سورج مکھی کے پھول

August 24, 2013

سیاست ایک چومکھی لڑائی ہے۔ہر لحظہ ، ہر لمحہ کوئی نہ کوئی مشکل سر اٹھاتی رہتی ہے لیکن ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ مشکلات کے ساتھ ساتھ مواقع بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ سیاست میں مواقع اور مشکلات جس طرح کندھے سے کندھا ملا کر چلتی ہیں ، شائد کسی اور شعبے میں ایسا نہیں ہے۔ پھر سیاست بیک وقت ایک انتہائی معتبر اور مقدس شعبہ بھی ہے اور انتہائی غلیظ اور گھٹیا بھی۔ کچھ لوگوں کی سیاست دیکھ کر رشک آتا ہے (جو پاکستان میں تقریباً ناپید ہیں)اور کچھ لوگوں کی سیاست دیکھ کر گھِن آتی ہے( ہمارے ہاں تو اسی قبیل کے لوگوں کا راج ہے)۔ سیاست یا تو مفادات کیلئے ہوتی ہے ، یا خوبصورت خوابوں کی تعبیر کیلئے ، ان دو انتہاؤں کے درمیان کئی ایک درجے ہیں۔ زیادہ تر سیاستدانوں کا رجحان مفادات والی انتہا کی طرف ہوتا ہے، جبکہ بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو خوابوں والی انتہا کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔خواب دیکھنے والے سیاستدانوں میں سے ،اقبال کے شاعرانہ تخیل کے مطابق ، ہزاروں سال بعدوہ دیدہ ور پیدا ہوتے ہیں جن کیلئے نرگس کے پھول اپنی بے نوری پہ روتے رہتے ہیں۔ مجھے ایسے دیدہ وروں کے حالاتِ زندگی پڑھنے کا بہت شوق ہے اور یہ شوق میری شعوری زندگی کے اوائل ہی میں پیدا ہوگیا تھا۔ اسی شوق نے میری آئندہ زندگی کے اہم فیصلوں کی راہیں متعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔اسی شوق کی دین ہے کہ آج میں سیاست کے پُرخارراستے کا مسافر ہوں ۔ میر ا لکھنے لکھانے کا شوق اور میری تحریریں بھی اسی شوق کا ہی ایک شاخسانہ ہیں ۔
کتابی اور عملی زندگی میں فرق کے بارے میں بہت سی نصیحتیں سن رکھی تھیں۔ کالج اور یونیورسٹی کے دور میں ہر کوئی عملی زندگی کے ”حقائق“ سے ڈرایا کرتا تھا۔ مجھے بھی عملی زندگی کا بہت خوف تھا لیکن آج عملی زندگی کے دس سال گزارنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ اس سارے عرصے میں عملی زندگی کے خوف کا کبھی احساس ہی نہیں ہوا۔شائد اسکی وجہ یہ تھی کہ یہ سارا عرصہ جدوجہد میں گزرا،اپنے خوابوں کی تعبیر کی جدوجہد میں ۔گناہ گار انسان ہوں ، زندگی میں بہت سی غلطیاں کیں، بہت سی لغزشیں ہوئیں ۔ ہر انسان زندگی میں بیم و رجا کے درمیان پنڈولم کی طرح جھولتا رہتا ہے۔ میں بھی کبھی یاسیت کے عالم میں اپنے اعمال کا حساب کتاب کرتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ خامیاں ہی خامیاں ہیں ، کمزوریاں ہی کمزوریاں اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ اتنے بڑے بڑے خواب۔ لیکن جب امید کا سورج طلوع ہوتا ہے تو ہر چیز سے بے نیاز سرپٹ اپنے خوابوں کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتا ہوں۔
عملی زندگی مفادات، انکے ٹکراؤ اور اپنے مفادات کے تحفظ سے عبارت ہے اورکیوں نہ ہو ،قانونِ قدرت ہے بڑی مچھلی اپنی بقا ء کے مفاد میں چھوٹی مچھلی کو کھائے گی اور چھوٹی مچھلی اپنی بقاء کے مفاد میں بڑی مچھلی سے بچنے کی کوشش میں رہے گی۔ عملی زندگی میں تو یہ حقیقت کئی پردوں کی دبیز تہوں میں چھپی رہتی ہے ،لیکن عملی سیاست میں پردوں کی تہیں بہت باریک ہوتی ہیں اور بغیر کسی خاص تردد کے مفادات کا ٹکراؤ اور اپنے اپنے مفادات کا تحفظ واضح ہو جاتا ہے۔ جہاں عملی سیاست پر لکھی جانے والی بہت سی کتابیں نرگس کے پھولوں کے نور سے منور ہیں ، وہیں عملی سیاست سورج مکھی کے پھولوں سے بھری پڑی ہے۔
