کھاد کا بحران

January 29, 2022

پاکستان ایک زرعی ملک ہے، جس کا ہماری عدم توجہی کے باعث یہ حشر ہو چکا کہ وہ اجناس مثلاًگندم،جو ہم برآمد کر کے زر مبادلہ کماتے تھے آج ہمیںاربوںڈالر خرچ کرکےدرآمد کرنا پڑ رہی ہے،جس سے ہمارا کرنٹ اکائونٹ خسارہ بڑھ گیا ہے۔اس پہ مستزاد یہ کہ محکمہ زراعت پنجاب نے گندم کی جائزہ کمیٹی کو بتایا ہےکہ صوبہ کھاد کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے ایک کروڑ 67 لاکھ ایکڑ رقبے پر نظر ثانی شدہ بوائی کا ہدف حاصل نہیں کرسکے گا۔وفاقی وزیر برائے تحفظ خوراک و تحقیق فخر امام کی زیر صدارت کمیٹی کے اجلاس میں صوبائی زرعی محکموں کے نمائندوں نے ڈی اے پی اور یوریا کی دستیابی اور ان کی قیمتوں پر تشویش کا اظہار کیا،اجلاس میں عمومی اتفاق رائے تھا کہ سرٹیفائیڈ بیج دستیاب ہے لیکن یوریا کی زیادہ قیمتیں اور عدم دستیابی ایک مسلسل چیلنج ہے۔فخرامام نے صوبوں کو یقین دلایا کہ کھاد سمیت پیداواری عوامل کی وافر فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے فوری ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔ جہاں تک کھاد کا تعلق ہے یہ کاشتکاری کا لازمہ ہے اور دسمبر کے اواخر میں گندم کی بوائی کے وقت ہی کھاد کی عدم فراہمی سے گندم کی فی ایکڑ پیداوار کے حوالے سے خدشات پیدا ہوگئے تھے، محکمہ زراعت پنجاب نے بروقت کھاد کی عدم فراہمی کا معاملہ اٹھایا تاہم اس کے باوجود وفاقی حکومت ڈی اے پی اور یوریا کی فراہمی کو ممکن نہ بنا سکی۔ ناقابل تردید حقیقت یہ ہےکہ پاکستان کی معیشت تمام تر ملکی و غیر ملکی منصوبوں کے با وجودتب تک مستحکم نہیں ہو سکتی جب تک ہم خوراک میں خود کفالت حاصل نہیں کر لیتے۔حکومت زراعت کو اولین ترجیحات میں شامل کرکے قابل کاشت رقبوں کو ہائوسنگ سوسائٹیوں کی دستبرد سے بچائے، اسے جدید خطوط پر استوار کرکے فی ایکڑ پیداوار بڑھائے تاکہ عوام کو باافراط اجناس دستیاب ہوں،باقی معاملات بعد کے ہیں۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998