”نوشتہ دیوار “

August 28, 2013

”لاہور پولیس نے تحریک ِ انصاف کے دھرنے پر دھاوا بول دیا“(روزنامہ جنگ)۔ مطالبہ کیا تھاکہ حلقہ 150 PP میں دوبارہ گنتی ہو۔جب دھاندلی زبانِ خلق بن ہی گئی تو مطالبہ ماننے میں ہی عافیت بھلاانسانیت کی تذلیل اور تضحیک کی کیاتُک۔ عذر پیش کیاتو بدتر ازگناہ ۔ دفعہ 144جو انگریز بہادرنے عوام کو کچلنے کے لیے ترکے میں دی ایک مزاحیہ پروگرام ہی تو ہے۔مانا کہ دھاندلی نہیں ہوئی مگر اس تاثر کو زائل کرنا حکومت کا کام کیونکہ نشست اور حکومت دونوں پر ن لیگ قابض ۔خادمِ اعلیٰ سے موٴدبانہ گزارش کہ جو حکم پُرامن مظاہرین اورخواتین کی حرمت کو ملیامیٹ کرتا رہا وہ آپ کی خدمت ِعوام کا کیا تاثراجاگر کرگیا۔ ایک روز پہلے پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما جناب منیر احمد خان سینئر ایڈووکیٹ کو پولیس نے 5 سالہ پرانے مقدمہ میں اٹھایا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ کیا وزیراعلیٰ پنجاب اس گھناؤنے کلچر سے اپنے تیسرے دور کا آغازکرنا چاہتے ہیں؟خدارا ہوش کے ناخن لیں ،پرتشدد سیاست کو قصہ ِ پارینہ ہی رہنے دیں۔ اس سے ماضی میں بھی نقصان اٹھایااور مستقبل میں بھی یہی ہو گا۔ذمہ داروں کو نشانِ عبرت بنانا ہوگا۔
ضمنی انتخابات ”منی “ انتخابات ہی تو تھے۔ میڈیا گھنٹوں بلکہ پہروں ملوث رہا۔ نتائج دورس اثرات کے حامل۔ تحریکِ انصاف اور مولانا فضل الرحمن شدید مضروب، مسلم لیگ کو خاطر خواہ دھچکا البتہ اے این پی کو خیبر پختونخوا میں پیر رکھنے کی چند گز زمین مل گئی البتہ ”بالو بتیاں“ کہ پیپلزپارٹی نے پنجاب میں دو نشستیں جیت کر اپنی موجودگی کا احساس دلوا دیا۔منی انتخابات نے صرف ان لوگوں کو حیران کیا کہ سیاست کا ادراک نہ تھا۔ 21 اگست بروز بدھ کو ضمنی انتخاب کے بارے میں تحریری سند دی تھی۔ ”میانوالی کا رزلٹ 22 اگست کو نکلے گا بتا میں ابھی دیتا ہوں کہ چیئرمین صاحب میانوالی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فارغ ۔ میانوالی اپنی توہین اور بے توقیری کا بدلہ چکانے کے لیے جت چکا ہے“۔یہ نشست اس لحاظ سے آبائی تھی کہ70 فیصد نیازی قبیلہ NA-71 میں آباد ہے اور عمران کو سپوت جانا۔کئی متاثرین تحریک ِ انصاف اورتجزیہ نگاروں نے میری پیشین گوئی کو تجاوز سمجھا جب جمعرات کو نتائج آنا شروع ہوئے تو کچھ احباب اور متعلقین نجومی، پیرفقیر کا لقب دے بیٹھے۔میں نے تو صرف نوشتہِ دیوارہی پڑھا تھا۔