نیشنل سیکورٹی پالیسی: گورننس میں تغیر

January 17, 2022

الحمدللہ !کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے۔ اسٹیٹس کو کی پی ٹی آئی برینڈ گورننس میں بڑی ہل چل ہوئی، سانس چڑھی،قانون سازی کے بعد اب نیشنل سیکورٹی کا اعلان بھی ہو گیا ۔گویا عجیب الخلقت عمرانی حکومت پالیسی سازی کی طرف ہی آ گئی ۔پہلی حکومتیں نہ آئیں تو ان کا نہ آنا سمجھ میں آتا ہے کہ وہ تو ملک میں موجود تشکیل دینے والی اور اسی جاری نظام بد کی علمبردار تھیں ۔پی پی اور ن لیگ نے اسے ہی ’’حسین جمہوریت‘‘ کی چادر اوڑھا کر پروان چڑھایا تھا۔سو ان کی حکومتیں اپنی ساری گورننس الیکٹ ایبلز کی اپروچ سے ہی چلاتی رہیں۔نان الیکٹ ایبل باشعور و باضمیروں پر تو سیاست کے دروازے بند ہی رہے اسی کا شاخسانہ تھا کہ ان کی گورننس میں اسی روایتی بنیاد کے (الیکٹ ایبلز) کے غلبے کو چیلنج کرتی تحریک انصاف تبدیلی کے پر زور ایجنڈے پر برسر اقتدار آئی تو اس کے پاس مطلوب تغیر کے لئے کچھ بھی تو خالص نہ تھا ۔پی ٹی آئی خود بھی ایسے ہی الیکٹ ایبلز کے ساتھ جکڑی اقتدار میں آئی ۔اس کی اپنی جھولی کے نصف پھل تازہ ضرور تھے ، لیکن مزے میں نہ غدا میں، خود خان اعظم کی قائدانہ خوبیوں سے جڑا ادھورا پن اور قابل تنقید و احتساب پہلو اقتدار میں آکر عود کر آئے۔ بہرحال ساڑھے تین سال بعد ان کے اقتدار میں سے کچھ نکل ہی آیا ۔یہ واضح رہے جو نکلا ہے وہ مطلوب کل کا جزو ہی ہے جس کے پہلے بھی نکلنے میں کویڈ 19رکاوٹ تھا نہ آئی ایم ایف کی جکڑی بندی اور مہنگائی ،اب جو نیشنل سیکورٹی پالیسی آئی ہے وہ اسی ماحول میں آئی ۔واضح طور پر یہ این ایس اے سعید یوسف کی علمی معاونت کا حاصل ہے۔اب یہ واضح ہو کہ جو بھی پالیسی ہے وہ کمیوں خامیوں سے بالکل پاک نہیں ہو گی کیڑے کانٹوں کی نشاندہی ہو گی ۔ہونی بھی چاہئے ۔اپوزیشن کے تنقید ی تیروں کی بارش ہوگی وہ اپوزیشن ہی کیا جو فرینڈلی یا رحم دل ہو جائے خصوصاً تب جب مہنگائی نے پی ٹی آئی حکومت کی مقبولیت کا گراف اتنا گرا دیا کہ خیبر پختونخوا میں بھی بغیر کسی دھرنے یا لانگ مارچ کے بلدیاتی انتخاب میں مولانا صاحب کی لاٹری نکل آئی، ماہی بے آب کو اچھا خاصہ جل مل گیا ۔اگلے انتخاب کے بعد پھر فارن ریلیشنز کمیٹی ہاتھ لگنے کی امید جاگ گئی ۔رہی نیشنل سیکورٹی پالیسی اس کے رسمی اعلان میں ادھوری سی ابتدائی وضاحت میں بظاہر پالیسی خاصی اختراعی گتی ہے یہ عمران حکومت کی جانب سے ملک کے ایک حساس اور ترجیحی شعبے کی پالیسی کا اعلان ہے ۔پالیسی کا بظاہر امتیاز و خواص یہ ہی معلوم دیتا ہے کہ اس میں ’’سیکورٹی‘‘ کے روایتی تصور سے ہٹ کر ملکی سلامتی کو عوامی ضروریات اور قومی اقتصادیات کی علمی بنیاد کے ساتھ جوڑ کر نیشنل سیکورٹی کو ایک مربوط شکل (INTEGRATED FORM)میں لایا جائے گا جو پاکستان ہی نہیں ترقی پذیر دنیا میں سلامتی کی قومی پالیسی کا یکسر نیا ماڈل ہو گا جبکہ بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک بھی نیشنل سیکورٹی کو ہیومن ڈویلپمنٹ سے تو نہیں جوڑتے تاہم اس کا امن و سلامتی کے متعلقہ علوم سے گہرا تعلق قائم کیا جاتا ہے،تبھی یہ طاقتور ترقی یافتہ ممالک اپنے بین الاقوامی تعلقات اور امن و دفاع کی پالیسی کیلئے بڑا انحصار یونیورسٹیوں پر کرتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت میں اس ماڈل کو اختیار کرنے کےلئے’’ ہنوز دلی دور است‘‘ ہے، لیکن گزشتہ روز اعلان کی گئی نیشنل سیکورٹی اس لحاظ سے بہت اختراعی اور علمی معاونت کی حامل ہے کہ اس کی بنیاد فقط سرحدوں کی حفاظت سے آگے قومی سلامتی کے تازہ ترین تصور ’’ہیومن سیکورٹی ‘‘ پر تیار کی گئی ہے ۔