سارک پنجابی کانفرنس

August 23, 2013

یوں تو کہنے کو پنجاب آرٹس کونسل ہے، پنجابی ادبی بورڈ ہے، پنجابی کلچر کمپلیکس ہے، وہاں ہوتا کیا ہے، یہ نہیں معلوم۔ یہ سب اچانک مجھے کیوں یاد آگیا۔ میں گئی تھی پٹیالہ۔ میں اکیلی نہیں تھی، حارث خلیق اور ثروت محی الدین میرے ساتھ تھے۔ وہاں پر ورلڈ پنجابی فورم کی جانب سے سارک پنجابی کانفرنس کی گئی تھی۔ یاد آیا، ایسا ایک فورم تو فخر زماں نے بھی بنایا تھا آج کل سنا ہے ان کی طبیعت بھی خراب ہے اس لئے ان کی سرگرمیاں معطل ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے پنجابی سے متعلق سارے ہی اداروں کی سرگرمیاں معطل ہیں مگر معطل تو وہاں ہوتی ہیں، جہاں ہو رہی ہوں یہاں تو پورے پنجاب میں مطلع بالکل صاف ہے۔ سوائے ڈاکٹر انوار احمدکے، جنہوں نے ”پیلو“ کے نام سے ایک سہ ماہی پرچے کا آغاز کیا ہے جس کی ادبی حیثیت بھی خوب ہے۔ اس میں پنجابی، سرائیکی اور اردو کے مضامین اور شعریات شامل ہیں۔ علاوہ ازیں 60% آبادی کے اس صوبے میں نہ کوئی پنجابی ادبی سرگرمی ہے اور چونکہ یہ ادارے بھٹو صاحب کے زمانے سے قائم ہیں اس کو اس لئے عمر رسیدہ تو کہا جا سکتا ہے، زندہ نہیں کہا جا سکتا ہے۔
ہم لوگ پہنچ گئے پٹیالہ، کہنے کو تو یہ دو روزہ کانفرنس تھی مگر منتظم ہو ڈاکٹر دیپک اور موضوعات ہوں کم از کم بیس تو آپ کو آدھے گھنٹے کی کھانے کی فرصت مل جائے تو غنیمت سمجھو۔ کانفرنس میں امریکہ اور انگلینڈ سے بھی اپنے خرچے پر آئے ہوئے مندوبین سے ملاقات ہوئی یہ الگ بات کہ وہ تمام مندوبین اس بات پر زور دے رہے تھے کہ انہوں نے کتنے گردوارے بنائے ہیں، وہاں کتنے لوگ مفت کھانا کھاتے ہیں اور کتنے مسافر وہاں رہ سکتے ہیں۔ ان باتوں کو سن کر سیخ پا ہو کر ثروث نے کہا کہ ہم یہ سننے آئے ہیں کہ آپ نے پنجابی کے فروغ کے لئے کیا کیا، نہ کہ آپ نے کتنے گردوارے بنائے ہیں۔ ثروت کے اس فقرے پر بہت تالیاں بجیں۔ میں نے جب پنجابی میں شعر کہنے والوں میں استاد دامن، صوفی تبسم اور احمد راہی کا نام لیا تو بہت داد ملی۔ نجم حسین سید اور باقی صدیقی کے شعر بھی ان کے لئے نئے تھے کہ نجم کو تو وہ لوگ پڑھتے رہتے ہیں مگر دیگر شعراء کے بارے میں اس لئے وہ بے خبر تھے کہ صرف ایک یونیورسٹی میں شاہ مکھی کا 100 نمبر کا پرچہ ہے، باقی جگہ پاکستانی پنجابی پڑھائی ہی نہیں جاتی ہے چونکہ سارک ممالک کے ثقافتی تعلقات کا موضوع بھی زیر بحث تھا حارث نے اپنے مضمون میں ہندوستان پاکستان کے ثقافتی تعلقات کے حوالے دیئے جبکہ ثروت نے زور دیا کہ گروگرندھ صاحب میں میاں میر اور بابا فرید کے اس قدر حوالے ہونے کے باوجود، ان زعماء کے حوالے سے ہندوستانی پنجاب میں بہت تحقیق نہیں ہوئی ہے جس کی کہ ضرورت ہے اور اگر ہوئی ہے تو ہمارے ملک میں بے خبری تحریر ہے۔