کبھی کبھا ر صبح کی سیر کے دوران میری نظر سورج مکھی کے پھولوں پر رُک جاتی ہے۔ اندھیر منہ نکل جاؤں تو افسردہ ، ارد گرد کے ماحول سے بے نیاز، تنہائی کا شکار سورج مکھی کے پھول منہ بسورے ہوئے محسوس ہوتے ہیں لیکن جیسے جیسے پوپُھوٹنا شروع ہوتی ہے تو سورج مکھی کے پھولوں میں زندگی کی لہر دوڑنا شروع ہو جاتی ہے ، ہشاش بشاش ہو جاتے ہیں ، تنہائی کے بجائے اب ان میں ایک گروہی احساس نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔بے چینی کے آثار نمایاں ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ سورج مکھی کے سارے پھول مل کر چڑھتے سورج کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔ افق سے سورج کی ابتدائی کرنیں نمودار ہونے تک سب کے سب با جماعت اپنا قبلہ درست کر کے ہوشیار باش کی حالت میں نظر آتے ہیں۔اور جب سورج پورا نکل آتا ہے تو انکی صف بندی دیکھنے والی ہوتی ہے، انکی خوبصورتی دل کو لبھا جاتی ہے ۔ ایسے ٹکٹکی باندھ کر سورج کو دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ جی چاہتا ہے کہ میں بھی ٹکٹکی باندھ کی انہیں دیکھتا رہوں۔
اتنے میں صبح کی سیر کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور میرا دھیان عملی سیاست کے جھمیلوں کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ یہاں بھی تو سورج مکھی کے پھول بھرے پڑ ے ہیں۔اوسط قد کے عام پھول ہو ں یا پھر قد آور اور نمایاں پھول، سب کے سب سورج کے سامنے با ادب کھڑے نظر آتے ہیں ۔میرے مختصر مشاہدے میں کتنے ہی سورج طلوع ہو کر غروب ہو چکے ہیں اور سورج مکھی کے پھول ہر سورج کے ڈھلنے تک اس کا پیچھا کرتے ہیں ۔ہمارے ہاں تو بعض اوقات سورجوں پر بھی سورج مکھی کے پھولوں کا گمان ہوتا ہے۔ وہ بھی تو کسی نہ کسی دوسرے سورج ، کسی نہ کسی دوسری کہکشاں کا پیچھا کررہے ہوتے ہیں۔لیکن اس سارے گورکھ دھندے میں نرگس کے پُر نور پھول کہیں دکھائی نہیں دیتے۔بلکہ ہمارے ہاں تو نرگس کے پھولوں َکی بے نوری کا یہ عالم ہے کہ وہ بھی سورج مکھی کے رسیا نکلتے ہیں اور پھر اپنی بے نوری کا رونا روتے ہیں۔
پاکستان کی پچھلے ایک عشرے کی سیاست میں ق لیگ،پھر پیپلز پارٹی، پھر ن لیگ اوراب تحریکِ انصاف کی سیاست اپنی سرشت سے مجبورایسے ہی مفاد پرست سورج مکھی کے پھولوں سے بھری پڑی ہے۔ اقتدار کی آرزو کے بغیر سیاست بے معنی لیکن مقصد کی آرزو کے بغیر سیاست ایک بوجھ ہے ، ایک جرم ہے۔ ق لیگ کی تو قل خوانی ہوئے بھی عرصہ بیت گیا ۔ پیپلز پارٹی البتہ حالتِ نزاع میں ہے اور سنبھلے کے آثار مخدوش۔ ن لیگ کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر ہے ، صرف اقتدار کا ۔ اقدار اور مقصد تو خال خال ہی نظر آتے ہیں۔تحریکِ انصاف البتہ مقصد اور اقتدار کے درمیان جھولتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ کبھی لگتا ہے کہ مقصد غالب رہے گا اور کبھی محسوس ہوتا ہے کہ اقتدارہی مقصد بن جائے گا۔ عمران خان کہتے ہیں کہ مقصد پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا لیکن مقصدکی خاطر سمجھوتہ کیا جا سکتا ہے۔ یقینًا وہ تمام فیصلے اور سمجھوتے ، جنہیں تبدیلی کا خواب دیکھنے والے انکے مثالیت پسند پیروکار اور انکے ناقدین دونوں گروہ انکی غلطیوں سے تعبیر کرتے ہیں، وہ انکو مقصد کے حصول کے لئے کئے جانے والے سمجھوتے خیال کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جیسے ہر قانون کی کوئی نہ کوئی استثنائی صورت ہوتی ہے اسی طرح ہر مقصد کسی نہ کسی ناگزیر سمجھوتے کے بندھن کے ساتھ بندھا ہوتا ہے۔ سیاست بے لچک نہیں ہو سکتی۔لیکن بعض سمجھوتے مقصد سے بھی بڑے ہوتے ہیں جومقصد کو نگل بھی سکتے ہیں۔مفاد پرست سیاسی گروہ کیلئے دروازے وا کرنے والے سمجھوتے میں یہ خطرہ بدرجہ اتم موجود ہے اور اسکے اثرات بھی محسوس ہو رہے ہیں۔
سورج مکھی کے پھولوں سے توقع رکھنا کہ وہ اپنی جبلت سے بغاوت کر دیں گے، خام خیالی ہے اور خام خیالی ہی رہے گی۔وہ ازل سے سورج کی پوجا کرنے کے پابند ہیں اور ابد تک رہیں گے۔