اس بنیاد پر یورپ کی فلاحی ریاستیں تو نیشنل سیکورٹی کی حامل ہیں لیکن امریکہ جیسی دفاعی طاقت ہے نہ ترقی پذیر دنیا میں سب سے زیادہ عسکری بجٹ کا حامل بھارت اپنی سلامتی کی پالیسی کی تیاری میں عوام کی اقتصادی سماجی حالت کو خاطر میں لاتے ہیں۔لاتے تو امریکہ میں 2011ء میں غرباء کی آکوپائی وال سٹریٹ موومینٹ چلتی نہ بھارت غربت کی موجود الارمنگ سطح اور گھمبیر داخلی عدم استحکام سے دوچار ہوتا۔ دونوں نے مل کر افغانستان میں جو سرمایہ بہایا اس سے افغانستان مستحکم ہوا کیونکہ دونوں نے اپنی سلامتی کے من مانے اہداف حاصل کرنے کیلئے اپنے غریب عوام کی حالت کو بے رحمی سے پس پشت ڈالے رکھا ۔نتیجہ نکلنے پر دہائی ضرور پڑی کہ ہمارے ٹریلین اور بلیئنز ڈالر ڈوب گئے اور افغانستان کے پہاڑ کھودنے سے چوہا بھی نہ نکلا ۔واضح رہے کہ ’’ہیومن سیکورٹی ‘‘ کا تصور کوئی اتنا نیابھی نہیں ہے، اس پر علمی نظری بنیاد نہیں، عشرے کی کہانی ہے میں خود 90کے عشرے میں یہ موضوع اپنی ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن کے کورس میں پڑھاتا رہا۔’’آئین نو‘‘ میں بھی قارئین کی دلچسپی کے لئے داخلی اور ملکی سلامتی کے حوالے سے اسے زیر بحث لاکر واضح کیا گیا ۔ہم سب پاکستانیوں کے لئے اہم اور دلچسپ یہ ہے کہ سلامتی کے اس اختراعی تصور اور پھر اس کی عملی شکل۔اقوام متحدہ ہر سال ترقی پذیر ممالک کے عوام کی سماجی اقتصادی حالت پر رپورٹ شائع کرتی ہے ’’ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس ‘‘ کے آرکیٹیکٹ ممتاز پاکستانی ماہر اقتصادیات ڈاکٹر محبوب الحق مرحوم تھے۔ ان کے اس تصور کو ان کی اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی سے وابستگی کے دوران بہت پذیرائی ملی ۔ان کے ہیومن سیکورٹی پیپرز پر ایک ثمر آور طویل ڈائیلاگ کا آغاز تو 1991ء سے ہی شروع ہو گیا تھا 1994ء میں جسے عالمی قبولیت حاصل ہوئی سو اس اعتبار سے بھی اعلان کی گئی نیشنل سیکورٹی پالیسی کا سورس آف انسپائریشن ایک پاکستانی کی ’’قومی سلامتی بذریعہ عوامی خوشحالی و استحکام کی اپروچ کا عکاس ہے وہ اپروچ جو عمل میں ڈھل گئی اور اسے عالمی قبولیت حاصل ہوئی ’’ہیومن سیکورٹی ‘‘ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس کا ہی ارتقا ہے جو ریاستی سلامتی کےلئے متعلقہ ریاستی دفاعی ضروریات کا رخ عام شہری کی طرف موڑ کر ہر دور میں توازن کو یقینی بناتا ہے سوویت یونین کا انہدام اسی عدم توازن کی شاخسانہ تھا جب اس نے افغانستان پر برہنہ جارحیت (دسمبر 1979ء) ڈیزائن کی تھی تو اپنے عوام کی تعلیمی اقتصادی حالت کو یکسر نظرانداز کیا تھا۔ ابتدا میں نیشنل سیکورٹی پالیسی کی بڑی خامی یہ سامنے آئی کہ قومی سلامتی کے اتنے نئے ڈیزائن اور اس پر ہی اختراعی پالیسی کی تشریح و وضاحت برائے عوام عام کرنے میں حکومت بالکل ناکام رہی اسکا تجسس پیدا کرکے اعلان پر بھی کوئی واضح تشریح نہیں کی گئی۔ یہ کہنا بالکل ناکافی ہے کہ سیکورٹی کو تعلیم اور قومی اقتصادیات کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے ۔اصل فلاسفی (غالباً) یہ ہی ہے کہ قومی سیکورٹی میں ریاست ہی نہیں عام شہری کو بھی سٹیک ہولڈر بنایا جائے اور سرحدوں کی سیکورٹی اور عوامی خوشحالی و اقتصادی استحکام میں توازن پیدا کیا جائے پالیسی پوری کھل کر سامنے آئے تو اس پر مزید تبصرہ و تجزیہ ہو۔ بڑا سوال یہ ہے کہ اس پالیسی کا کوئی کمیونیکیشن سپورٹ سسٹم ہے ؟ نہیں تو تنقید و ڈائیلاگ میں پالیسی میں اضافہ، ترمیم کی کوئی گنجائش ہے یا یہ آگئی اور بس اب یہ ہی حتمی پالیسی ہے ؟ کیا اسکے نتیجے میں کوئی قانون، ادارہ سازی ہوگی ؟ کسی نئے اسٹیک ہولڈرز کا تعین ہوا ہے ؟ جیسا کہ قومی سلامتی کو عوام سے وابستہ کرنا ’’ہیومن سیکورٹی ‘‘ کی فلاسفی کے مطابق بنیادی تقاضہ ہے ۔