بیشی کرتا ہے‘‘ یہ حدیث اگر حکمران بیان کرنے لگیں تو واقعی عوام کو صبر آجائے اور تمام حالات عوام کو سمجھ بھی آجائیں۔ تاریخ میں اگر دیکھا جائے تو بہت سے واقعات ملتے ہیں جہاں قحط سالی، بھوک سری اور مہنگائی جیسی جان لیوا پریشانیوں کا سامنا رہا۔ ایک واقعہ پڑھ کر دل دہل گیا کہ عباسی دور کی مہنگائی سب سے خطرناک تھی شایدایتھوپیا، افریقی دوسرے ممالک اور تھر کے علاوہ جہاں بھی قحط سالی اور بھوک ننگ رہتی ہے۔ عباسی دور میں قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے اشیائے خوردونوش اور دوسری روزمرہ کی چیزیں رعایا کی پہنچ سے دور ہوگئیں۔ اف اللہ ایسے حالات اب کبھی نہ ہوں ویسے دیکھا جائے تو سائنس اگر اتنی ترقی نہ کرتی اور دنیا بھر میں کولڈ سٹورز نہ ہوتے کہ جہاں فوڈ کو سٹور کیا جاتا، پھر دوسری اشیاء کو محفوظ کرنے کے ذرائع نہ ہوتے تو کافی حد تک کورونا دور میں قحط پڑنے لگا تھا۔ اگر ایسا دور اس زمانے میں آجائے تو اتنے برے حالات پھر بھی نہ ہونگے کچھ نہ کچھ تو سائنس اور سائنسدانوں کا کارنامہ تو سامنے آتا ہے۔ عمران خان کے دور میں ایسے حالات ہوں تو ان کےپاس تو ہر چیز کا متبادل ہے ان کے پاس دیکھا جائے تو سکون کا متبادل بھی ہے کہ اگر خوشحالی نہیں ہے تو سکون بھی نہیں ہے تو ایسی صورت میں قبر میں چلے جایئے وہاں سکون مل جائے گا اس طرح جانوروں کی قلت اور گوشت کا قحط پڑے تو خان صاحب فرمائیں گے کہ ’’یہ گوشت نہیں بلکہ درختوں کے پتے، شاخیں اور درخت توڑ کر کھائو آوارہ جانوروں کے گوشت کا متبادل درختوں کے پتے ٹہنیاں ہیں۔ مزید یہ بھی کہیں گے کہ دیکھا میں نہ کہتا تھا کہ شجر کاری کروِ اب پتہ چلا نا مہنگائی کے سماں میں یہ ہی شجر کاری کام آئی ہے ورنہ آپ بھوکے مر جاتے میرے دور میں۔ ایک سال پہلے جب کووڈ عروج پر تھا اور مزدوروں سے انکی نوکری چھن گئی تھی فاقے تو مزدور طبقے نے دیکھے ہیں اور ان مزدوروں کو دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ ان کی آنکھوں کی وحشت میں تمام کہانی بھوک ننگ کی دکھائی دے رہی تھی وہ بھی ایسے جھپٹ رہے تھے جسے آپ کو بھی کھانے کے سامان کیساتھ کھا جائیں گے۔ ہم نے ہر چیز کا متبادل ڈھونڈ لیا یا نہیں ڈھونڈا مگر ہماری مصیبتوں اور پریشانیوں کا متبادل سچے دل سے کی گئی عبادت ہے کہ عبادت ہی صبر اور سکون دیتی ہے۔ شکر کیجئے ابھی تو صرف مہنگائی ہے اگر کورونا کی مختلف اقسام ہم سے چمٹ گئیں تو ہم جانبر نہ ہو سکیں گے اور مہنگائی کے مخمصے میں ہی گم ہو کر نکل جائیں گے۔