گرمی اور حبس نے کہاکہ مہمانوں کی تواضع ہم کریں گے کیا عالم تھا کہ ہرمندوب، پسینے میں ڈوبا کھانے کے لئے آرہاتھا۔ جس کو جہاں امان ملتی تھی، اس ٹھنڈے کمرے میں زمین پہ،کرسی پر نہیں تو کھڑے ہو کر کھانا کھاتا اور پسینہ خشک کرتا تھا۔ آڈیٹوریم کے اے سی بھی لگتا تھا ساتھ چھوڑ گئے ہیں مگر کمال تو یونیورسٹی اسٹاف اور طلباء طالبات کا تھا کہ کرسیوں پر جگہ نہیں ملی تو سیڑھیوں پر بیٹھے سن رہے ہیں۔ سارک کی دستاویزی فلموں کا مقابلہ بھی تھا۔ جس میں ایک پاکستانی نوجوان نے اپنے آپ ہی بچوں کی پڑھائی اور بچوں کو استادوں کے مارنے کے بارے میں فلم پیش کی تھی، اس کو اسپیشل انعام ملا۔ البتہ صوفی میوزک شام اعلیٰ درجے کی نہیں تھی کہ گانے والے نے اپنا نام ہی صوفی رکھ لیا تھا۔ خود جو کچھ بھی تک بندی کی تھی وہ سنائے جا رہا تھا۔ ہم اٹھ آئے اور کمرے میں آکر خالد حسین نے ملکہ پکھراج کے زمانے سے متعلق کہانی پنجابی میں سنائی، بڑا لطف آیا۔ پرانی گانے والوں کی باتیں کیں اور جیسے ہی کانفرنس ختم ہوئی اور امرتسر کے سفر پر روانہ ہوئے بارش نے ہمارا استقبال کیا۔ سارے راستے کبھی تیز اور کبھی ہلکی بارش سے ملاقات ہوتی رہی۔ حویلی جالندھر پہ رک کر سوچا، بہت پنیر کھا لیا اب صرف پکوڑے کھاتے ہیں۔ پر کیا کرتے وہاں پکوڑے بھی پنیر والے تھے۔ امرتسر پہنچتے ہی اعلان کیا کہ پروٹین یعنی گوشت، مرغی اور مچھلی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ میرے بھائی امرپال اور کنول جیت نے اتنی مچھلی اور مرغی کھلائی کہ ہم نے ہاتھ جوڑ دیئے۔ واپسی پہ ارادہ تھا کہ امرتسری کلچے کا ناشتہ کر کے جائیں گے مگر کنول جیت کی بیوی پریتی نے اتنی ساری چیزیں بنا لی تھیں کہ کلچوں کا ارادہ اگلے وزٹ کے لئے ملتوی کرنا پڑا۔ صبح اٹھی تو دیکھا کہ اسیس پال اور حارث گولڈن ٹمپل سے واپس آگئے تھے۔ بارش تھی کہ ہمیں لاہور تک چھوڑنے آئی۔
اسلام آباد آکر خالدحسین کی کہانیاں پڑھیں۔ وہ تمام ظلم اور تمام فوجیوں کا ایک دوسرے کے لوگوں پر مارکٹائی کرنا۔ دونوں علاقوں یعنی دونوں کشمیر کے لوگوں کا اپنے اپنے علاقوں کا یادکرنا اور پھر رونا۔ سری نگر کے مولویوں کا بھی وہی پرانے زمانے کے فتوے دینے کا طریقہ وہی سرحد پار سے مظفر آباد آنے والے لوگوں کے نوحے بالکل اس طرح جیسے دوستی ٹرین کے ذریعے پرانے بزرگوں کا دونوں ملکوں کے بیچ آنسوؤں اور نوحوں سے یادوں کو تحریر کرنا۔ مجھے ڈاکٹر حامدی کشمیری کی شاعری اور تحریریں بھی یاد آئیں۔ مجھے بار بار احساس ہوا کہ ہمارے کشمیر میں بھی ایسی کہانیاں لکھی جا رہی ہوں گی۔ کوئی دوست بتاسکے تو بہت اچھا ہو۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ آج کل تو انڈین میڈیا اور نوجوانوں کو پاکستان کا ہسٹریا ہوا ہواہے۔ ہم بھی حافظ سعید کی تقریر سنواتے ہیں اور وہ مودی کی،کہتے ہیں غلطیوں کو دہرانا نہیں چاہئے۔ فرانس اورجرمنی نے دو سو سال تک لڑ کر دیکھ لیا ہم نے 63 سالوں میں سوائے نفرتوں کے کچھ حاصل نہیں کیا مگر مجھے تو پٹیالہ اور امرتسر میں محبتیں ملیں۔