بچوں کی تربیت اور تعلیمی کارکردگی

December 12, 2021

والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تمام ضرورتیں اور خواہشات پوری کریں، جس کے لیے وہ اپنی تمام کوششیں اور انتھک محنت کرتے ہیں۔ والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے زندگی کی دوڑ میں سبقت لے کر معاشرے کا کارآمد فرد بن جائیں، اسی لیے وہ انھیں بہتر سے بہتر تعلیم بھی دلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود جب بچوں کے امتحان میں نمبر کم آتے ہیں تو بیشتر والدین فطری طور پر پریشان، مایوس اور غصے کا شکار ہوجاتے ہیں۔

ان کی سمجھ نہیں آتا کہ آخر ایسا کیا کیا جائے جس سے بچے کی کارکردگی میںبہتری آسکے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال میں والدین کو چاہیے کہ بچوں سے بات کریں اور ان کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کریں ورنہ بہتری کے بجائے صورتحال مزید پیچیدہ ہوسکتی ہے۔ والدین کی جانب سے سپورٹ نہ ملنے پر اگر ان میں اعتماد کی کمی ہوجائے تو ان کے اندر بہتر کارکردگی دکھانے کا خوف پیدا ہوجاتا ہے اور یہ چیز ان کی تعلیمی کارکردگی پر منفی اثر ڈالتی ہے۔

والدین کی نظر سے دیکھیں تو وہ بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے ان سے اچھے نتائج کی توقع کرتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ چاہتے ہیں کہ وہ دوستوں اور عزیز و اقارب کے درمیان اپنے بچوں کی تعلیمی کارکردگی فخریہ بیان کرسکیں۔ تاہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر بچہ ایک جیسا نہیں ہوتا اور نہ ہی ہر کوئی اوّل پوزیشن حاصل کرپاتا ہے، ہاں بہتر کارکردگی کی توقع ضرور کی جاسکتی ہے۔ ماہرینِ نفسیات اور اسکولوں کے پرنسپلز سے جب بچوں پر والدین کے بے جا دبائو کے متعلق بات کی گئی تو یہ بات سامنے آئی کہ والدین کی بچوں سے حد سے زیادہ توقعات انھیں ذہنی دباؤ کا شکار کردیتی ہیں اور یوں ان کی تعلیمی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔

کسی بھی شخص کی زندگی میں تعلیم صرف پیشہ ورانہ زندگی میںکامیابی کی ضمانت نہیںہوتی بلکہ بہتر طرزِ زندگی گزارنے کا بھی ہنر سکھاتی ہے۔ بچے تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف مہارتیں بھی سیکھتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی توجہ بٹ جاتی ہے اور کہیں نہ کہیں دیگر چیزوں پر سمجھوتہ ہو جاتاہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ بچے زندگی گزارنے کے طور طریقے سیکھ ہی جاتے ہیں مگر درحقیقت زندگی کی مہارتیںہی انھیں خود انحصاری اپنانے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر بچہ دوسرے سے مختلف اور اپنی فطرت پر پیدا ہوتاہے۔ وہ اپنے والدین سے مختلف ہوسکتا ہے، اس کی وجہ شاید بدلتی ہوئی ٹیکنالوجی ہے، جس کی وجہ سے بچہ اپنے والدین کے زمانے سے آگے ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر والدین بچوں کی تربیت اور پرورش ویسی ہی کرنی چاہیں جیسے ان کی گئی یا جیسے انھیں بچپن میںپڑھایا گیا تو مسئلہ گمبھیر ہوسکتا ہے۔ والدین کو اپنے بچوں کا دوسرے بچوں سے موازنہ کرنے یا بچوں کو کسی دوسرے کی طرح بننے کا کہنے سے گریز کرنا چاہئے بلکہ ان کی شخصیت نکھارنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بچے وہی کرتے ہیں جو وہ اپنے والدین کو کرتا دیکھتے ہیں۔ لہٰذا، بچوں کو اگر کچھ سکھانا ہے تو والدین کو چاہیے کہ وہ پہلے خود عمل کریں، بچے خود ہی ان کو دیکھ کر وہ عمل اپنا لیں گے یا کوئی کام سیکھ جائیں گے۔ اس سلسلے میں والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کے اساتذہ اور دوستوں سے پُرمغز بات چیت کریں کیونکہ یہ عمل ان کے امتحانات میں نمبر حاصل کرنے سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ بچوں کی سنیں، ان کے خیالات جانیں کیونکہ اس سےانھیں اعتماد اور حوصلہ ملتا ہے کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار والدین سے بآسانی کرسکتے ہیں۔

ایسا کرنے کا فائدہ یہ بھی ہے کہ بچے نت نئے آئیڈیاز پر سوچتے اور ان پر بات کرتے ہیں، ساتھ ہی انھیں زمانے کی اونچ نیچ سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ موجودہ زمانے میں ہر چیز میں مقابلے کی فضا قائم ہے، جو ایک حد تک تو مثبت ہوتی ہے مگر اکثر اوقات اس کے منفی نتائج سامنے آتے ہیں۔ مثبت باتوں یا کاموں میں ایک دوسرے سے آگے نکلنا معاشرے کے لیے بہتر ہوتا ہے لیکن غیرضروری سرگرمیوں یا رجحانات میں مقابلہ بازی منفی کردار ادا کرتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو مثبت سرگرمیوں میں مقابلہ کرنے کی ترغیب دیں اور غیرضروری معاملات میں مقابلہ کرنے کے رجحان کی نفی کریں۔ اس حوالے سے ذیل میں دی گئیں کچھ تجاویز پر عمل کیا جاسکتا ہے۔

دوسروں کی عزت

ہمارے مذہب اور معاشرے میں بڑوں کی عزت اور چھوٹوں سے شفقت سے پیش آنا سکھایا جاتا ہے۔ یہ چیز بچپن سے ہی بچوں کو زبانی بتائی جاتی ہے لیکن اگر والدین خود اس پر عمل نہیں کرتے تو بچے اس کا منفی اثر لیں گے۔ لہٰذا اپنی حرکات و سکنات سے دوسروں کی عزت و احترام کو ملحوظ خاطر رکھیں تاکہ بچے بھی ویسا ہی کریں۔

غیر نصابی سرگرمیاں

تعلیم حاصل کرنا زندگی کا لازمی حصہ ہے لیکن بچے ہروقت صرف کتابیں نہیں پڑھ سکتے۔ انھیں اردگرد ماحول اور مشاغل سے بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ غیر نصابی سرگرمیوں میںحصہ لینے سے بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما ہوتی ہے اور صحت پر بھی اچھے اثرات پڑتے ہیں۔ بچوں کو کچھ نیا سیکھنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کریں۔

لطف اندوز ہونا

بچوں کو بات بات پر یا معمولی غلطیوں پر ڈانٹنا درست نہیں۔ بچے غلطی کرتے ہیں، اس پر انھیں سمجھائیں اور اگلی دفعہ بہتری لانے کا طریقہ بتائیں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ غلطیوں سے انسان کافی کچھ سیکھتا ہے۔

مشاہدات سے سیکھنا

والدین کو چاہیے کہ بچوں کے سامنے مختلف حالات رکھیں تاکہ وہ مشاہدہ کرسکیں۔ ا س طرح بچوں کو صحیح اور غلط کے درمیان فرق سمجھنے کا موقع ملے گا اور ان میں عزتِ نفس اور اعتما د پیدا ہوگا۔