تحریک انصاف کی بدقسمتی کہ ابھی سیاست میں ایک قدم آگے بڑھا نہ تھا کہ دو قدم پیچھے پھسل گئی جبکہ آفرینش ہی سے غیبی تنبیہ پرحضرت انسان نے کان کبھی دھرے نہیں۔ نوشتہ پڑھنے کے لیے دو آنکھیں اور ڈھنگ کی تعلیم کافی نہیں فہم و فراست، عقل و دانش کی اضافی بینائی درکا ر ہے۔ نام نہاد سیاسی رہنماؤں کی بدقسمتی کہ یکسر محروم۔استطاعت ناپید اس پر استبداد اورپُرکاری کا تڑکہ۔حالیہ شکست سے پہلے ہی ورکرز کی چیخ وپکار، آہ وبکا کان پھاڑتی نظر آئی مگر قائدین صُمٌ بُکمٌ۔ مرضی، مفاد، پسند، کم عقلی اپنی ہی پارٹی کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں کام آئی ۔ کم و بیش تما م پارٹیاں اپنی جیتی نشستوں پر رعونت کے ساتھ انتخاب میں گئیں اور منہ کی کھائی مگر خدشہ فقط PTI سے کہ سبق نہ سیکھ پائے گی ہر غلطی کے بعد مزید غلطیوں کے گرداب میں پھنسنا محبوب مشغلہ ہے۔ NA-71 سے ہارنے پر ذاتی افسوس اس لیے کہ کچھ دیرخدمت کی، یہ علیحدہ بات کہ صلہ پیٹھ کا خنجرٹھہرا۔جب میری افادیت ختم ہوئی توگلوخلاصی لازم تھی۔ #
دیکھا جو کھا کے تیر کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی ”بھائی“ سے ملاقات ہو گئی
تحریک کے چند سینئر رہنماؤں کی تشویش کہ اگر انعام اللہ خان نیازی سینئر نائب صدر PTI کے ساتھ بھیانک واردات ہو سکتی ہے تو باقی عوام و خواص کس باغ کی مولی، بالکل ٹھیک: ہر حادثے کے لیے تیار رہنا ہوگا ۔ساتھی ٹشو پیپر ہی تو ہیں جبکہ کزن کو دھتکارنے پر شہرت کو مزید چار چاند لگنے کا امکاں بھی اور روحانی تسکین بھی۔ Rob Crilly کو انٹرویو میں یہی تو بتایا کہ میری پارٹی نے میرے کزن کو ٹکٹ نہیں دیا تو وہ میرے خلاف ہو گیا۔ طاقتور آدمی کی غلط بیانی کا جواب صرف خدائے برترکے بس میں ہے۔ میانوالی کا نتیجہ قدرت کا انتقام ہی تو ہے۔ 96 اور 2002 میں اپنے کاروبار کو اللہ کے سپرد کرکے ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصہ میانوالی منتقل رہا۔ 2002 کی جیت آج کیPTI کا بیج ہی تو تھی۔ اس وقت خاندان نے پوری تگ و دو کے ساتھ عمران کومیانوالی کا نیازی سپوت بنا کر مارکیٹ کیا کہ NA-71 میں یہی مضبوط سیلنگ پوائنٹ تھاگو جناب کا نیازی قبیلہ سے کچے دھاگے جیسا تعلق بھی نہ تھا۔سارے کالا باغ ، شیرافگن ، روکھڑی ، شادی خیل متحد ہو کر ہرانے میں ڈٹ گئے اور ہار گئے ،جیت عمران کا مقدربنی ۔ PTIکی بدنصیبی کہ قیمتی نشست ہاتھ سے نکل گئی۔ آج خانصاحب جن مصاحبین پر اتراتے پھرتے ہیں بلکہ قومی میڈیا،احباب اور ورکرزکے سامنے ایسے لوگوں کی جعلی اسناد، مالی بدعنوانیوں کا دفاع کرکے پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں جبکہ بُری شہرت والے ساتھیPTI کی بیخ کنی کا موجب۔ عرصے سے ملتجی تھا کہ شخصی ملکیت پارٹی کے لیے زہر قاتل مزید برآں آپ کے اندر سیاسی ٹیم بنانے کی صلاحیت سرے سے موجود نہیں۔ بلنڈرز، ذاتی پسند، ناپسند اور غیرسیاسی فیصلوں کے جس لامتناہی سلسلے کو مضبوطی سے تھامے ہیں ، نتیجہ بار بار پریشانی اور ہزیمت ہی ہو گا۔
میرے انتہائی محترم اور سکہ بند دانشور دوست کی کالم میں کہی بات حرف ِ آخر ہی تو ہے۔” راولپنڈی کی نشست انہوں نے اس لیے چھوڑی تھی کہ ڈر تھا شاید مسلم لیگ یہ نشست ان سے چھین نہ لے ۔ لوگوں نے سمجھایا بھی کہ میانوالی کی آبائی نشست نہیں چھوڑ نا چاہیے۔یہ بات بھی طے ہو گئی کہ امیدواروں کے انتخاب میں تحریک انصاف ابھی پختہ کار نہیں ہوئی۔یہ بات بھی پتہ چلی کہ پارٹی کی اندر کی سیاست پربھی پارٹی قیادت کا کنٹرول نہیں۔ بعض لوگ اسے تحریک انصاف سے عوام کی مایوسی بھی سمجھتے ہیں،مگر یہ بات خیر ابھی دورازکار ہے۔ اتنا البتہ ضرور ہے کہ انتخابات کے بعد کے عرصے میں تحریک انصاف کا ناپختہ ذہن کارکن ہاتھ پاؤں چھوڑ بیٹھا۔ عمران کی لیڈپشاور میں 60 ہزار کی تھی۔ بلور تو اپنے ووٹوں میں صرف 12 ہزارکا اضافہ کر سکے، مگر عمران کے تقریباً60 ہزار ووٹرز غائب۔ یہ ہے سیاسی کارکنوں کی جماعت اور ایک نئے جوشیلے نوجوانوں کے ہجوم میں فرق ۔جہاں تک میانوالی کی نشست کا تعلق ہے ۔ میں نے اس پر تبصرے سے بوجوہ انحراف کیا ۔ عمران یہاں نہیں رہتے، ان کا خاندان یہاں رہتا ہے۔ انہوں نے ایک ہی ہلے میں خاندان کی سیاست کو ملیامیٹ کر دیا اور ان لوگوں سے اتحاد کر لیا جوخاندان کے مخالفین تھے۔ میں اسے واردات کہوں گا۔ کرکٹ میں جو انہوں نے ماجد خان کے ساتھ کیا، یہاں بھی وہ میرٹ کے نام پر یہی کر بیٹھے۔ میرٹ کیسا؟ ایسے لوگوں کو پارٹی نے ٹکٹ دیئے جن سے ان کے یہ کزن لاکھ درجے بہتر تھے جن کوعمران نے ناراض کیا۔ خیر یہ تو خاندانی معاملہ ہے ۔ پھر نواب کالا باغ کے خاندان سے اتحاد کیسا؟ بالکل سمجھ میں نہ آنے والی بات ۔سو ہار گئے۔ بھٹو نے کئی جگہ سے الیکشن لڑا۔ مگر نشست لاڑکانہ کی ہی اپنے پاس رکھی۔ عمران اپنی آبائی نشست بھی ہار گئے، اگر اسے آبائی نشست کہا جائے۔ نفسیاتی طور پر یہ بہت بڑی ہزیمت ہے“۔ میری مختصر عرضداشت میں جنہوں نے میانوالی نشست چھوڑنے کا مشورہ دیا تھا ان کی شناخت تو کروائیں۔ دلیل تھی بھی اچھوتی کہ ”راولپنڈی کی سیٹ چھوڑی تو حنیف عباسی جیت جائے گا“۔ مزید برآں میانوالی میں خاندان کے مخالفین کو مشرف بہ انصاف کا فریضہ سر انجام دیا توسمجھا” کافی ہو گا“۔ نتیجہ بتاتا ہے ”ناکافی تھا“۔ مجھے یقین ہے میانوالی کی سیٹ رکھتے تو پشاور پر بھی مثبت اثرات پڑتے۔ ٹکٹ کے لیے کالا باغ خاندان چُنا تو نتیجہ بھی چن لیا۔ ایک خاتون کی نااہلی پر اللہ نے موقع دیا کہ ازالہ کیا جاتااس خانوادے کومنطقی انجام تک پہنچانے میں میانوالی کے لوگوں نے نجانے کتنی قربانیاں دیں۔میانوالی کے لوگ تو بپھرے ہی تھے جبکہ غریب وطن سے آپ کا اپنا تعلق کبھی وجہ افتخارنہیں رہا بلکہ ساری زندگی میانوالی کوہ گراں ہی رہا۔شاید یہ بھی معلوم نہ ہو کہ چچا امان اللہ خان اور ظفر اللہ خان پرنواب کالاباغ کی تاک تاک کر داغی گولیاں آپ کے خاندان کی درخشاں سیاست کا سنہری باب ہیں۔ لیکن کیا کیا جائے پھول کی نازک پتی سے ہیرے جیسے سخت پتھر کو تو کاٹا جا سکتا ہے لیکن ۔۔۔۔ سمجھانا مشکل ؟سمجھ پاتا تو تبدیلی پیامبر ہزیمت کا شکارآج زخم نہ باندھ رہا ہوتا۔
دہراتا ہوں کہPTI میں اسلوبِ سیاست کی غیرموجودگی بنیادی کمزوری ہے ۔ ”تبدیلی پیامبر“کاجعلی ڈگریوں ، جعل سازیوں اور مالی بدعنوانیوں کا دفاع قبیح منظر۔ میانوالی میں جب لوگوں کو نالاں دیکھا تو یہ کہہ کر جان چھڑوائی کہ ” چوائس بھی کیا تھی میں نے میانوالی کے چار خاندانوں میں سے ایک کو ٹکٹ دے دیا“۔ایسی گفتگواستطاعت، لاعلمی، تشخص اور صاف شفاف امیج کو گدلا ہی کر ے گی جبکہ دیانتداری پر سوالیہ نشان اس کے علاوہ؟اگر پارٹی الیکشن کے اندر دھاندلی اور فراڈ پر کڑی گرفت ہو جاتی ذمہ داروں کو کڑی سزا ملتی اور پارٹی قیادت ورکرز کے غصے کی آگ طفلی تسلیوں سے نہ بجھاتی تو 11 مئی کے نتائج کچھ بہتر ہو سکتے تھے ۔
جناب تسنیم نورانی،جناب احمد اویس اور یعقوب طاہر صاحب پر مشتمل کمیٹی پارٹی الیکشن اور پارلیمانی بورڈکی دھاندلیوں کی تحقیق تفتیش کر رہی ہے ۔ بفرض محال جعل سازی ، دھاندلی اور فراڈ و کرپشن پر کچھ معلومات اکٹھی ہو بھی گئیں تو اب بعد ازخرابی بربادی پر نوحہ ہی لکھا جا سکے گا۔ نااہلی ، نالائقی ،بدنیتی سے پہنچنے والے نقصان کا ازالہ ممکن نہیں ۔ PTI کی تکلیفوں ، ہزیمتوں کا سہر اکس کے سر باندھنا ہو گا؟ کس کے دستانے اتار کرہاتھ پر لہوتلاش کیا جائے؟یہ دن بھی نصیب میں تھے کہ تحریکِ انصاف میانوالی اپنی ہار کا جشن مناتی نظر آئے۔NA-71 تحریکِ انصاف کا قلعہ ہی توتھا۔ اس قلعے کومسمار کرنے کاذمہ دار کون؟تعین ضروری ۔ #
دل کے پھپھولے جل اُٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے