انقلاب کی باتیں

August 24, 2013

کوئی چالیس برس پہلے، ہندوستانی فلموں میں ایک منظر بہت عام تھا۔ کالج کا آوارہ نوجوان، گریبان چاک، جیب سے پھانک، جب کارخانے دار کی پٹاخہ صاحب زادی سے شادی میں ناکام ہو جاتاتو دس پندرہ لڑکوں کے ساتھ ایک جھنڈا اٹھائے گلی میں نکل آتا تھا اور نعرہ بلند کرتا تھا، ’انقلاب زندہ باد‘۔ انقلاب کا یہ نعرہ، کسی واضح سیاسی فکر کی عدم موجودگی میں، بے بسی اور جھنجلاہٹ کا بے معنی اور بودا اظہار تھا۔ یہ فلمی ’انقلاب‘ گویا سیاست کے فلسفہ انقلاب کی بھونڈی نقل تھا۔
بھارت تو شاید انقلابی چیخ و پکار کی منزل سے آگے نکل گیا ہے ۔ ان دنوں پاکستان میں انقلاب کی یہ وباء بے طرح پھیلی ہے۔ میاں شہباز شریف اچھے خاصے سیاست دان تھے۔ تاہم پرویز مشرف کے عہد بے اماں کے تجربے کے بعد ان کی ایسی کایا کلپ ہوئی کہ 2008ء کے انتخابات کے بعد پنجاب میں حکومت بنائی تو اچھی بھلی آئینی اصطلاح ’وزیر اعلیٰ‘ ترک کرکے ایک تو خادم اعلیٰ ہو گئے اور دوسرے اٹھتے بیٹھتے خونیں انقلاب کا تذکرہ بھی کرنے لگے۔ خیر وہ پانچ برس بھی کٹ گئے۔ 2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نواز نے وفاق میں حکومت بنائی لیکن پنجاب میں تو گویا جھاڑو ہی پھیر دیا۔ دو تہائی اکثریت کی علامتی حدود سے بھی کہیں آگے نکل گئی۔ شہباز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے اور اس ٹھسے سے کہ وفاق میں برادر بزرگ وزیر اعظم ہیں۔ صدر مملکت کے انتخاب میں مسلم لیگ کے امید وار کو کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بلوچستان میں مخلوط حکومت کا حصہ ہیں۔ کوئی دن جاتا ہے کہ ایوان بالا میں بھی مسلم لیگ اکثریت حاصل کر لے گی۔ گویا رنگ آسمان بدل گیا مگر میاں شہباز شریف صاحب کا رنگ سیاست نہیں بدلا۔ کسی نے شعیب بن عزیز کو ان کے نفیس شعری ذوق کی قسم دی ہو گی کہ ’خادم اعلیٰ‘ کا لفظ اب سننے میں نہیںآ تا۔ مگران کے حوالے ’ انقلاب ‘ کی بات اب بھی سننے میں آتی رہتی ہے۔ کوئی انہیں یہ بھی کو بتا دے کہ انقلاب حکومت کے خلاف آیا کرتے ہیں۔ اب انقلاب کی آنچ پرویز مشرف یا آصف زرداری تک نہیں پہنچے گی، اگر اس کا دھواں اب کہیں اور سے اٹھے گا۔
ایک ان ہی پر کیا موقوف ہے، معلوم ہوا کہ جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ بھی انقلاب کا دعویٰ رکھتی ہے۔ کامریڈ لال خان بھی انقلاب کا نام لیتے ہیں اور عابد حسن منٹو بھی۔ سرگودھا اور راجن پور میں ذات پات کے نام پر ووٹ بٹورنے والے بھی انقلاب کا نام لیتے ہیں۔ سنا ہے انہیں بھی سامراج کی مخالفت کا تتا پانی درکار ہے جو ہزاروں برس قدیم قبائلی نظام میں عورتوں کی بدترین محکومی کی نشاندہی کی ہمت نہیں رکھتے۔ انقلابی منجدھار کے کچھ شناوروں نے پختون ولی میں انقلابی روح دریافت کی ہے۔ کچھ بلند ہمت ایسے ہیں کہ ان کے انقلاب کو صوفی شاعروں کے کلام پر وجد آتا ہے۔ سنا ہے، طاہر القادری بھی انقلاب لانے نکلے تھے۔ دنیا بھر کے اعلیٰ ترین اداروں سے تعلیم پانے والے بھی آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں۔ بہت سے انقلابیوں نے پاکستان چھوڑ کر یورپ، امریکہ میں بستیاں بسا لی ہیں اور وہیں ایک عدد زوجہ اور نصف درجن ذریات کی انقلابی بٹالین لئے زفافی مورچوں میں سامراج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بیٹھے ہیں۔ اب سے چند برس ادھر انقلاب کی ایک دھجی اعتزاز احسن کے ہاتھ بھی آ گئی تھی جسے وہ وکیل لوگوں کے جلسوں میں لہراتے تھے۔ اطلاعات کے مطابق لاہور اور کراچی کے مہنگے بوتیک سے ہزاروں روپے مالیت کا عبایا خرید کر چہرہ چھپانے والی خواتین میں بھی انقلاب کا ذوق فراواں ہے۔ ابتسام ظہیر، جاوید غامدی اور مولانا سمیع الحق کے جملہ پیرو کار بھی اپنے اپنے رنگ میں اسی انقلاب نامی ” شوخ “ پر فدا ہیں۔ اب یہ گتھی تو پیپلز پارٹی کا کوئی جیالا ہی کھول سکتا ہے کہ مصطفی کھر اور حنیف رامے میں اصل انقلابی کون تھا۔
یادش بخیر، اردو ادیب حسن عسکری نے کبھی پاکستان کے قیام کو انقلاب قرار دیا تھا۔ اب سنا ہے پاکستان توڑنے کی بات کو انقلابی سمجھا جاتا ہے۔ اقبال مرحوم نے قرآن کو اس بنا پر مظلوم کتاب قرار دیا تھا کہ جو اٹھتا ہے اس کی ایک تفسیر لکھ دیتا ہے۔ یہاں انقلاب کے ساتھ کچھ ایسی ہی واردات نظر آ رہی ہے۔ چراغ حسن حسرت زندہ ہوتے تو انہوں نے اپنے مخصوص لب و لہجے میں پھبتی کہی ہوتی ، ’مولانا ، اتنی بہت سی تعبیروں میں تو آپ کے انقلاب کا خواب کسی قدر پریشان ہوتا نظر آتا ہے‘۔ نہ ہوا سعادت حسن منٹو، ورنہ وہ ضرور لکھتا، ”انقلاب نہ ہوا، سالا غریب کی جورو ہو گیا“۔
مسلکِ انقلاب کے ہم ایسے منحرفین کے لئے یہی بہتر ہے کہ ان گیانیوں کے اشلوک چھوڑ کر فرہنگ آصفیہ سے رجوع کریں۔ مولوی سید احمد دہلوی نے انقلاب کے معنی ’تغیر و تبدل، الٹ پھیر ، الٹ پلٹ، گردش ، دور‘ دیے ہیں۔ جب قدیم اجتماعی بندوبست اور نظام انسانی سماج میں سامنے آنے والے نئے ذرائع پیداوار اور ان کے نتیجے میں بننے والے پیداواری رشتوں کو جذب کرنے میں ناکام ہو جائے تو ایک ایسی بنیادی تبدیلی جو پرانے سیاسی، معاشی اور معاشرتی ڈھانچوں کو یک قلم مسترد کر کے انسانی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز کرے ، سیاسی اصطلاح میں اسے انقلاب کہتے ہیں۔ اب اس میں ایک نکتہ تو یہ ہے کہ محض مقتدر گروہ کی تبدیلی کو انقلاب نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس میں ’نئے ذرائع پیداوار اور ان کے نتیجے میں بننے والے نئے پیداواری رشتوں‘ کی شرط پوری نہیں ہوتی۔ اسی طرح محض خون خرابے یا شکست و ریخت کو بھی انقلاب نہیں کہتے۔ ورنہ ہر ریاست کا انہدام انقلاب کہلاتا اور ہر عسکری شکست یا خانہ جنگی انقلاب پر منتج ہوتی۔ اسی طرح اگر کوئی بادشاہت یا خلافت کے قیام کا خواہش مند ہے تو کسی قدیم نظام کے احیاء کی اس کوشش کو بھی انقلاب نہیں کہا جا سکتا ۔ کیونکہ انقلاب پیچھے کی طرف نہیں، آگے کی سمت بڑھنے کا نام ہے۔ قدیم ڈھانچوں کے احیاء سے وہ تضادات تو دور نہیں ہو سکتے جو نئی زمینی حقیقتوں کے باعث پیدا ہوئے ہیں۔ اگر ماضی کا کوئی سانچہ ، نئے بندوبست کے تقاضے پورے کر سکتا تو متروک کیوں ہوتا۔ کوئی نظام کسی سازش کا شکار نہیں ہوتا، اپنے عہد کے معاشی، سماجی اور سیاسی تقاضوں سے پیچھے رہ جانے کے باعث منہدم ہوتا ہے۔
یہ تو آپ کو یاد ہو گا کہ علی گڑھ کے ایک بزرگ نے اب سے کوئی سو برس پہلے اعلان کیا تھا کہ دنیا کی دوسری قوموں کی ترقی آگے بڑھنے میں ہے مگر ہماری (مسلمانوں کی) ترقی پیچھے کی طرف جانے میں ہے۔ اس قول فیصل کے بہت بعد عباس تابش نے لکھا۔
ہمارے پاؤں الٹے تھے ، فقط چلنے سے کیا ہوتا
بہت آگے گئے لیکن بہت پیچھے نکل آئے
اب یہ تو پڑھنے والے خود بھی بتا سکتے ہیں کہ اس آنکھ مچولی میں کچھ ترقی بھی ہوئی یا پچھلی بھی کھوئی۔ کالم کا ورق نبڑ گیا ۔ چلتے چلتے فیض صاحب کی ایک حکایت سنتے ہیں۔ روایت ہے کہ ایک انقلابی صاحبزادے بے قرار ہو کر فیض صاحب کی خدمت میں پہنچے اور مچل کر پوچھا، ’فیض صاحب ، انقلاب کب آئے گا؟‘
فیض نے سگریٹ کا کش لیا، ایک مخصوص دھیمی سی ’ہوں‘ کی اور کہا ۔ ”بھئی آ جائے گا، انقلاب آ جائے گا۔ ابھی آپ کی عمر ہی کیا ہے۔“